مضمون کے اہم نکات:
بدعت کی لغوی تعریف:
علامہ مجد الدین یعقوب بن محمد فیروز آبادیؒ رقمطراز ہیں:
﴿بدعة بالكسر: الحدث فى الدين بعد الإكمال أو ما استحدث بعد النبى من الأهواء والاعمال .﴾
القاموس المحيط: 3/3 .
بدعت : باء کے کسرہ کے ساتھ : ایسی چیز جو تکمیل دین کے بعد نکالی جائے یا وہ چیز جو رسول اللہ ﷺ کے بعد خواہشات و اعمال کی صورت میں پیدا کی جائے۔
علامہ محمد بن ابی بکر الرازی فرماتے ہیں:
﴿البدعة: الحديث فى الدين بعد الإكمال .﴾
مختار الصحاح ، ص : 44 .
’’بدعت تکمیل دین کے بعد کسی چیز کو دین میں نیا ایجاد کرنا ہے۔‘‘
❀ ابو اسحٰق الشاطبیؒ فرماتے ہیں:
’’اصل مادہ اس کا بدع‘‘ ہے۔ جس کا مفہوم ہے، بغیر کسی نمونے کے چیز کا ایجاد کرنا اور اسی سے اللہ کا فرمان ہے:
﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ﴾
یعنی آسمانوں اور زمین کو کسی سابقہ نمونے کے بغیر بنانے والا۔
❀ اللہ تعالیٰ کا مزید فرمان ہے:
﴿قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ﴾
﴿الاحقاف : 9﴾
’’آپ کہہ دیں! میں اللہ کی طرف سے رسالت لے کر آنے والا پہلا نیا آدمی نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی بہت رسول آچکے ہیں۔‘‘
اسی طرح جب کہا جاتا ہے! ’’ابْتَدَعَ فُلَانٌ بِدْعَةٌ‘‘ یعنی اس نے ایسا طریقہ شروع کیا جس کی طرف پہلے کسی نے سبقت نہیں کی ۔
الاعتصام ، الباب الاول : 36/1۔
ان ائمہ لغات کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ بدعت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کو ایجاد کرنا جس کی مثال یا نمونہ پہلے موجود نہ ہو۔
بدعت کی اصطلاحی تعریف:
حافظ ابن کثیرؒ رقمطراز ہیں کہ ﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ﴾ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو کسی سابقہ مثال اور نمونے کے بغیر پیدا کرنے والا ہے اور یہی لغوی تقاضا ہے۔ اس لیے کہ لغت میں ہرنئی چیز کو بدعت کہتے ہیں اور بدعت کی دواقسام ہیں:
بدعت شرعی :
❀ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
’’ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
بدعت لغوی:
جیسے امیر المومنین عمرؓ نے لوگوں کے جمع ہو کر تراویح پڑھنے کے متعلق فرمایا کہ یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے ۔
تفسير ابن كثير 348/1 ، بتحقيق عبد الرزاق المهدى تفسير سورة البقرة آيت :117.
امام عبد الرحمٰن بن شباب المعروف ابن رجبؒ فرماتے ہیں:
﴿والمراد بالبدعة: مما لا أصل له فى الشريعة يدل عليه فأما ما كان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا وإن كان بدعة لغة﴾
جامع العلوم والحكم : 127/2.
’’بدعت سے مراد وہ نو ایجاد چیز جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو جو اس پر دلالت کرتے ۔ بہر کیف جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو جو اس پر دلالت کرے تو وہ شرعی بدعت نہیں اگر چہ وہ لغت کے اعتبار سے بدعت ہو۔‘‘
مولوی عبد الغنی خان حنفی اپنی کتاب ’’الـجـنة لأهل السنة‘‘ ص: 161 میں ’’البحر الرائق‘‘ اور ’’در مختار‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
’’بدعت وہ چیز ہے جو ایسے حق کے خلاف ایجاد کی گئی ہو جو رسول اللہ ﷺ سے اخذ کیا گیا ہو۔ علم، عمل یا حال اور کسی شبہ کی بنیاد پر اسے اچھا سمجھ کر دین قویم اور صراط مستقیم بنالیا گیا ہو۔‘‘
ان ائمہ اور حنفی اکابر کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ ہر وہ نیا کام جسے ثواب و عبادت سمجھ کر دین میں داخل کر لیا گیا ہو وہ بدعت ہے۔
لفظ ’’کل‘‘ عموم پر دلالت کرتا ہے ، جس طرح كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ کا مطلب یہ ہے کہ ’’ہر نفس کو موت آئے گی‘‘ اسی طرح كل بدعة ضلالة ’’دین میں ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ یہ کہنا کہ بدعت حسنہ بھی ہوتی ہے بات غلط ہے، اس لیے کہ اگر کوئی کہے کہ شرک حسنہ اور کفر حسنہ بھی ہوتا ہے تو پھر اس کا جواب کیا ہوگا؟
قرآن کریم کی روشنی میں بدعت کی مذمت
اللہ تعالیٰ نے علمائے یہود کے لیے وعید کا ذکر فرمایا کہ جو تورات کی آیات اور اس کے احکام کو دنیا کی حقیر متاع کی خاطر بدل دیتے تھے اور تحریف کردہ کلام کے بارے میں لوگوں کو باور کراتے تھے کہ یہ کلام اللہ ہے۔ اور اپنی حرکتوں کی وجہ سے ناجائز طور پر لوگوں پر دو قسم کا ظلم کرتے تھے، ان کا دین بدل دیتے تھے، اور ان کا مال بھی ناجائز طور پر کھا جاتے تھے:
﴿فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ﴾
﴿البقره : 79﴾
’’پس خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے بدلے کچھ مال حاصل کریں، پس ان کے لیے خرابی ہے، اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی (کتاب) کے سبب، ان کے لیے خرابی ہے ان کی اپنی کمائی کے سبب ۔‘‘
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ اگر چہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان یہود علماء کی مذمت کی ہے جو تورات کی آیات کو بدل دیتے تھے ، لیکن دین اسلام آنے کے بعد ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو بدعتوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآن و سنت میں تحریف کرتے ہیں۔ اس میں ان یہود کی مذمت کی گئی ہے جو تورات کا علم نہیں رکھتے تھے، صرف ان کے پاس چند بے بنیاد تمنا ئیں تھیں، اور اب اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن کریم میں غور و فکر نہیں کرتے صرف حروف کی تلاوت کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دنیاوی مقاصد حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم کے خلاف کوئی دوسری بات اپنے ہاتھ سے لکھ کر لوگوں میں رائج کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی شریعت اور اللہ کا دین ہے۔ اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن وسنت کو چھپاتے ہیں، تاکہ ان کا مخالف حق بات پر ان سے استدلال نہ کرے۔
﴿وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾
﴿الانعام : 153﴾
’’اور بے شک یہی میری سیدھی راہ ہے، پس تم لوگ اسی کی پیروی کرو، اور دوسرے طریقوں پر نہ چلو جو تمھیں اس کی (سیدھی) راہ سے الگ کر دیں، اللہ حکم دیا ہے، تا کہ تم تقویٰ کی راہ اختیار کرو۔‘‘
❀ حافظ ابن کثیرؒ رقمطراز ہیں:
کہ اس آیت میں اسلام کے لیے لفظ سبیل مفرد آیا ہے اور دیگر مذاہب اور فرقوں کے لیے سبل جمع آیا ہے۔ اس لیے کہ حق ایک ہے، اور تقلیدی مذاہب اور عقائد کے فرقے متعدد اور گونا گوں ہیں۔
تفسير ابن كثير، تحت الآية .
ابن عطیہ کہتے ہیں کہ ’’سبل‘‘ کا لفظ یہودیت، نصرانیت، مجوسیت اور دیگر تمام اور حلقوں، بدعتوں اور گمراہیوں کو شامل ہے جنھیں اہل ہوا و ہوس نے پیدا کیا ہے، اسی طرح علم کلام کے وہ تمام فرقے اس لپیٹ میں آجاتے ہیں جو خواہ مخواہ کی تفصیلات میں داخل ہوتے ہیں۔
قتادہؒ کہتے ہیں، جان لو کہ راستہ صرف ایک ہے، اور اہل ہدایت کی جماعت اور اس کا انجام جنت ہے، اور ابلیس نے مختلف راستے پیدا کر دیے ہیں جو گمراہوں کی جماعتیں ہیں اور ان کا انجام جہنم ہے۔
یہ آیت دلیل ہے اس بات کہ اُمت اسلامیہ کا اتحاد صرف ایک ہی صورت میں وجود میں آ سکتا ہے کہ وہ سارے فرقوں اور مذاہب کو چھوڑ کر صرف صحیح اسلام کی متبع بن جائے ، جو صرف قرآن و حدیث کا نام ہے۔ اس کے بغیر اہل اسلام کا متحد ہونا محال ہے جیسا کہ امام مالکؒ کا قول ہے کہ یہ اُمت کسی بھی زمانے میں اسی راہ پر چل کر اصلاح پذیر ہو سکتی ہے، جسے اپنا کر صحابہ کرامؓ اصلاح پذیر ہوئے۔
﴿قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ﴾
﴿یونس : 69﴾
’’آپ کہہ دیجیے کہ بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘
بدعت افترا على الله اور افترا على الرسول ﷺ کے مترادف ہے۔ بدعتی کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا﴾
﴿الاحزاب: 36﴾
’’اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دے، تو کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے اس بارے میں کوئی اور فیصلہ قبول کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہو جائے گا۔‘‘
کسی بھی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم صادر ہو جائے تو کسی مومن مرد یا عورت کے لیے یہ اختیار باقی نہیں رہتا کہ اس کی مخالفت کرے اور اپنی یا کسی اور کی رائے پر عمل کرے، اس لیے کہ ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کی سراسر نافرمانی اور کھلم کھلا گمراہی ہوگی ۔
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
﴿النساء : 65﴾
’’آپ کے رب کی قسم! وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تکلیف نہ محسوس کریں اور پورے طور سے تسلیم کر لیں ۔‘‘
❀ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
کہ اس آیت میں مذکور حکم تمام امور کو شامل ہے یعنی کسی بھی معاملے میں جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم صادر ہو جائے، تو کسی کے لیے بھی اس کی مخالفت جائز نہیں ہے، اور نہ کسی کے قول یا رائے کی کوئی حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔
تفسير ابن كثير، تحت الآية۔
﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
﴿الشورى : 21﴾
’’کیا ان کے ایسے شرکاء ہیں جنھوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کر دیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ہے، اور اگر اللہ کی جانب سے یہ بات طے نہ ہو گئی ہوتی (کہ ان کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا) تو اس دنیا میں ہی اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا، اور بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں شرک باللہ کا شدید انکار اور مشرکین کے خلاف اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کا اعلان ہے۔ اسی لیے اس کے بعد کہا گیا ہے کہ اگر یہ فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا کہ ان کی سزا قیامت کے دن کے لیے مؤخر کر دی گئی ہے، تو ان کے جرم کا تقاضا تو یہ تھا کہ انھیں فوراً ہلاک کر دیا جاتا ، اور ایسے ظالموں کو قیامت کے دن درد ناک عذاب دیا جائے گا۔
تيسر الرحمن ، ص : 1359 .
﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَىٰ إِلَى الْإِسْلَامِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾
﴿الصف : 7﴾
’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کے خلاف جھوٹ باندھے، حالانکہ اسے اسلام کی دعوت دی جارہی ہو، اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو اسلام جیسا دین برحق دے کر دُنیا میں بھیجا، جس نے حق و باطل کو واضح کر دیا ہے، اب اگر کوئی اس سے آنکھ بند کر لے اور اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کرے تو اس سے بڑا ظالم کون ہوگا، جیسا کہ مشرکین قریش کا حال تھا کہ وہ اللہ کے لیے بیٹا اور شریک ٹھہراتے ، اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال، اور حلال چیزوں کو حرام بناتے ، اور کہتے کہ اگر اللہ کی مرضی نہ ہوتی تو پھر ہم بتوں کی پرستش نہ کرتے ۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
سنت رسول ﷺ کی روشنی میں بدعت کی مذمت
بدعت، سنت کی ضد ہے، بدعت دین میں اضافہ کا نام ہے، جس سے قرآن و سنت میں انتہائی سخت الفاظ میں منع کیا گیا ہے۔
① چنانچہ سمرة بن جندبؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
﴿إذا حدثتكم حديثا فلا تزيدن عليه﴾
مسند احمد 11، حدیث نمبر: 81691 .
’’جب میں تمھیں کوئی بات بیان کروں تو تم اس پر اضافہ ہرگز نہ کرنا۔‘‘
② ﴿عن البراء بن عازبؓ قال: قال النبى ﷺ: إذا أتيت مضجعك ، فتوضأ وضونك للصلاة ، ثم اضطجع على شقك الأيمن، ثم قل اللهم أسلمت وجهى إليك ، وفوضت أمرى إليك ، وألجأت ظهرى إليك ، رغبة ورهبة إليك ، لا ملجأ ولا ، أ منك إلا إليك ، اللهم آمنت بكتاب الذى أنزلت ، ونبيك الذى أرسلت. فإن مت من ليلتك، فأنت على الفطرة، واجعلهن آخر ما تكلم به . قال: فرددتها على النبى ﷺ، فلما بلغت: اللهم آمنت بكتابك الذى أنزلت ، قلت: ورسولك، قال:لا، ونبيك الذى أرسلت﴾
صحيح البخاري ، رقم : 247 .
سیدنا براء بن عازبؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا:
جب تم اپنی خوابگاہ میں جاؤ تو پہلے نماز کا سا وضو کرو اور اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر یہ دعا پڑھو۔ اے اللہ تیرے ثواب کے شوق میں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کر دیا اور تجھے اپنا پشت پناہ بنالیا، تجھ سے بھاگ کر کہیں پناہ نہیں مگر تیرے ہی پاس ، اے اللہ! میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری اور تیرے اس نبی پر جسے تو نے بھیجا۔ اب اگر تو اس رات مر جائے تو فطرت اسلام پر مرو گے نیز یہ دعائیہ کلمات سب باتوں سے فارغ ہوکر پڑھو، سیدنا براءؓ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کلمات آپ کے سامنے دہرائے جب میں اس جگہ پہنچا ’’آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ‘‘ اس کے بعد میں نے ’’وَرَسُولِكَ‘‘ کہہ دیا، آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ یوں کہو ’’وَنَبِيِّكَ الَّذفى اَرْسَلْتَ ‘‘۔
③ ﴿عن العرباض بن سارية ، قال: وعظنا رسول الله ﷺ يوما بعد صلاة الغداة موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب، فقال رجل: إن هذه موعظة مودع فماذا تعهد إلينا يارسول الله؟ قال: أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن تأمر عليكم عبد حبشي فإنه من يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا وإياكم ومحدثات الأمور فإنها ضلالة فمن أدرك منكم ذالك فعليه بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين ، عضوا عليها بالنواجذ﴾
سنن ترمذی، کتاب العلم، رقم: 2676 ، سنن ابو داؤد، رقم : 4607، سنن ابن ماجه ، رقم : 42- محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
❀ سید نا عرباض بن ساریہؓ فرماتے ہیں:
ایک دن صبح کی نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسا مؤثر وعظ فرمایا کہ جس سے آنکھیں بہہ پڑیں اور دل کانپ اٹھے۔ ایک شخص نے کہا یہ الوداعی نصیحت ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ ہمیں کس بات کا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، احکامات سنو اور اطاعت کرو خواہ تم پر حبشی غلام ہی کیوں نہ امیر مقرر کر دیا جائے۔ اس لیے جو تم میں سے زندہ رہیں گے۔ وہ دیکھ لیں گے کہ میری امت میں بڑا اختلاف پیدا ہوگا اور دیکھو دین میں پیدا کردہ نئی بدعات سے بچنا اس لیے کہ یہ گمراہی ہے۔ جو شخص ایسا زمانہ پائے وہ میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ ڈاڑھوں سے پکڑے رکھے۔
حافظ ابن رجبؒ نے ’’جامع العلوم والحكم‘‘ میں نبی کریم ﷺ کے اس فرمان ’’فإن كل بدعة ضلالة‘‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ کا مذکورہ فرمان ان جامع کلمات میں سے ہے جن سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ وہ اصول دین میں ایک عظیم اصل ہے اور نبی اکرم ﷺ کے فرمان ’’من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد‘‘ کے مشابہ ہے لہذا جس نے بھی کوئی نئی ایجاد کی اور دین کی طرف اس کی نسبت کی اور دین میں اس کی کوئی اصل مرجع نہیں ہے تو وہ گمراہی ہے اور دین اس سے بری ہے خواہ وہ اعتقادی مسائل ہوں یا ظاہری و باطنی اعمال و اقوال ہوں۔ بدعت مردود ہے اور بدعتی بھی مردود ہے۔
④ ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
﴿من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد﴾
’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے وہ مردود ہے۔‘‘
صحیح مسلم میں یہ حدیث ان الفاظ سے مروی ہے کہ:
﴿من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد﴾
صحيح البخارى، كتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود ، رقم الحديث: 2697، صحیح مسلم، کتاب الاقضية ، رقم : 1718 .
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں وہ مردود ہے۔‘‘
اور امام بغویؒ نے اسے یوں روایت کیا ہے کہ:
﴿من أحدث فى ديننا ما ليس منه فهو رد﴾
شرح السنة ، باب رد البدع والأهواء: 211/1 ، 103 .
یعنی اس حدیث میں ’’أَمْرِنَا‘‘ کی تفسیر ’’دیننا‘‘ سے ہے۔ امر سے مراد دین ہے یعنی جس نے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی وہ مردود ہے۔
اس تفسیر کی رو سے دنیاوی ایجادات بدعت شرعی کی تعریف سے خارج ہو گئیں اور اہل بدعت کے شبہات کا ازالہ ہو گیا جو کہتے ہیں کہ گھڑی پہنا، لاؤڈ سپیکر، گاڑیاں وغیرہ بھی تو بدعت ہیں۔ حدیث مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ بدعت مردود وہ جو دین میں نئی ایجاد کی گئی ہو اور اسے عبادت سمجھ کر تقرب الہی مراد ہو اور یہی بات امام ابن رجب خنبلیؒ نے جامع العلوم والحکم حدیث نمبر 176/15 کے تحت ذکر کی ہے۔
⑤ بدعتی پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت ہے۔
❀ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
﴿لعن الله من أحدث فى الإسلام حدنا﴾
مسند الربيع ، رقم : 372.
’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت فرمائے جس نے اسلام میں کوئی نئی بات ایجاد کی۔‘‘
⑥ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے بدعت ایجاد کی یا بدعتی کو اپنے ہاں ٹھکانہ دیا اس پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔‘‘
مسند أحمد: 22/1.
⑦ ہر بدعت گمراہی ہے:
﴿أما بعد ، فإن خير الحديث كتاب الله، وخير الهدى هدي محمد ، وشر الأمور محدثاتها و كل بدعة ضلالة .﴾
صحیح مسلم، رقم : 867/43.
’’اما بعد! بے شک بہترین کتاب اللہ کی کتاب ہے ، اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی ہے اور بد ترین کام نئے امور ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
⑧ ایک جگہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
﴿لكل عمل شرة ولكل شرة فترة ، فمن كانت فترته إلى متتي فقد اهتدى، ومن كانت فترته إلى غير ذلك هلك .﴾
مسند احمد : 188/2 ، صحيح الترغيب ، رقم : 56.
’’ہر عمل میں حرص اور افراط ہوتی ہے اور ہر افراط کے بعد آخرسستی اور کمی ہوتی ہے۔ پس اگر کسی کی حرص اور چلنا میری سنت کی طرف ہوگا تو وہ ہدایت یافتہ ہو گا اور جس کی حرص اور چلنا غیر سنت کی طرف ہوگا تو وہ تباہ و ہوگا برباد ہو جائے گا۔‘‘
⑨ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’مدینہ اس طرح حرام ہے، اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ ہی اس میں کوئی بدعت نکالی جائے۔ جس نے اس میں بدعت نکالی اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں اور تمام بنی نوع انسان کی لعنت ہو ۔‘‘
صحیح البخارى، كتاب فضائل المدينة : 1867 و كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة : 7306 ، صحیح مسلم: 441/1.
⑩ بدعتی کی تو بہ بھی قبول نہیں ہوتی:
سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
﴿إن الله حجب التوبة عن كل صاحب بدعة﴾
طبرانی اوسط : 113/5 ، مجمع الزوائد : 192/10 .
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر بدعت والے آدمی سے تو بہ کو روک دیا ہے۔‘‘
اور ایک روایت کے لفظ ہیں:
﴿حتي يدع بدعته﴾
’’یہاں تک کہ وہ اپنی بدعت کو ترک کر دے۔‘‘
صحابہ کرامؓ کے آثار میں بدعت کی مذمت
ہر درد مند کو کو رونا یہ میرا رلا دے
بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
صحابہ کرامؓ سنت سے محبت کرنے والے اور بدعت سے شدید نفرت کرنے والے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اسی چیز کا درس دیا تھا۔ چنانچہ:
سیدنا ابوبکر صدیقؓ :
علامہ ابن سعدؒ نے اپنی سند سے ذکر کیا ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا:
لوگو! میں متبع سنت ہوں، بدعتی نہیں ہوں، لہٰذا اگر درست کروں تو میری مدد کرو اور اگر انحراف کروں تو میری اصلاح کرو ۔
الطبقات الكبرى از ابن سعد : 136/3.
سیدنا عمر فاروقؓ :
❀ سیدنا عمر فاروقؓ فرماتے ہیں:
’’بدعتی لوگوں سے بچو کیونکہ یہ سنتوں کے دشمن ہیں، ان سے حدیثیں نہ یاد ہوسکیں تو انھوں نے جو دل میں آیا کہنا شروع کر دیا، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔‘‘
سنن دارمی: 47/1.
سیدنا عمر بن خطابؓ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿إن لكل صاحب ذنب توبة غير أصحاب الاهواء و البدع ، ليس لهم توبة، أنا بريء منهم، وهم منى براء .﴾
السنة لابن ابی عاصم بتحقيق الالبانی، رقم: 22 ، 38.
’’ہر گناہ گار شخص کی توبہ قبول کی جاتی ہے مگر بدعتی شخص کے لیے نہیں، میں ان سے اعلان براءت کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔‘‘
سید نا علی المرتضیؓ:
امیر المؤمنین علی بن ابی طالبؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ایسے آدمی پر جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا اور اس کی لعنت بر سے ایسے آدمی پر جس نے زمین کی حدود چوری کر لیں اور اللہ کی لعنت ہو ایسے آدمی پر جس نے اپنے والد پر لعنت کی اور ایسے آدمی پر بھی اللہ کی لعنت ہو جس نے کسی بدعتی کو پناہ دی۔
صحيح مسلم، كتاب الأضاحي، باب تحريم الذبح لغير الله، رقم : 1978، مسند احمد : 118/1.
سیدنا علی المرتضیؓ مدینہ شریف میں بدعت ایجاد کرنے والے اور بدعتی کی عزت و تکریم کرنے والے شخص کے متعلق فرماتے ہیں:
﴿من أحدث فيها حدثا أو أوى فيها محدثا ، فعليه لعنة الله ، والملئكة ، والناس أجمعين ، لا يقبل منه صرف ولا عدل﴾
صحیح بخاری، رقم : 3172 ، صحیح مسلم، رقم : 3327.
’’پس اس (مدینہ) میں جو کوئی نئی بات نکالے گا یا کسی بدعتی کو پناہ دے گا، اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اس سے فرض یا نفل عبادت قبول ہی نہیں کی جائے گی۔‘‘
سیدہ عائشہ صدیقہؓ:
سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
﴿من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد .﴾
صحیح بخاری: 132/9 ، صحیح مسلم : 1344/3.
’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود اور نا قابل قبول ہے۔‘‘
دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں۔
﴿من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد .﴾
صحیح مسلم: 1344/3.
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پہ ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
امام نوویؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
یہ حدیث اسلام کا ایک عظیم قاعدہ ہے، یہ نبی کریم ﷺ کے جامع کلمات میں سے ایک ہے۔ یہ ہر طرح کی بدعت اور خود ساختہ امور کی تردید میں صریح ہے۔ دوسری روایت میں مفہوم کی زیادتی ہے اور وہ یہ کہ بعض پہلے سے ایجاد شدہ بدعتوں کو کرنے والے کے خلاف اگر پہلی روایت بطور حجت پیش کی جائے تو وہ بطور عناد کہے گا کہ میں نے تو کچھ ایجاد نہیں کیا، لہذا اس کے خلاف دوسری روایت حجت ہوگی، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر نئی چیز مردود ہے، خواہ کرنے والے نے اسے از خود ایجاد کیا ہو یا اس سے پہلے اسے کوئی ایجاد کر چکا ہو۔
شرح مسلم للنووي: 16/12.
سید نا عبد الله بن مسعودؓ :
❀ سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا:
﴿اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم .﴾
سنن دارمی، رقم : 211.
’’اتباع کرو اور بدعت کا ارتکاب نہ کرو، یقینا تمہیں سنت کافی ہے، لوگوں کی آراء کی ضرورت نہیں۔‘‘
دوسرے مقام پر سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ نے ارشاد فرمایا:
﴿اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم وكل بدعة ضلالة﴾
مجمع الزوائد للهيثمى: 181/1 ، السنة از مروزی، رقم: 78 ، ص: 57.
’’(سنت) کی پیروی کرو اور بدعات نہ نکالو پس تحقیق تمہیں سنت ہی کافی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
❀ سیدنا عبد الله بن مسعودؓ نے مزید فرمایا:
﴿تعلموا العلم قبل أن يقبض ، وقبضه أن يذهب أهله، الا وإياكم التنطع والتعمق والبدع وعليكم بالعتيق .﴾
سنن الدارمی 54/1 شرح اصول اعتقاد اهل السنة للالكائي 87/1.
’’کتاب وسنت کا علم سیکھو اس کے قبض کر لیے جانے سے پہلے، اور اس کا قبض کر لیا جانا اہل علم کا چلے جانا ہے، خبر دارغلو، ٹوہ میں لگنے اور بدعات سے بچو، اور قدیم راستے کو اختیار کرو۔‘‘
❀ سید نا ابن مسعودؓ فرماتے ہیں:
’’بے شک تم آج فطرت (اسلام) پر ہو، بے شک تم خود بدعات ایجاد کرو گے اور لوگ بھی تمہاری خاطر بدعات گھڑیں گے۔ پس جب تم نیا کام دیکھو تو پہلے راستے اور طریقے کو لازم پکڑو ۔‘‘
السنة للمروزى، رقم ، 8 ، ص: 57.
عمرو بن یحییٰ اپنے والد سے روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم لوگ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے دروازے پر صبح کی نماز سے پہلے بیٹھے ہوئے تھے کہ جب وہ باہر نکلیں تو ہم سبھی لوگ ان کے ساتھ مسجد چلیں، اتنے میں سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ آئے اور کہا کہ کیا ابھی ابو عبد الرحمن نہیں نکلے؟ ہم نے کہا کہ نہیں تو وہ بھی ان کے نکلنے تک بیٹھ گئے ، جب وہ نکلے تو ہم سبھی لوگ کھڑے ہو گئے ۔ ابو موسیٰ نے کہا:
اے ابوعبد الرحمن ! میں نے ابھی مسجد میں ایک ایسی چیز دیکھی ہے جو مجھے بہت ناگوار گزری اور الحمد للہ خیر ہی دیکھی ہے انھوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اگر زندہ رہیں گے تو آپ بھی دیکھ لیں گے، انھوں نے کہا میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے دیکھا وہ نماز کی انتظار میں تھے ہر حلقے میں ایک آدمی تھا اور ان کے ہاتھ میں کنکریاں تھیں جب وہ کہتا کہ سو بار ’’اللہ اکبر‘‘ کہو تو سب لوگ سو بار ’’الله اکبر‘‘ کہتے اور جب وہ کہتا کہ سو بار ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہو تو سو بار ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہتے جب وہ کہتا کہ سومرتبہ ’’سبحان اللہ‘‘ کہو تو وہ سو مرتبہ ’’سبحان اللہ‘‘ کہتے ۔ انھوں نے کہا کیوں نہیں تم نے انھیں اپنے گناہوں کو شمار کرنے کو کہا اور تم ضمانت لے لیتے کہ تمھاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی۔ پھر وہ چلے ہم بھی ان کے ساتھ چل پڑے یہاں تک کہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا میں تمھیں کیا کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ اے ابو عبد الرحمن کنکریاں ہیں جن سے ہم تکبیر و تہلیل ، تسبیح اور تحمید کا شمار کرتے ہیں، سید نا عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا تم لوگ اپنی اپنی خطائیں شمار کرو تمھارے لیے اس بات کی ضمانت لیتا ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی برباد نہیں ہوگی۔ اے امت محمد ! تمھاری تباہی و بربادی ہو کتنی جلدی تمھاری ہلاکت آ گئی یہ صحابہ کرام کی جماعت موجود ہے، یہ نبی کریم ﷺ کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ کے برتن ٹوٹے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تم لوگ ایسے طریقے پر ہو جو محمد ﷺ کے طریقے سے زیادہ بہتر ہے یا گمراہی کے دروازے کھولنے والے ہو۔ تو ان لوگوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اے عبد الرحمن ہمارا مقصد صرف طلب خیر کا ہے انھوں نے کہا کہ کتنے خیر کے متلاشی اسے ہرگز نہیں پاسکتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک حدیث سنائی کہ ایک قوم قرآن مجید پڑھے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور اللہ کی قسم مجھے معلوم نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ وہ زیادہ تر تم میں سے ہوں یہ کہہ کر وہاں سے واپس لوٹ گئے ۔ عمرو بن سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے انھیں نہروان کے دن دیکھا کہ وہ خوارج کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف تیراندازی کر رہے تھے۔
سنن دارمی، حدیث رقم : 210 ، سلسلة احاديث صحيحه، رقم : 2005 .
خطیب بغدادیؒ سید نا ابن مسعود اور ابی ابن کعبؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ:
﴿الاقتصاد فى السنة خير من الاجتهاد فى البدعة .﴾
السنه المروزي ، حديث رقم : 76 ، 77 .
’’سنت کے مطابق تھوڑا عمل کرنا بدعت پر چلتے ہوئے زیادہ عمل کرنے سے بہتر ہے۔‘‘
سید نا عبد اللہ بن عمرؓ:
❀ حضرت امام نافعؒ سے روایت ہے:
﴿أن رجلا عطس إلى جنب ابن عمر فقال: الحمد لله والسلام على رسول الله . قال ابن عمر وأنا أقول: الحمد لله والسلام على رسول الله، وليس هكذا ، علمنا رسول الله ﷺ علمنا أن نقول الحمد لله على كل حال .﴾
سنن ترمذی ، كتاب الأدب، رقم : 2738 – محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ۔
سیّدنا عبد اللہ بن عمرؓ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی اس پر اس نے الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلُ اللهِ کہا، اس پر سید نا ابن عمرؓ نے فرمایا:
میں بھی کہتا ہوں ’’اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلامُ عَلَى رَسُولُ اللهِ‘‘ لیکن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس طرح نہیں سکھایا بلکہ ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہمیں جب چھینک آئے تو ’’الحَمْدُ الله‘‘ کہیں۔
سید نا عبد اللہ بن عمرؓ کا فرمان ہے کہ:
﴿كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة .﴾
السنة للامام المروزي ، رقم : 28 شرح اصول اعتقاد اهل السنة والجماعة للالكائي: 92/1 ، الابانة: 92/1.
ہر بدعت گمراہی ہے اگر چہ لوگ اسے اچھا سمجھیں ۔
❀ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے ارشاد فرمایا:
﴿بلغني أنه قد أحدث فإن كان أحدث فلا تقرته مني السلام .﴾
سنن الترمذى، كتاب ،القدر، رقم: 2152 سنن ابن ماجه ،کتاب الفن، رقم: 4071.
’’مجھے اطلاع ملی ہے کہ فلاں شخص بدعتی ہو گیا ہے پس اگر یقیناً وہ بدعتی ہے تو اس کو میری طرف سے سلام مت کہنا۔‘‘
سید نا عبد اللہ بن عباسؓ:
① سید نا عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
’’لوگوں پر کوئی سال ایسا نہ گزرے گا جس میں وہ کوئی بدعت ایجاد نہ کریں گے اور کسی سنت کو مردہ کر چکے ہوں گے۔ یہاں تک کہ بدعتیں زندہ و پائندہ ہوتی رہیں گی اور سنتیں مردہ ہوتی چلی جائیں گی ۔‘‘
المعجم الکبیر از امام طبرانی : 319/10.
② عثمان بن حاضرؒ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباسؓ کے ہاں گیا ان سے نصیحت کی درخواست کی تو انھوں نے فرمایا:
ہاں اللہ سے تقویٰ کو لازم پکڑو استقامت اختیار کرو، اتباع کرو بدعت سے دور رہو۔
سنن دارمی : 141.
③ اللہ تعالیٰ کے فرمان عالیشان:
﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾
﴿آل عمران: 106﴾
جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض چہرے سیاہ ۔ کی تفسیر میں سید نا عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
یعنی اہل سنت والجماعت کے چہرے سفید ہوں گے اور اہل بدعت و افتراق کے چہرے سیاہ ہوں گے ۔
اجتماع الجيوش الاسلامية على غز والمصطلة والجهمية ، از امام ابن قيمؒ :39/2.
④ سید نا عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
﴿إن أبغض الأمور إلى الله البدع .﴾
السنن الكبرى للبيهقي : 316/3.
’’یقینا اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ کاموں میں سے بدعات ہیں۔‘‘
سیدنا حذیفہ بن یمانؓ :
سید نا حذیفہ بن الیمانؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے دو پتھروں کو لیا اور دونوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر اپنے ساتھیوں سے پوچھا ان دونوں کے درمیان تمہیں کوئی روشنی نظر آ رہی ہے؟ انہوں نے کہا: اے ابو عبدالرحمن ! ان دونوں پتھروں کے درمیان ہلکی سی روشنی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! عنقریب بدعت کا اتنا غلبہ ہو گا حق کی اتنی ہی معمولی روشنی دکھائی دے گی جتنی کہ ان دونوں پتھروں کے درمیان تم دیکھ رہے ہو، اللہ کی قسم ! بدعت کا ایسا چرچا ہوگا کہ اگر کوئی بدعت چھوٹ گئی تو لوگ کہیں گے کہ سنت چھوٹ گئی ۔
الاعتصام للشاطبي : 60/1، 80.
سیدنا معاذ بن جبلؓ :
سیدنا یزید بن عمیرہ سیدنا معاذ بن جبلؓ کے ساتھیوں میں سے تھے، وہ سیدنا معاذؓ کا معمول ذکر کرتے ہیں کہ وہ جب بھی محفل ذکر میں بیٹھتے تو فرماتے:
اللہ حکمت اور عدل والا ہے اور شک کرنے والے ہلاک ہو گئے، ایک دن سیدنا معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں:
تمھارے بعد بہت سارے فتنے ظہور پذیر ہوں گے، جن میں سے ایک فتنہ کثرتِ مال کا ہے اور قرآن کو کھول دیا جائے گا، یہاں تک کہ اس کو مومن و ،منافق، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے، غلام اور آزاد، سب دیکھیں گے، قریب ہے کہ ایک کہنے والا کہے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ میری اتباع نہیں کرتے حالانکہ میں نے قرآن ہی پڑھا ہے؟ وہ لوگ ہرگز ہرگز اس کی پیروی نہیں کریں گے، حتی کہ (اس قاری قرآن) کے علاوہ کوئی اور شخص ان کے لیے بدعت ایجاد کرے گا (یہ اس کی پیروی کریں گے) تم اس بدعت سے بچتے رہو جس کو وہ گھڑے گا، یقیناً جو اس نے بدعت ایجاد کی ہے وہ گمراہی ہے اور سیدنا معاذؓ نے فرمایا:
میں تمھیں حکیم (دانا) کے گمراہ سے ڈراتا ہوں، کیونکہ کبھی کبھار شیطان دانا آدمی کی زبان سے بھی گمراہی کا کلمہ کہلوا دیتا ہے اور کبھی کبھار منافق حق بات کہہ دیتا ہے؟ (یزید کہتے ہیں) میں نے سیدنا معاذؓ سے عرض کیا:
اللہ آپ پر رحم کرے، آپ ذرا مجھے پہچان کرادیں کہ دانا آدمی بھی گمراہی کا کلمہ کہتا ہے اور منافق بھی کلمہ حق کہہ سکتا ہے؟ سیدنا معاذؓ نے جواب دیا:
کیوں نہیں! دانا کے اس کلام سے بچ اور جس کے بارے میں اسے یوں کہا جائے کہ یہ کیا ہے؟ وہ اس گمراہی کو تیرے لیے حق سے علیحدہ بیان نہیں کرے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اس حکم سے رجوع کرلے یا پھر جن وہ حق کو سنے تو اس کو قبول کرلے، یقیناً حق پر نور اور تابناک ہوتا ہے۔
سنن ابی داؤد، کتاب السنة، رقم : 4611، منهج سلف صالحين، ص 120 ،121۔
سیدنا انسؓ:
❀ حضرت انسؓ سے روایت ہے:
﴿جاء ثلاثة رهط إلى بيوت أزواج النبى ﷺ يسألون فلما أخبروا كأنهم تقالوها ، فقالوا: وأين نحن من النبى ﷺ قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ، قال احدهم أما أنا فإني أصلى الليل أبدا ، وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر ، وقال آخر: أنا أعتزل النساء فلا اتزوج ابدا فجاء رسول الله ﷺ، فقال: انتم الذين قلتم كذا وكذا أما والله إنى لاخشاكم لله واتقاكم له ، لكنى اصوم وأفطر ، وأصلى وارقد، وأتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتي فليس مني .﴾
صحیح بخاری، کتاب النكاح ، رقم : 5063.
’’ازواج مطہرات کے پاس تین آدمی آئے اور نبی کریم ﷺ کی عبادت کے سلسلہ میں دریافت کیا جب ان کو اس کی خبر دی گئی تو انھوں نے اس کو کم تصور کیا اور کہنے لگے ہماری نبی ﷺ سے کیا نسبت اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ سب بخش دیے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا میں ساری رات نفل نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ دن میں روزے سے رہوں گا اور تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا کبھی شادی نہ کروں گا (یعنی ہمیشہ عبادت میں مصروف رہوں گا) اچانک نبی ﷺ پہنچ گئے اور فرمایا کیا تمھیں لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ خبر دار اللہ کی قسم! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں، نفلی روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں، رات کو نفل نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں لہذا جس نے میرے طریقے سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
سید نا عبد الله بن مغفلؓ :
❀ سید نا عبد اللہ بن مغفلؓ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اصحاب رسول ﷺ میں سے میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ اس کے نزدیک اسلام میں بدعت سے زیادہ کوئی ناپسندیدہ امر ہو ۔‘‘
بحواله السنن والمبتدعات، ص: 4.
سیدنا عثمان بن ابو العاصؓ :
سیدنا عثمان بن ابو العاصؓ کو کسی بچے کے ختنہ کے موقع پر دعوت دی گئی تو آپ نے اس دعوت سے انکار کر دیا، جب ان سے ان کے انکار کی وجہ دریافت کی گئی تو ارشاد فرمایا:
﴿إنا كنا لا نأتي الختان على عهد رسول الله ﷺ ولا ندعى له .﴾
مسند احمد: 217/1۔ احمد شاکر نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
’’ہم عہد رسول ﷺ میں ختنہ کے موقع پر دی گئی دعوت میں شمولیت اختیار نہیں کرتے تھے اور نہ ہی دعوت دی جاتی تھی۔‘‘
سیدنا ابی بن کعبؓ:
سید نا ابن مسعود اور ابی ابن کعبؓ کا قول ہے:
﴿الاقتصاد فى السنة خير من الاجتهاد فى البدعة .﴾
السنة للمروزی، رقم: 76 ، 77.
’’سنت کے مطابق تھوڑا اعمل کرنا بدعت پر چلتے ہوئے زیادہ عمل کرنے سے بہتر ہے۔‘‘
تابعین کے اقوال میں بدعت کی مذمت
جناب عمر بن عبد العزيزؒ :
جناب عمر بن عبد العزیزؒ فرمایا کرتے تھے:
’’اللہ کی قسم ! اگر میں سنت کو بلند نہ کروں اور بدعت کو ختم نہ کروں تو مجھے ایک لمحہ بھی دنیا پر زندہ رہنا اچھا نہیں لگتا ۔‘‘
السنة امام ،مروزی، ص: 62 ، رقم: 92 .
جناب عمر بن عبد العزیزؒ نے کسی آدمی کو خط لکھتے ہوئے فرمایا:
(سَلَامٌ عَلَيْكَ) تجھ پر سلام وسلامتی ہو۔ اس کے بعد میں تجھے اللہ کے دین پر انحصار اور آپ ﷺ کی سنت کی اتباع پر اکتفا کرنے کی نصیحت کرتا ہوں اور اس سے بچنے کی جسے بعد والوں نے گھڑا ہے، آپ کی سنت جاری ہو چکی اور اس پر ہی تکلیف اُٹھانا کافی ہے، پھر یہ بات بھی تیرے ذہن نشین ہو جائے کہ جب بھی کوئی بدعت آتی ہے تو اس (بدعت) سے پہلے جو چیز معتبر ہوتی ہے وہ چلی جاتی ہے، کیونکہ سنت وہ چیز ہے جس پر وہ لوگ چلے جو یہ جانتے تھے کہ اس (سنت) کے برعکس اور مقابل و معارض جو چیز ہے وہ گمراہی غلطی، جہالت اور حماقت و بے وقوفی ہے، اپنے نفس کو اس چیز پر راضی کر جس پر قوم (صحابہ) نے اپنے نفسوں کو راضی کیا، بے شک ا انھوں نے علم کی بنا پر توقف اختیار کیا اور گہری بصیرت کی وجہ سے رُکے رہے۔ اور معاملات کا پردہ چاک کرنے پر زیادہ قادر تھے اور اگر اس میں فضیلت ہوتی تو وہ اس کے زیادہ مستحق وحق دار تھے، وہ تم سے پہلے گزرے ہیں اور اگر ہدایت وہ چیز ہے جس پر تم ہو تو کیا تم ہدایت میں ان سے بھی سبقت لے گئے ہو ( اور ایسا نہیں ہوسکتا) تو پھر تم عذر پیش کرو کہ یہ معاملات ان کے بعد پیش آئے ہیں تو لامحالہ ان اُمور کو انھوں نے ہی گھڑا ہوگا، جو ان کے راستے کے علاوہ دوسرے راستے کی پیروی کرتے ہیں اور خود کوان سے بیزار سمجھتے ہیں۔ پس تحقیق ہم نے صفات کے بارے میں کلام کیا جو ان کے کلام کے علاوہ تھا تو وہ تقصیر و کمی اور توہین ہے اور کچھ ان سے آگے بڑھنے لگے یہ ان کے لیے قیامت کے دن حسرت ہوگی اور کچھ لوگوں نے ان سے کمی کی تو وہ (صراط مستقیم پر) قرار نہ پاسکے اور کچھ لوگوں نے ان سے نظریں پھیریں تو انھوں نے غلو کیا۔اس کے باوجود کہ وہ صراط مستقیم پر تھے اگر تو یہ کہے فلاں فلاں آیت کہاں جائے گی ؟ اور اللہ نے ایسے ایسے کیوں کہا؟ تحقیق انھوں نے بھی وہی پڑھا جو تم نے پڑھا اور ان کی تفسیر کو جانا جس کی تفسیر و تاویل سے تم نا آشنا و جاہل ہو پھر ان ساری باتوں کے بعد انھوں نے کہا ہدایت یافتہ وہی ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق دے کیونکہ ہدایت کی توفیق دینا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہی جانتا ہے کہ ہدایت کے قابل کون ہے ۔
سنن ابوداؤد، كتاب السنة ، رقم: 4612 منهج سلف صالحين، ص : 511، 611.
محمد بن سیرینؒ :
❀ محمد بن سیرینؒ فرماتے ہیں:
’’جس نے بدعت اختیار کی تو پھر وہ سنت کی طرف نہ لوٹ سکا ۔‘‘
سنن الدارمي: 41/1.
سعید بن جبيرؒ :
❀ سعید بن جبیرؒ فرماتے ہیں:
’’میرا بیٹا کسی شاطر فاسق کی صحبت میں رہے جو صاحب سنت ہو تو یہ میرے لیے اس بات سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے عبادت گزار کی صحبت میں رہے جو بدعتی ہو ۔‘‘
الابانة الصغرى لابن بطه: 133 .
حسان بن عطیہؒ :
❀ حضرت حسان بن عطیہؒ فرماتے ہیں:
﴿ما ابتدع قوم بدعة فى دينهم إلا نزع من ستتهم مثلها .﴾
سنن الدارمي، رقم: 99 .
’’جب بھی کوئی قوم دین میں بدعت ایجاد کرتی ہے تو ان میں سے اس کے مثل سنت اٹھالی جاتی ہے۔‘‘
ابوادر ليس الخولانیؒ :
❀ ابو ادریس الخولانیؒ نے ارشاد فرمایا:
’’اگر میں دیکھوں کہ مسجد میں آگ لگی ہوئی ہے جسے میں بجھا نہیں سکتا تو یہ میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ میں مسجد میں کوئی بدعت دیکھوں جسے میں مٹا نہ سکوں ۔‘‘
السنة للمروزي ، رقم : 88 .
بوقلابہؒ :
❀ ابو قلابہؒ فرماتے ہیں:
’’اہل بدعت کی صحبت اختیار نہ کرو اور نہ ہی ان سے بحث و مباحثہ کرو اس لیے کہ خطرہ ہے کہ وہ کہیں تمہیں اپنی گمراہی میں مبتلا کر دیں یا شکوک لیے شبہات میں نہ ڈال دیں ۔‘‘
سنن دارمی ،المقدمه باب اجتناب اهل الاهواء .
❀ ابوقلابہؒ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک بدعتی لوگ گمراہ ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ دوزخ میں ہی جائیں گے۔‘‘
سنن الدارمي، رقم : 101 .
ائمہ کرام کے اقوال میں بدعت کی مذمت
ائمہ کرام اور اہل علم نے بھی بدعت کی مذمت بیان کی ہے۔ ذیل میں دیے گئے اقوال وفتاویٰ ائمہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔
امام مالک بن انسؒ :
امام شاطبیؒ نے امام مالکؒ سے نقل فرمایا ہے:
’’جو شخص اسلام میں کوئی بدعت متعارف کراتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے تو اس شخص کا یقینا یہ عقیدہ ہے کہ محمد ﷺ نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں خیانت کی ہے:
(العیاذ باللہ) اور اگر تم دلیل چاہو تو اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھو:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾
﴿المائده : 3﴾
’’آج کے دن میں نے تمھارا دین تمھارے لیے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو تمھارے لیے بطور دین پسند کر لیا۔‘‘
❀ پھر امام شاطبیؒ فرماتے ہیں:
ہم اس روایت کو جو امام مالکؒ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ دین میں کوئی بدعت ایجاد کرے چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی اور معمولی کیوں نہ ہو، اور چاہے وہ کردار و سلوک میں ہو یا عبادات و اعتقادات میں، اور ہم اس روایت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں قرآن کریم کی اس آیت پر اعتماد کرتے ہوئے کہ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے دین یعنی اسلام کو تمام کر کے ہم پر اپنی نعمت تمام کر دی۔
الاعتصام: 35/2 .
❀ مزید فرمایا:
’’اور اس امت کے آخری (لوگوں) کی اصلاح نہیں ہوسکتی مگر صرف اس طریقے سے جس سے اس امت کے پہلے (لوگوں) کی اصلاح ہوئی تھی۔ پس جو چیز اس وقت دین کا حصہ نہ تھی وہ آج بھی دین کا حصہ نہیں بن سکتی ۔‘‘
الشفا للقاضي عياض : 676/2 .
امام شافعیؒ:
❀ امام شافعیؒ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اہل کلام کے بارے میں میرا فیصلہ یہ ہے کہ کھجور کی شاخ سے ان کی پٹائی کی جائے ، انھیں اونٹ پر سوار کر کے علاقوں اور قبیلوں میں گھمایا جائے اور اعلان کیا جائے کہ یہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر علم کلام سے جڑ جانے کا انجام ہے۔‘‘
الحليه 116/9 .
❀ امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
’’امام لیث نے نرمی سے کام لیا، میں اگر اہل بدعت کو ہوا میں اڑتے دیکھوں تو تسلیم نہ کروں گا ۔‘‘
تلبیس ابليس لابن جوزی 14 ، اصول اعتقاد اهل السنة للالكائي: 145/1 .
امام احمد بن حنبلؒ :
امام اہل سنت و الجماعت ابو عبداللہ احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:
ہمارے نزدیک سنت کے اصول یہ ہیں :
① جس چیز پر رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرامؓ تھے اس سے تمسک اختیار کرنا۔
② ان کی اقتداء کرنا۔
③ بدعات کو ترک کر دینا۔
④ ہر بدعت گمراہی ہے۔
⑤ اصحاب اہواء (خواہش نفس کی پیروی کرنے والوں یعنی بدعتی لوگوں) سے بحث و مباحثہ ترک کرنا۔
⑥ ان (بدعتیوں) کے ساتھ بیٹھنا بھی ترک کر دینا۔
⑦ دین میں جھگڑنا ، جدال کرنا اور (بے جا) بحث ومباحثے (مناظروں) کو ترک کرنا۔
⑧ سنت ہمارے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے آثار ہیں ۔
⑨ سنت قرآن کریم کی تفسیر کرتی ہے اور یہ (سنتیں) قرآن کریم کے دلائل ہیں۔
⑩ سنت میں قیاس نہیں، اور اس کے لیے مثالیں بھی بیان نہیں کرنی چاہیں ، اور اسے عقل یا خواہشات سے نہیں پر کھا جا سکتا بلکہ یہ (سنت) تو محض خواہش نفس کو ترک کرنے کا نام ہے۔
⑪ ان لازمی سنتوں میں سے جن میں سے کسی ایک خصلت کو بھی کوئی اس طور پر ترک کرے کہ نہ تو اسے قبول کرے اور نہ ہی اس پر ایمان رکھے تو وہ ان (اہلسنت و الجماعت) میں سے نہیں۔
اصول السنة للامام احمد بن حنبل .
امام سفیان ثوریؒ :
❀ امام سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ:
﴿البدعة أحب إلى إبليس من المعصية، لان المعصية يتاب منها ، والبدعة لا يتاب منها﴾
منهج سلف صالحين ، ص: 111 .
’’شیطان کو بدعت نافرمانی و گناہ سے زیادہ محبوب و پسند ہے کیونکہ گناہ و نافرمانی سے توبہ کر لی جاتی ہے مگر بدعت سے تو بہ اکثر طور پر نہیں کی جاتی ۔‘‘
❀ سفیان الثوریؒ مزید فرماتے ہیں:
’’غلط چیز کو چھوڑ دو اگر تم نے ایسا کیا تو حق پر نہیں ہو سنت پر عمل کرو بدعتوں سے دور رہو میں درست بات یہ سمجھتا ہوں کہ اسلاف کے نقش قدم پر چلا جائے ۔‘‘
شرح السنة للبغوى: 217/1 .
❀ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:
’’اکثر اسلاف بدعت سے اس قدر ڈراتے ہیں ان کا خیال ہے کہ دل کمزور ہوتے ہیں اور شبہات ان میں جلدی داخل ہو جاتے ہیں۔‘‘
سیر اعلام النبلاء: 261/7 .
احمد بن سنان الواسطیؒ :
امام احمد بن سنان الواسطی (متوفی 259 ھ) فرماتے ہیں:
’’دنیا میں جو بھی بدعتی ہے وہ اہل حدیث سے بغض رکھتا ہے اور آدمی جب بدعتی ہو جاتا ہے تو حدیث کی مٹھاس اس کے دل سے نکل جاتی ہے ۔‘‘
معرفة علوم الحديث للحاكم ، ص: 4.
قاضی ابو یعلیؒ :
❀ قاضی ابو یعلیؒ فرماتے ہیں:
صحابہ اور تابعین کا اہل بدعت کے ساتھ مقاطعہ اور ان سے قطع تعلق رکھنے میں اجماع ہے ۔
هجر المبتدع، ص: 32 .
امام بغویؒ :
❀ امام بغویؒ فرماتے ہیں:
’’پیارے رسول اللہ ﷺ نے امت کے افتراق کے بارے میں پہلے ہی خبر دے دی تھی، اس لیے اہل بدعت اور اہل ہواء سے مقاطعہ اس وقت تک رہے گا جب تک کہ وہ تو بہ نہ کر لیں ۔‘‘
شرح السنة للبغوى: 224/1- 227 .
ابوالفضل الھمدانیؒ :
❀ الشیخ ابوالفضل الھمدانی نے فرمایا:
’’اہل بدعت اسلام کے لیے ملحدین سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے کیونکہ ملحدین دین کو بیرونی ذرائع سے بگاڑنا چاہتے ہیں جب کہ اہل بدعت دین کو اندرونی طور پر بگاڑنا چاہتا ہے، ان کی مثال اس شہر والوں کی سی ہے جو شہر کے حالات کو بگاڑنا چاہتے ہیں ، اور ملحدین کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو باہر سے آکر ان کا ساتھ دیتے ہیں تو اہل شہر قلعہ اور شہر کا دروازہ کھولتے ہیں، (تاکہ بیرونی مددگار بھی اندر داخل ہوسکیں) لہٰذا یہ ٹولہ اسلام کے لیے اندرونی دشمن ہونے کی وجہ سے زیادہ خطرناک ہے (یہ آستین کے سانپ ہیں) ۔‘‘
الموضات : 51/1 .
عبد اللہ بن مبارکؒ :
❀ امام عبد اللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں:
’’جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم اصاغر سے طلب کیا جائے گا، فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اصاغر سے مراد اہل بدعت ہیں ۔‘‘
الذهد لابن المبارك 281 ، السلسلة الصحيحة، رقم : 695 .
یحیی بن ابي كثيرؒ :
❀ یحییٰ بن ابی کثیرؒ فرماتے ہیں:
’’جب کسی جگہ تم سے بدعتی کی ملاقات ہو جائے تو تم دوسرا راستہ اختیار کرلو۔‘‘
الشريعة للآجرى : 640 .
امام اوزاعیؒ :
❀ امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں:
’’بدعتی سے بحث و مباحثہ کی زیادہ کوشش مت کرو جس کی وجہ سے تمہارے دلوں میں فتنے پیدا ہو جائیں ۔‘‘
البدع و النهى عنها، للقرطبي: 52 .
امام یحیی بن سعید القطانؒ :
❀ امام یحییٰ بن سعید القطانؒ رقمطراز ہیں:
﴿ليس فى الدنيا مبتدع إلا يبغض أهل الحديث .﴾
مقدمة جامع الاصول للجزرى .
’’دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہیں جو اہل حدیث سے بغض نہ رکھتا ہو۔‘‘
امام ابو محمد حسن بن علی البر بہاریؒ :
❀ امام بر بہاریؒ فرماتے ہیں کہ:
﴿وهم أهل السنة والجماعة ، فمن لم يأخذ عنهم فقد ضل وابتدع ، وكل بدعة ضلالة ، والضلالة وأهلها فى النار .﴾
منهج سلف صالحين، ص: 66 .
’’صحابہ کرام ہی اہل السنہ والجماعت ہیں جو ان سے دین کے معاملات میں رہنمائی نہیں لیتا، وہ گمراہ ہو گیا اس نے بدعت گھڑی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی اور گمراہ دونوں جہنمی ہیں ۔‘‘
علامہ بر بہاریؒ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ:
﴿واحذر صغار المحدثات من الأمور، فإن صغير البدع يعود حتى يصير كبيرا .﴾
منهج سلف صالحين، ص: 112 .
’’چھوٹی چھوٹی بدعتوں سے بھی بچو کیونکہ چھوٹی بدعتیں ہی چلتے چلتے بڑی ہو جاتی ہیں۔‘‘
حافظ ابن کثیرؒ :
❀ حافظ ابن کثیرؒ رقمطراز ہیں:
’’اہل سنت والجماعت کے نزدیک ہر وہ قول اور فعل بدعت ہے جس کا ثبوت صحابہ سے نہیں اس لیے اگر بعد والے قول اور فعل میں کوئی اچھائی ہوتی تو صحابہ اس کی طرف سب سے سبقت لے جاتے اور اس کے کرنے میں پہل کرتے اس لیے کہ انہوں نے کوئی بھی بھلائی کی خصلت نہیں چھوڑی مگر اس کے کرنے میں انہوں نے بڑی تیزی اور عجلت دکھائی ہے ۔‘‘
ابن كثير : 56/4 .
الشيخ عبد القادر جیلانیؒ :
الشيخ عبد القادر جیلانیؒ بدعتی کی مندرجہ ذیل علامت کا انکشاف کرتے ہیں:
﴿فعلامة لأهل البدعة الوقيعة فى أهل الأثر .﴾
غنية الطالبين ، ص: 175 .
’’بدعتیوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو گالیاں بکتے ہیں۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ :
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’اہل بدعت کی یہ عادت ہے کہ وہ کتاب وسنت اور آثار صحابہ و تابعین پر انحصار و بھروسہ نہیں کرتے ، بلکہ ان کا اعتماد و بھروسہ عقل اور لغت عرب پر ہے ان کا اعتماد ایسی کتب تفسیر پر نہیں ہوتا جو احادیث اور آثار صحابہ اور تفسیر بالماثور پر مشتمل رہیں بلکہ اس کی بجائے ان کا بھروسہ کتب ادب اور کتب کلام پر ہے جن کتب کو ان کے بڑوں نے لکھا ہے، یہ طریقہ تو ملحد و بے دین لوگوں کا ہے جو کتب فلسفہ و کلام اور کتب لغت کی باتوں کو لیتے ہیں، لیکن کتب احادیث و آثار صحابه حتی کہ قرآن کی طرف بھی التفات تک نہیں کرتے یہ لوگ نصوص انبیاءؑ سے بھی انحراف و اعراض کرتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک تو یہ نصوص (بے فائدہ ہیں) علم کا فائدہ تک نہیں دیتیں ۔‘‘
منهج سلف صالحين، ص: 138 .
علامہ ابن قیمؒ :
❀ علامہ ابن القیم نے لکھا ہے:
’’شیطان کا ایک مکر یہ بھی ہے کہ اس نے عوام کو ایک مذہبی لباس، ایک ہیئت اور ایک ہی قسم کے چال چلن اور ایک ہی متعین شیخ اور متعین مذہب کی پابندی کا ایسا عادی بنادیا ہے کہ لوگ اسے دینی فریضہ کی طرح اختیار کر چکے ہیں اور اس متعین دائرے سے نکلنے کو دین سے نکل جانے کے برابر سمجھتے ہیں اور جو لوگ اس تنگ مذہبی دائرے سے نکلنا چاہتے ہیں یا نکل جاتے ہیں، یہ انھیں خارجی اور بے مذہب ہونے کا طعنہ دیتے ہیں، جیسے مقلدین مذاہب اور صوفیاء کے مریدوں کا حال ہے کہ وہ اپنے حلقوں کو آسمان سے اترا ہوا دائرہ سمجھتے ہیں اور نقش بندی یا سہروردی یا شاذلی یا تیجانی یا قادری حلقہ سے باہر رہنے والوں کو دائرہ حق سے باہر سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں نے شریعت و طریقت کے نام پر چند موہوم اور من گھڑت رسوم و عادات کو دین کا نام دے کر اپنا لیا ہے۔ جن کا دینی حقائق اور کتاب وسنت سے دور کا واسطہ بھی نہیں، جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کو تلاش کریں گے اور ان خرافات سے اس کا مقابلہ کریں گے ان پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ سنت رسول ﷺ اور شریعت ربانی کے درمیان اہل بدعت و ضلالت کے من گھڑت رسم و رواج میں زمین و آسمان اور سیاہ و سفید بلکہ رات اور دن کا فرق ہے۔‘‘
اغاثة اللهفان، ص: 561.
امام شاطبیؒ :
❀ امام شاطبیؒ فرماتے ہیں:
یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اس وقت تک موت نہیں آئی کہ جب تک انھوں نے ان تمام دینی و دنیاوی امور کو بیان نہیں کر دیا، جن کی طرف (بندہ) محتاج ہو سکتا ہے اور یہ بات ہے کہ اہل السنہ میں سے اس کی مخالفت کرنے والا کوئی نہیں ہے اگر معاملہ اس طرح مانیں، جس طرح بدعتی لوگ کہتے ہیں تو گویا وہ اپنی زبان حال یا واضح طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شریعت مکمل نہیں ہے بلکہ شریعت میں کچھ ایسی چیزیں باقی رہ گئی ہیں جن کا جاننا واجب یا مستحب ہے کیونکہ اگر ان کا یہ عقیدہ ہوتا یا ہے کہ شریعت مکمل و اکمل اور اتم ہے تو یہ دین میں بدعتیں نہ گھڑتے اور نہ ہی استدراک کی ہر لحاظ سے کوششیں کرتے ، جو شخص یہ بات کہتا ہے وہ صراط مستقیم سے بھٹک چکا ہے۔‘‘
منهج سلف صالحين، ص: 87 .