مقررہ مدت تک سامان مہیا کرنے کی ذمے داری پر پیشگی رقم دینا
اگر آدمی ضرورت مند ہو اور کسی سے اس بنیاد پر نقد رقم لے کہ وہ ایک مقرر مدت کے بعد اس کو اس کے بدلے گندم، مکئی وغیرہ کی، ان کے پکنے سے پہلے، مقرر مقدار دے دے گا، اگر وہ شخص اپنے ذمے اس واجب الادا مقدار کا التزام کرتا ہے تو یہ مسئلہ بیع سلم کے مسائل میں شمار ہوگا۔ یہ بیع کی ایک قسم ہے جو چند شرطوں کے ساتھ صحیح ہوتی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
(1) یہ اس چیز میں کی جائے جس کی صفت متعین اور منضبط کی جا سکے۔
(2) اس سامان کی اس طرح تحدید وتعین کی جائے کہ جس سے ظاہرا قیمت مختلف ہو جاتی ہو۔ لیکن اس کی جنس، نوع، مقدار، علاقہ، قدامت، جدت اور اعلی وادنی نوعیت کا بیان ہو۔
(3) اگر وہ اپنے والی چیز ہو تو ماپنے کے ساتھ اس کی مقدار ذکر کی جائے، اگر وہ وزن کی جانے والی چیز ہو تو وزن کے ساتھ اس کی مقدار ذکر کی جائے اور اگر وہ چیز گزوں میں دی جاتی ہو تو اس کے گز ذکر کیے جائیں۔
(4) اسے مہیا کرنے کے لیے متعین مدت کی شرط لگائی جائے۔
(5) جس چیز میں بیع سلم کی جارہی ہو، اس کا اپنی جگہ پایا جانا عام ہو، یعنی اس موسم یا جگہ میں وہ چیز عام پائی جائے۔
(6)مجلس عقد میں پیشگی قیمت وصول کرلی جائے۔
(7) اس چیز میں بیع سلم کی جائے جو رقم وصول کرنے والے کے ذمے ہو، یعنی وہ چیز وقت بیع اس کے پاس موجود نہ ہو، لیکن وہ اسے مہیا کرنے کا پابند ہو، اگر وہ کسی متعین (موجود چیز) میں بیع سلم کرے تو یہ درست نہیں۔
بیع سلم کے جائز ہونے کی قرآنی دلیل یہ آیت مبارکہ ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ» [البقرة: 282]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب آپس میں ایک مقرر مدت تک قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو۔“
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بیع سلم (جس میں پیشگی قیمت وصول کرنے والے کے ذمے ایک مدت کے بعد سامان مہیا کرنا لازمی ہوتا ہے) اپنی کتاب میں حلال کی ہے اور اس کی اجازت دی ہے۔“ پھر انہوں نے مذکورہ بالا آیت تلاوت فرمائی۔
اور حدیث سے اس کی یہ دلیل ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور وہ (اہل مدینہ) پھلوں میں ایک دو سال کے لیے بیع سلم کیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی چیز میں بیع سلم کرتا ہے تو وہ معلوم و متعین ماپ تول اور معینہ مدت تک کے لیے کرے۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 1311]
[اللجنة الدائمة: 437]