ایک تاجر لوگوں کو چیزیں مختلف قیمتوں پر بیچتا ہے، چاہے وہ سامان ایک ہی ہو، مثلاً ایک کو دس روپے میں بیچ دیتا ہے، دوسرے کو بیس میں جبکہ تیسرے کو 5 روپے میں۔
اگر یہ اختلاف بازار کے اختلاف کی وجہ سے ہو اور اس چیز کی قیمت روز گھٹی اور بڑھتی ہو تو بازار کی قیمت پر بیچنے میں کوئی حرج او ممانعت نہیں لیکن اگر بیچنے میں اختلاف اس وجہ سے ہو کہ خریدار بڑا چالاک ہو اور سودے بازی میں طاق، اور دکاندار اس کی چرب زبانی کی وجہ سے قیمت میں کمی کر دے لیکن جب دیکھے کہ گاہک سودے بازی میں ماہر نہیں تو پھر اس پر غالب آکر اس کو مہنگے داموں فروخت کر د ے، یہ جائز نہیں کیونکہ یہ خیر خواہی کے خلاف اور سراسر دھوکا ہے۔
حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”دین اللہ تعالیٰ، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے ائمہ اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کانام ہے۔“ [صحيح مسلم 55/95]
وہ خود بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کے ساتھ ایسا کام کرے تو پھر وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ایسا کرنے پر راضی کیونکر ہو سکتا ہے؟ لہٰذا ضروری یہی ہے کہ جس جگہ وہ ہو اسی کے مطابق قیمت بتائے اور خریدار کی کند ذہنی کی وجہ سے ایک کے لیے ایک ریٹ اور دوسرے کے لیے دوسرا ریٹ مقرر نہ کرے۔
لیکن اپنے دوستوں اور اصحاب کے لیے جانبداری کرتے ہوئے اگر وہ قیمت میں کمی کر لے تو اس میں کوئی حرج ہے نہ قباحت ہی، یا پھر یہ کہ وہ بازار کی قیمت کے مساوی ہی سامان فروخت کرتا ہو لیکن کوئی آدمی آکر قیمت کم کرنے کے لیے بھرپور اصرار کرے اور وہ اس کے لیے قیمت کم کر دے تو یہ اس کے لیے نقصان دہ نہیں کیونکہ وہ مروجہ بھاؤ سے باہر نہیں نکلا۔
[ابن عثیمين: نور على الدرب: 6/254]