عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اليَهُودَ وَالنَّصَارَي لَا يَصْبُغُونَ، فَخَالِفُوهُمْ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بلاشبہ یہودی اور عیسائی بالوں کو نہیں رنگتے، چنانچہ تم ان کی مخالفت کرو۔“ (بخاری : 5899، مسلم : 2103)
بالوں کو رنگنے کا حکم استحبابی ہے کیونکہ سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ آ پ کے یہ بال سفید تھے، ان کا اشارہ نچلے ہونٹ اور ٹھوڑی کے درمیان کے بالوں کی طرف تھا۔“ (بخاری : 3545، : مسلم : 3242)
اسی طرح حدیث میں ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب نہیں لگایا تھا، (مزید) فرمایاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بال سفید نہیں ہوئے تھے، صرف داڑھی کے اگلے حصے میں سترہ یا بیس بال سفید تھے۔“ (ابن ماجہ : 3629)
اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید بالوں کی تعداد بیس کے قریب تھی۔“ (سنن ابن ماجہ، ترمذی فی الشمائل)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ بالوں کو رنگنا لازم نہیں بلکہ مستحب ہے۔ بالوں کو سیاہ رنگ لگانا منع ہے کیونکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :
فتح مکہ کے دن سیدنا ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا گیا، ان کا سر ’’ ثغامۃ“ ( سفید گھاس) کی طرح سفید تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’انہیں ان کے گھر کی کسی خاتون کے پاس لے جاؤ، وہ ان کے بالوں کا رنگ تبدیل کر دے اور انہیں سیاہ رنگ سے بچانا۔“
اگر رنگ ملا کر بھی لگایا جائے تو کالا رنگ غالب نہ ہو بلکہ مغلوب ہو۔ آج کل بے دین اور دیندار لوگوں میں کالا رنگ لگانے کا عام رواج ہے۔ کوئی کہتاہے ’’ڈارک براؤن“ لگایا ہے اور کوئی کہتا ہے ’’ملا کر“ لگایا ہے، یہ سب تاویلات ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کالے رنگ سے بچنا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سنت سمجھنے اور ا س پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین أللہم آمین.