وَرَوَى مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَذْنَ بِالنَّاسِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرُدٍ وَرِيحٍ فَقَالَ: أَلَا فَصَلُّوا فِي الرِّجَالِ، ثُمَّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ لَا يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ بَارِدَةً أَوا ذَاتُ مَطَرٍ فِي السَّفَرَ أَنْ يَقُولَ: أَلَا صَلُّوا فِي رِجَالِكُمْ
مالک نے نافع سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عمر نے ایک ٹھنڈی اور آندھی والی رات ، لوگوں میں اعلان کیا اور کہا: خبر دار گھروں میں نماز ادا کر لو پھر فرمایا جب کوئی ٹھنڈی یا بارش والی ہوتی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”خبردار ! اپنے گھروں میں ادا کر لو ۔“
تحقیق و تخریج:
بخاری: 666، مسلم: 297
وَفِي رِوَايَةِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ مَا كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤْذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ بَارِدَةٌ أَوْ ذَاتُ مَطَرِ فِي السَّفَرِ أَنْ يَقُولَ: أَلَا صَلُّوا فِي رِجَالِكُمْ – مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ الثَّانِي لِمُسْلِمٍ
عبد الله نافع سے روایت کرتے ہیں ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب دوران سفر کوئی رات ٹھنڈی یا بارش والی ہوتی تو آپ فرماتے خبر دار ! لوگو اپنے گھروں میں نماز ادا کر لو ۔ “
تحقیق و تخریج:
بخاری: 232، مسلم: 697
وَفِي رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَادَى مُنَادِي وَفِي لَفْظ: مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللَّهِ لَا بِذَلِكَ فِي الْمَدِينَةِ فِي اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ وَالْغَدَاةِ الْقَرَّةِ
محمد بن اسحاق نافع سے اور وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ، ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منا دی نے اعلان کیا اور ایک روایت میں مؤذن کے الفاظ آتے ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے مدینہ منورہ میں ایک برثیلی رات اور خنک صبح کو یہ الفاظ کہے (لوگو اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو )
تحقیق و تخریج: یہ حدیث حسن ہے ۔ ابوداؤد: 1062 ۔
فوائد:
➊ بوقت عذر گھر میں نماز پڑھنا درست ہے اس وقت جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے کی رخصت ہے مثال کے طور پر بارش اندھیرے کیچڑ اور طوفان کے وقت یا بیماری دیگر عذرات کی بنا پر گھر میں نماز اداکی جا سکتی ہے ۔
➋ اجتماعی عذر کی بنا پر اذان میں ”الا صلوا فی ر حالکم“ کا اضافہ کیا جائے گا تاکہ ہر ایک سن کر آرام سے گھر نماز پڑھ لے ۔
➌ ایک یا دو اشخاص کا عذر ہو تو ان کی خاطر نہ اذان میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جماعت کو ترک کیا جا سکتا ہے ۔
➍ سفر و حضر دونوں میں جائز ہے کہ اذان میں یہ بتا دیا جائے کہ لوگو ! نماز گھروں میں ادا کر لو ۔
➎ عذر دو طرح کا ہوتا ہے اور دونوں کے حکم میں بقدرے فرق ہے ۔
(1) عارضی جیسے عورت کو حیض آنا و دیگر ایسے عذر۔
(2) دائمی جیسے نابینا مستحاضہ و دیگر ایسے غذر ۔ اب حیض یہ عارضی عذر ہے نماز منع ہے یہاں تک کہ حیض ختم ہو جائے اور غسل کر لیا جائے بعد میں سبھی احکام اسی طرح دوبارہ لوٹ آتے ہیں ۔ نابینا پن یہ دائمی عذر ہے یہ اس بات کے مانع نہیں ہے کہ نماز گھر میں پڑھی جائے بلکہ مسجد میں اذان سننے کے بعد آنا پڑے گا ایسے ہی مستحاضہ عورت ہے تو اس کو ہر نماز نئے وضو سے پڑھنی پڑے گی غسل نہیں کرنا پڑے گا البتہ غسل مستحب ہے ۔ یعنی یہ تمام شرائع ادا کریں گے۔
➏ اجتماعی عذر کے پیش نظر ہر ایک نماز گھر میں پڑھ سکتا ہے لیکن موزن اور امام کے لیے زیادہ لائق یہ ہے کہ وہ مسجد میں نماز پڑھیں تاکہ اذان کے ذریعے لوگوں کو اطلاع مل جائے دوسرا مسجد سے نماز کی بالکل چھٹی نہ ہو ۔
عبد العزیز بن صہیب سے روایت ہے کہا کہ حضرت انس نے تھوم کے بارے میں سوال کیا کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اس درخت سے کھایا وہ ہمارے نزدیک نہ آئے اور وہ ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھے ۔ لفظ مسلم کے ہیں اور یہ متفق علیہ ہے ۔