احداث (ایجاد بدعات)
بدعات، ریا کاری کا زینہ اور شرک کا دروازہ ہیں۔ اہل بدعت جو بھی عمل کرتے ہیں ان میں رضائے الہی کے بجائے نام ونمود اور فخر و مباہات کا جذ بہ نمایاں ہوتا ہے ۔ وہ بدعت کے اعمال ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر سر انجام دینے کی کوشش اور سعی کرتے ہیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ وہ اخلاص فی الدین کی صفت سے بالکل ہی محروم اور تہی دامن ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجہ میں ارکانِ دین اور فرائض و واجبات میں بھی ان کے اندر ریا کاری کا غلبہ ہو جاتا ہے ، اور یقیناً ریا کاری شرک اصغر ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((أَخُوفُ مَا أَخافُ عَلَيْكُمُ الشَّرُكُ الأَصْغَرُ ، قَالُوا: يَا رَسُولُ اللَّهِ ! وَمَا الشّرُكُ الأصْغَرُ ، قَالَ : الرِّيَاءُ.))
شعیب الارناؤوط نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ مسند أحمد : ٤٢٨/٥ ، رقم : ٢٣٦٣٠ – حافظ ابن حجرؒ نے اس کی سند کو حسن بلوغ المرام، ص: ۳۰۲ – جب کہ منذریؒ نے ”جید“ کہا ہے۔ الترغيب : ٦٩/١۔
تمہارے متعلق سب سے زیادہ ڈر مجھے شرک اصغر سے ہے۔ لوگوں نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول ﷺ ! شرک اصغر سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:
’’ریا کاری‘‘
جب نمود و نمائش اور ریا کاری دل میں جڑ پکڑ لیتی ہے تو پھر اغوائے شیطانی کے نتیجہ میں انسان بڑی آسانی سے ’’شرک‘‘ اکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ قرآن کریم میں شیطان کا یہ عزم ظاہر کیا گیا ہے جو اس نے رب العالمین کے رو برو قسم کھا کر کیا تھا:
(قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ(82)اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(83))
(ص: ۸۳۸۲)
ابلیس نے کہا:
پس تیری عزت کی قسم ! میں یقیناً ان تمام انسانوں کو گمراہ کروں گا، سوائے تیرے ان بندوں کے جو مخلص ہوں گے ۔
ظاہر ہے کہ ’’ریا‘‘ اخلاص کی ضد ہے ، جب انسان ریا کاری کا عادی ہو جاتا ہے تو شیطان اس کو آسانی سے اپنی راہ پر لگا لیتا ہے۔
ریا کاری کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اللہ کا خوف دل سے مٹا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اہل بدعت کو ان کے مبینہ شرک و بدعت پر متنبہ کیا جائے تو وہ قرآن وسنت کے احکام سن کر اللہ کے خوف سے لرزہ براندام ہونے اور توبہ کرنے کی بجائے اپنے ان افعال کی تاویلات باطلہ کرنے لگ جاتے ہیں، اور حق بات سن کر چراغ پا ہو جاتے ہیں اور ضد میں آکر ان شرک و بدعت کے قبیح افعال کو اور زیادہ سختی سے اور بر ملا کر نے لگ جاتے ہیں ۔
اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات،ص:۲۶۔۲۷۔ بتغییر ییسیر۔