ایک مسجد میں فرائض کی دوسری جماعت
ایک ہی مسجد میں فرض نماز کی دوسری جماعت جائز و درست ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [البقرة: 43]
”رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔“
➋ صلاة الجماعة تفضل على صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة ”
جماعت کی نماز اکیلے شخص کی نماز سے ستائیس (27) گنا افضل ہے۔“
[بخاري: 645 – 646 ، كتاب الأذان: باب فضل صلاة الجماعة]
➌ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
الا رجل يتصدق على هذا فيصلي معه
”ْ کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ نماز ادا کرے ۔“
[صحيح أبو داود: 574 ، كتاب الصلاة: باب الجمع فى المسجد مرتين]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے مسجد میں فرض نماز کی دوسری جماعت جائز قرار دیتے ہیں۔
[تحفة الأحوذى: 11/2]
(شمس الحق عظیم آبادیؒ) انہوں نے بھی اس حدیث سے ایک ہی مسجد میں دوسری جماعت کے جواز پر استدلال کیا ہے۔
[عون المعبود: 225/1]
(حاکمؒ) اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث مساجد میں دو مرتبہ اقامت جماعت کی دلیل ہے۔
[مستدرك حاكم: 209/1]
➍ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ ایک ایسی مسجد میں آئے جس میں نماز ادا کی جا چکی تھی تو انہوں نے آذان دی ، اقامت کہی اور پھر باجماعت نماز ادا کی۔
[بخاري تعليقا، كتاب الأذان: باب فضل صلاة الجماعة]
➎ امام ابو یعلیؒ نے اسی روایت کو موصول بیان کیا ہے۔
[مسند أبى يعلى: 351/7]
➏ امام ابن ابی شیبہؒ ، امام عبد الرزاقؒ اور امام بیہقیؒ نے بھی اسے موصول بیان کیا ہے۔
[مصنف ابن أبى شيبة: 321/2 ، مصنف عبد الرزاق: 291/2 ، السنن الكبرى للبيهقى: 70/3]
(ترمذیؒ ، بغویؒ ، داود ظاہریؒ) دوسری جماعت کے جواز کے قائل ہیں۔
[جامع ترمذي: 430/1 ، شرح السنة: 437/3 ، المجموع: 121/4]
(ابن حزمؒ ) (مسجد میں ) دوسری جماعت جائز ہے۔
[المحلى: 236/4]
(احمدؒ ، اسحاقؒ ، ابن منذرؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[عمدة القارى: 165/5 ، المجموع: 222/4]
(شیخ صالح عثیمینؒ) اگر کوئی عارضہ و مسئلہ در پیش ہونے کی وجہ سے کوئی جماعت تاخیر سے آئے اور اس وقت لوگ نماز پڑھ چکے ہوں تو بلاشبہ اگر وہ جماعت سے نماز ادا کر لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
[إعلام العابد: ص/ 66]
بعض علماء اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔
(ابن مسعودؓ ، مالکؒ ، شافعیؒ ، ابو حنیفہؒ) جس مسجد میں ایک مرتبہ باجماعت نماز ادا کی جا چکی ہو اس میں دوبارہ جماعت کروانے سے زیادہ بہتر ہے کہ اکیلے اکیلے نماز پڑھ لی جائے ۔
[جامع ترمذي: 430/1 ، شرح السنة: 437/3 ، الأم: 180/1 ، المبسوط: 135/1 ، المدونة الكبرى: 89/1 ، الحجة على أهل المدينة: 78/1 ، المعونة على مذهب عالم المدينة: 258/1 ، المجموع: 222/4 ، البناية فى شرح الهداية: 305/2 ، عمدة القارى: 165/5 ، بدائع الصنائع: 156/1 ، بذل المجهود: 177/4]
(البانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[تمام المنة: ص/ 157]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
إن رسول الله أقبل من نواحي المدينة يريد الصلاة فوجد الناس قد صلوا فمال إلى منزله فجمع أهله فصلي بهم
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے گرد و نواح سے آئے تو نماز پڑھنا چاہتے تھے لیکن لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ انہوں نے نماز پڑھ لی ہے لٰہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر چلے گئے وہاں اپنے گھر والوں کو جمع کیا اور ان کے ساتھ نماز پڑھ لی ۔“
[حسن: تمام المنة: ص/ 155 ، مجمع الزوائد: 45/2]
➋ امام علقمہؒ اور امام اسودؒ ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں آئے:
واستقبلهم الناس وقد صلوا فرجع بهما إلى البيت ثم صلى بهما ”لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ نماز پڑھ چکے تھے اس لیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے دونوں ساتھیوں کے ہمراہ گھر کی طرف روانہ ہو گئے پھر وہیں ان کے ساتھ نماز پڑھ لی ۔“
[عبدالرزاق: 409/2 ، 3883 ، المعجم الكبير: 9380]
شیخ البانیؒ رقمطراز ہیں کہ اگر دوسری جماعت مسجد میں مطلقا جائز تھی تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں گھر میں کیوں جمع کیا اس کے باوجود کہ فرائض مسجد میں ہی افضل ہیں۔
[تمام المنة: ص/157 – 158]
➌ یہ بات مسلم ہے کہ عبادات توقیفی ہیں یعنی عبادات میں اس قدر عمل کیا جائے گا جس قدر شریعت سے ثابت ہو گا۔
[مجموع الفتاوى: 385/28 ، أعلام الموقعين: 299/1 ، الموافقات: 513/2]
(راجح) مسجد میں دوسری جماعت جائز ہے جیسا کہ ابتداء میں بیان کیے جانے والے دلائل اس میں کافی ہیں البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مذکورہ عمل کی وجہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کچھ کراہت ضرور موجود ہے۔