بچوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دینا
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

ایک عورت بچوں کا استقبال کرتے وقت اور انہیں خوش آمدید کہتے وقت ان سے ترجیحی سلوک کرتی ہے، جبکہ بچوں کا سلوک اپنی ماں کے ساتھ ایک جیسا ہے، اسی طرح وہ اپنے پوتوں سے بھی غیر مساویانہ سلوک کرتی ہے جبکہ ان کا رویہ بھی اس کے ساتھ مساویانہ ہے کیا اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے ؟

جواب :

والدین پر بچوں کے بارے میں عدل و انصاف سے کام لینا اور ان کے ساتھ مساویانہ سلوک کرنا واجب ہے۔ انہیں تحائف وغیرہ دیتے وقت ایک کو دوسرے پر تریخ نہیں دینی چاہیئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
«اتقوا الله واعدلوا بين أولادكم» [صحيح مسلم، كتاب الهبات 13]
”اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں عدل سے کام لو۔“
دوسری جگہ فرمایا :
«أيسرك أن يكونوا إليك فى البر سواء ؟ قال : بلى . قال : فلا إذا» [رواه مسلم كتاب الهبات 17]
”کیا تو چاہتا ہے کہ وہ تجھ سے ایک جیسا حسن سلوک کریں تو پھر تو بھی ان کے ساتھ مساویانہ سلوک کر۔“
اکابر علماء کرام بچوں میں برابری کے رویہ کو پسند فرماتے تھے یہاں تک کہ ان سے پیار کرتے وقت بوسہ دیتے وقت اور خوش آمدید کہتے وقت بھی ان کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتے اس لئے کہ اولاد میں عدل و انصاف کرنے کا حکم واضح ہے۔ لیکن کبھی غیر عادلانہ رویہ قابل معافی بھی ہوتا ہے کیونکہ باپ چھوٹے یا بیمار بچے سے از روئے شفقت ترجیحی سلوک کرتا ہے۔ ویسے اصل یہی ہے کہ خاص طور پر بچے والدین کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور اطاعت گزاری میں برابر ہوں تو ان سے بھی تمام معاملات میں مساویانہ سلوک کرنا چاہیے۔
(شیخ ابن جبرین)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے