محمد بن اسحاق کہتے ہیں کسی کہنے والے نے آمنہ سے یہ بھی کہا تھا کہ اس کے آنے کی نشانی یہ ہو گی کہ ان کی آمد کے ساتھ روشنی نمودار ہو گی جو ارض شام میں واقع مقام بصری کے محالات کو بھر دے گی۔ جب یہ پیدا ہو جائے تو اس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکھنا ہے شک اس کا نام تورات میں احمد ہے۔ اس لیے کہ اہل زمین اس کی تعریف کریں گے۔ اور یہ اس کا نام انجیل میں بھی احمد ہے۔ اہل آسمان اور اہل زمین اس کی تعریف کریں گے اور اس کا نام قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے لہٰذا میں نے یہی اس کا نام رکھا ہے۔ اسی واقعہ کو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سعید الفت کہتے ہیں :
اجے شکم مادر چ ہے سن پیغیبر
کئی واری ستیاں ہویاں خواب اندر
مائی آمنہ نوں بتایا گیا سی
قدرتوں سبق ایہہ پڑھایا گیا سی
تیرے بچے جیسا کروڑیں نہ لکھیں
توں اس لڑکے کا ناں ”محمد“ ای رکھیں
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف۔
[دلائل النبوة للبيهقي 83/1]
محمد بن اسحاق کے آگے سند نہیں ہے۔
[ذكره ابن كثير فى السيرة النبوية 206،ورواه ابن عساكر فى تاريخ دمشق 82/2، و ابن اثير فى الكامل فى تاريخ 157/1، وابن كثير فى البداية والنهاية 323/2]
«جميعا عن ابن اسحاق.» نیز کی سند میں احمد بن عبدالجبار ضعیف ہے۔ یہ حدیث نہیں، نہ ہی کسی صحابی کا قول ہے بلکہ نبی سے ایک سو تینتس سال بعد پیدا ہونے والے محمد بن اسحاق کا قول ہے جو اس نے بغیر کسی واسطہ کے بیان کیا ہے۔
نوٹ : … نام محمد کس نے رکھا آمنہ نے یا عبدالمطلب نے اس کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ملی لیکن ہمیں اس بحث کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ جس نے بھی رکھا ہے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تائید فرما دی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق کر دی۔ قرآن پاک میں چار مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد آیا ہے۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)