تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ
سوال : بیمہ کی شرعی حیثیت کیا ہے جبکہ بعض علماء نے اس کے جواز کے فتوے بھی دیے ہیں؟
جواب : بیمہ مطلقاً ناجائز اور حرام ہے خواہ زندگی کا ہو یا مکان اور گاڑیوں وغیرہ کا کیونکہ یہ اپنی اصل وضع میں جوئے اور سود کا مرکب ہے اور اسلام میں سود اور جوا دونوں حرام ہیں۔ اگر مدت مقررہ سے پہلے بیمہ دار کی موت یا املاک کا نقصان ہو جائے تو کمپنی کو نقصان ہوتا ہے اور اگر وہ پوری قسطیں جمع کرا دے تو کمپنی کو فائدہ ہوتا ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ قسطیں پوری ادا ہو سکیں گی یا نہیں ؟ اور سود اس لیے ہے کہ بیمہ دار اگر پوری قسطیں جمع کروائے تو اس کو اس رقم کے ساتھ سود دیا جاتا ہے۔
بیمہ سے وراثت کا شرعی نظام ختم ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ بیمہ کی رقم بیمہ دار کے مرنے کے بعد اس کے نامزد کردہ شخص کو دی جاتی ہے جب کہ ہر شرعی وارث ترکہ کا مستحق ہوتا ہے۔ جو چیز قرآن وسنت کے نظام کو درہم برہم کرنے والی ہو، وہ کیسے جائز ہو سکتی ہے ؟
عقیدہ تقدیر پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ جائز اور شرعی اسباب بروئے کار لانے کے بعد مستقبل میں پیش آنے والے حوادث اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیے جائیں۔ بیمہ اس سے فرار ہے کیونکہ اس میں حوادث کی پیش بندیاں ناجائز طریقوں سے پہلے ہی ہو رہی ہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم بھی تو دنیا میں رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بھی آل اولاد چھوڑی تھی۔ جب انہوں نے ایسے ناجائز تحفظات کا انتظام نہیں کیا تو آج کے مسلمانوں کو کیوں اس کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ؟
باقی جس حدیث میں ہے کہ جو آدمی اپنے ورثاء کو مرتے وقت غنی چھوڑ جائے وہ بہتر ہے، اس فرمان کو غور سے پڑھیں تو بات بالکل واضع ہو جائے گی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مستقبل کی احتیاطی تدابیر کے متعلق نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ جائز موجود جائداد کو بلاوجہ خرچ کر ڈالنا مناسب نہیں، بعد میں وہ وارثوں کے کام آئے گی۔ باقی سٹیٹ لائف والوں کا یہ کہنا کہ ہمارا شراکت دار نفع و نقصان میں شریک ہوتا ہے، جھوٹ اور دروغ گوئی ہے اور سادہ لوح انسانوں کو اپنے شکنجے میں پھنسانے کا ایک حیلہ ہے۔ کیونکہ بیمہ کمپنی اگرچہ اس رقم سے تجارت بھی کرتی ہو لیکن اس کے منافع میں سے ایک معین اور طے شدہ حصہ بیمہ وار کے کھاتے میں جمع کرتی ہے اور بلاشبہ یہ سود ہے کیونکہ اصل رقم کے علاوہ معین اور طے شدہ منافع کے ادا کرنے کا نام ہی سود ہے۔ اگر یہ نفع اور نقصان ہی کی بنیاد پر قائم ہو تو پھر بھی بیمہ کرانے والوں کو حسب معاہدہ معینہ رقم نہیں ملنی چاہیے بلکہ کمی بیشی کے ساتھ نفع اور نقصان دونوں میں شریک رہنا چاہیے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے بلکہ بیمہ کمپنیاں عام طور پر اصل رقم سے جو کچھ زائد دیتی ہیں اس کی شرح اور مقدار پہلے ہی متعین کر دیتی ہیں۔ اگر کمپنی اس کو معین نہ بھی کرتی ہو بلکہ زائد رقم کو سالانہ نفع اور نقصان کا لحاظ کر کے فیصد پر رکھتی ہو، تب بھی یہ طریقہ بیمہ کے جائز ہونے کی وجہ نہیں بن سکتا، کیونکہ اس کاروبار میں نقصان کا سوال ہی نہیں۔ پھر یہ بات بالکل واضح ہے کہ بیمہ کمپنیاں تمام حاصل شدہ سرمایہ سود پر آگے دے دیتی ہیں اور سودی معاملے میں واقع نقصان کی ذمہ داری قبول نہیں کی جاتی۔ پھر ان کمپنیوں کے متفقہ اصولوں میں سے بعض ایسے اصول بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ سارا کاروبار اور ڈھانچہ ہی شرعاً ناجائز بن جاتا ہے۔ یہ نظام یہودیوں کا ایجاد کردہ ہے۔ جن کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تاکہ مسلمانوں کو اسلام نے سرمایہ کے محفوظ رکھنے اور مال میں اضافہ کرنے، حوادث کی صورت میں مالی معاونت اور پسماندگان کی مالی امداد کے بارے میں جو ربانی ہدایات دی ہیں۔
ان سب چیزوں سے محروم کر کے اسلام سے دور کر دیا جائے، وہ پڑھے لکھے اور نام نہاد علماء جنھوں نے یہودیوں کے غزوہَ فکری سے شکست خوردہ ہو کر یورپ کے موجودہ اقتصادی نظام کی چند خوبیاں اور خوشنما پہلوؤں کو دیکھ کر بیمہ جو سراسر جوا اور سود ہے، کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، ایسے لوگوں کا کردار انتہائی قابل مزمت ہے اور بعض تو اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ یورپ کی ذہنی غلامی نے ان کے دماغوں پر یہ عقیدہ مسلط کر دیا ہے کہ سود کے بغیر معاشی نظام چل ہی نہیں سکتا۔ ایسے علماء کو ایسا فتویٰ دینے سے پہلے اس آیت کریمہ کو اچھی طرح پڑھ لینا چاہیے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
”اپنی زبانوں کے جھوٹ بنا لینے سے یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھو۔ یقیناًً اللہ پر جھوٹ باندھنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔“ [النحل : 116]