سوال : کیا بارش کی وجہ سے نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں؟ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب : اللہ تبارک وتعالیٰ نے مقررہ اوقات میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے لہٰذا ہمیں ہر نماز اس کے وقت میں ادا کرنی چاہیے۔
وقت کے علاوہ صرف وہی نماز ادا ہو سکتی ہے جس کی کوئی شرعی دلیل موجود ہو، بغیر دلیل کے کسی نماز کو اس کے وقت سے پہلے ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح نمازوں کو جمع کرنے کے لیے بھی دلیل کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کو جمع کیا ہے۔ اگر سفر زوالِ شمس کے بعد شروع کرتے تو ظہر کے وقت میں عصر بھی پڑھ لیتے تھے۔ اسی طرح مغرب کے وقت میں عشاء ادا کر لیتے تھے اور اگر سفر زوال سے پہلے شروع کرتے تو ظہر کو مؤخر کر دیتے اور عصر کو اول وقت میں ادا کر لیتے۔ اسی طرح مغرب کو تاخیر سے ادا کرتے اور عشاء کو اوّل وقت میں پڑھ لیتے۔ [ابوداؤد، كتاب صلاة السفر : باب الجمع بين الصلاتين1220، بيهقي3 /162، دار قطني1 /393، ترمذي553، المسند المستخرج لأبي نعيم 2/ 294]
اب رہا مقیم آدمی کے لئے نماز جمع کرنا اور اس کا طریقہ کار تو بعض اوقات مقیم آدمی بھی نماز جمع کر سکتا ہے۔ [مسلم، كتاب الصلاة المسافرين و قصر ها : باب الجمع بين الصلاتين فى الخٰر705]
یہاں محل نزاع یہ بات ہے کہ مقیم کی جمع کا طریقہ کار کیا ہے ؟ کیا مقیم ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب کے ساتھ عشاء پڑھ سکتا ہے یا ظہر کو مؤخر کر کے عصر کو اوّل وقت میں ادا کرے۔ اسی طرح مغرب کو مؤخر کرے اور عشاء کو اوّل وقت میں پڑھے ؟ تو ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ مقیم ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب کے ساتھ عشاء جمع نہیں کر سکتا، اگر جمع کرنا چاہے تو ظہر کو مؤخر کرے اور عصر کو اوّل وقت میں پڑھے، اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کرے۔
جن حضرات نے یہ کہا ہے کہ مقیم بھی مسافر کی طرح نمازیں جمع کر سکتا ہے انہیں حدیث سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ حالانکہ یہ مطلق جمع کا ذکر ہے، اس کا طریقہ کار بیان نہیں ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کو نقل کیا ہے :
«ان النبى صلى الله عليه وسلم صلى بالمدينة سبعا وثمانيا الظهر والعصر والمغرب والعشاء » [بخاري، كتاب مواقيت الصلاة : باب تاخير الظهر الي العصر 543]
”بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں سات اور آٹھ رکعات جمع کر کے ادا کیں یعنی ظہر و عصر اور مغرب و عشاء۔“
اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب قائم کیا ہے : «باب تاخير الظهر الي العصر» یعنی ظہر کو عصر تک مؤخر کرنے کا بیان۔
سید الفقہاء، امام المحدثین، حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس حدیث میں ظہر کی نماز کو عصر تک مؤخر کرنے اور مغرب کو عشاء تک مؤخر کرنے کا بیان ہے تاکہ نمازیں جمع بھی ہوں اور اپنے اپنے وقت میں بھی ادا ہوں اور امام نسائی رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کو مفصل بیان کر کے بات بالکل واضح کر دی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
«صليت مع النبى صلى الله عليه وسلم بالمدينة ثمانيا جميعا وسبعا جميعا، اخر الظهر وعجل العصر واخر المغرب وعجل العشاء» [نسائي كتاب المواقيت باب : الوقت الذى يجمع فيه المقيم 590]
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں آٹھ اور ساتھ رکعت اکٹھی ادا کیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو جلدی کیا اور مغرب کو مؤخر کیا اور عشاء کو جلدی کیا۔
اس روایت پر امام نسائی رحمہ اللہ نے یوں باب قائم کیا ہے «الوقت الذى يجمع فيه المقيم» اس وقت کا بیان جس میں مقیم نماز جمع کرے۔
ان صحیح احادیث اور محدثین کی فقاہت سے واضح ہو گیا کہ مقیم آدمی نمازیں جمع کرنا چاہے تو اپنی اوقات میں پڑھے یعنی ظہر کو تاخیر سے اور عصر کو اول وقت میں، اسی طرح مغرب آخری وقت میں اور عشاء کو اول وقت میں۔ «والله اعلم»