ایک مجلس کی تین طلاقیں سعودی علماء کی نظر میں
تحریر: حافظ محمد اسحاق زاھد حفظ اللہ، کویت

اس مسئلے میں سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام ہے،حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے متعلق بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أيلعب بكتاب الله، وأنا بين أظهركم ؟
ترجمہ : ”کیا کتاب اللہ کو کھلونا بنایا جارہا ہے جب کہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں ؟ “ [النسائي ]
اور طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ خاوند بیوی کو طہر کی حالت میں ایک بار طلاق دے، پھر اگر رجوع نہیں کرنا چاہتا تو بیوی کے قریب جائے بغیر دوسرے طہر میں دوسری طلاق دے، پھر اگر وہ رجوع نہیں کرنا چاہتا تو تیسرے طہر میں بیوی کے قریب جائے بغیر تیسری طلاق دے دے۔ [ بخاري و مسلم ]
ہی طریقہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں بیان کیا ہے فرمایا :
ا لطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ [2-البقرة:229]
”طلاق دو مرتبہ ہے، پھر یا تو اچھائی سے روکنا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔“
یعنی وہ طلاق جس کے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے، وہ دو مرتبہ ہے، تو پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد خاوند رجوع کر سکتا ہے، جب کہ تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد اسے رجوع کا حق حاصل نہیں، اور یہ جو رجوع کی گنجائش رکھی گئی ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ بغیر سوچے سمجھے طلاق دینے کے بعد دونوں میں جدائی نہ ہو جائے، بلکہ خاوند کو سوچنے اور غور و فکر کر نے کا موقع دیا جائے، ورنہ اگر پہلی طلاق کے ساتھ ہمیشہ کے لئے جدائی کا حکم ہوتا تو اس سے بہت سارے گھر تباہ ہو سکتے تھے، اور فرمان الہٰی الطلاق مرتان میں اسی حکمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور ہمارے نزدیک زیر بحث مسئلے میں بھی یہ حکمت تبھی پوری ہوسکتی ہے جب ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی شمار کیا جائے اور اس کے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہو، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے عہد میں، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پورے دور خلافت میں اور پھر عمر رضی اللہ عنہ عہد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی شمار کیا جاتا تھا، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ طلاق
کے مسئلے میں انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو انہوں نے سزا کے طور پر تین طلاقیں نافذ کر دیں [ مسلم
]

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اکٹھی تین طلاقوں کو تین طلاقیں شکار کرنے کا حکم کیوں جاری کیا، حالانکہ عہد رسالت، عہد صدیقی اور خود ان کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایسا نہیں تھا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک لوگ طلاق دینے کے شرعی طریقے کے پابند تھے اس وقت تک حضرت عمررضی اللہ عنہ کے عہد رسالت اور عہد صدیقی میں رائج قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرتے رہے، اور اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دیتا تھا تو اس کی پشت پر درے رسید کرتے تھے۔ [فتح الباري جااس سے 277 ] کیونکہ بل شریعت میں انتہائی ناپسندیدہ تھا، لیکن جب لوگ کثرت سے ایسا کرنے لگے تو انہوں نے سزا کے طور پر تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم جاری کر دیا تا کہ لوگ اس سے باز آجائیں اور طلاق کے معاملے میں غور و فکر اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، اس اقدام کی وجوہات چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو معلوم تھیں اس لئے انہوں نے بھی اس پر خاموشی اختیار کی۔
یہاں پر ایک بات قابل ملاحظہ ہے اور وہ یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کرتے وقت یہ نہیں فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا فلو أمضينا عليهم ، یعنی اس حکم کی نسبت انہوں نے اپنی طرف کی، تو یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا جو مخصوص حالات کو پیش نظر رکھ کر لوگوں کے ایک مخصوص طرزعمل کو روکنے کے لئے کیا گیا، بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر ندامت ہوئی اور انہوں نے اس سے رجوع کر لیا۔
کیا مسئلہ طلاق اجتماعی مسئلہ ہے ؟
احناف مقلدین یہ دعویٰ کرتے تھکتے نہیں کہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیک وقت دی ہوئی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم جاری کیا ہے، تب سے اس حکم پر اجماع چلا آ رہا ہے، اور اس سے سوائے اہلحدیثوں کے کسی اور نے اختلاف نہیں کیا، حالانکہ یہ ایک بہت بڑی علمی خیانت ہے اور جھوٹے پروپیگنڈہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیونکہ :
➊ عہد صدیقی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں بھی تو اس بات پر اجماع تھا کہ اکٹھی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کیا جائے، اس اجماع کی حیثیت کیا ہوگی ؟ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جاری کردہ ایک تعزیری حکم سے وہ اجتماع باطل قرار پائے گا اور نا قابل عمل ہو گا ؟
➋ اس میں کوئی شک نہیں کہ تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم ایک خلیفہ راشد نے جاری کیا (اگرچہ حکم ایک تعزیزی حکم تھا، لیکن انہیں ایک طلاق شمار کرنے کا قانون بھی تو ان سے افضل ایک خلیفہ راشد ہی کے دور خلافت کا قانون تھا، پھر خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی قانون کو دو سال تک درست قرار دیا، اسی طرح خلفائے راشدین میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مذہب بھی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنا تھا تو بتایئے آپ کے دعوائے اجماع کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟
➌ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرات ابن مسعود رضی اللہ عنہ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ بھی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے کے قائل تھے تو کہاں گیا آپ کا دعوائے اجماع ؟
➍ تابعین و تبع تابعین رحمہ اللہ میں سے عطاء رحمہ اللہ، طاوس رحمہ اللہ اور عمر رحمہ اللہ و بن دینار وغیرہ بھی ایک مجلس کی
تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی شمار کرتے تھے [ فتح الباري : ج ااص 278 ]
➎ علماء امت مثلا شیخ الاسلام ابن تیمیہ، حافظ ابن القیم، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام قرطبی، امام فخرالدین الرازی، امام شوکانی وغیرہ نے اس مسئلے کو اختلافی مسئلہ قرار دیا ہے، تو معلوم نہیں یہ اجمائی کیونکر ہو گیا ؟
➏ کتاب الفقه على المذاهب الأربعة کے مصنف اور مشہور عالم عبد الرحمن الجزیری دعوائے اجماع کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ولكن الواقع أنه لم يوجد إجماع، فقد خالفهم كثير من المسلمين
”حقیقت یہ ہے کہ ( اقدام عمر رضی اللہ عنہ ) پر کبھی اجماع نہیں پایا گیا، اور بہت سارے مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔“
➐ ہندوستان میں اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ احمد آباد کے زیر اہتمام نومبر 1973ء میں ایک سیمینار منعقد ہوا، جس میں چھ دیوبندی اور دو اہلحدیث علماء نے شرکت کی اور ان میں سے سات نے اس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں پر مقالے پیش کیے اور سوائے ایک کے باقی سب نے اس مسئلے کو عہد صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہی اختلافی مسئلہ قرار دیا، اور سب نے وہی موقف اختیار کیا جو اہلحدیثوں کا ہے، اس سیمینار کی پوری کارروائی اور اس میں پیش کیے جانے والے مقالوں کو بعد میں ایک کتاب بعنوان ”ایک مجلس کی تین طلاق، قرآن وسنت کی روشنی میں “ کی شکل میں شائع کر دیا گیا۔
➑ مشہور بریلوی عالم پیر کرم شاہ از ہری نے ’’ دعوت غور وفکر“ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی، جس میں انہوں نے احناف کو تقلید کے بندھن سے آزاد ہو کر قرآن وسنت کی روشنی میں غور وفکر کرنے کی دعوت دی، اور طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں موقف الحدیث کی پر زور حمایت اور تائید کی۔
مزید تفصیلات کے لئے دیکھئے : صراط مستقیم اور اختلاف امت، مؤلفہ الشیخ ابو الاشبال اور حافظ صلاح الدین یوسف۔
مسئلہ طلاق میں شیعہ کے ساتھ کون ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہلحدیث یا احناف مقلدین ؟
رنگونی صاحب مسئلہ طلاق میں چند اہلحدیث علماء کی تصریحات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
”سو یہ بعض اہحدیث وہ ہیں جو مسئلہ طلاق میں شیعہ کے ساتھ ہیں۔ “ [ص26 ]
اس کی توجیہ رنگونی صاحب کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ اہلحدیث نے اس مسئلے میں اجماع امت کی مخالفت کی ہے، اور شیعہ بھی اجماع امت کی مخالفت کرتے ہیں۔ جبکہ ہم گذشتہ سطور میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ دعوائے اجماع ایک ڈھونگ ہے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد ہر دور میں ہی مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے، اور انصاف پسند مقلدین نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے اور اس کے برعکس یہ مسئلہ اجمائی تو اس وقت تھا جب تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کیا جاتا تھا، یعنی عہد رسالت میں، پھر عہد صدیقی میں، اور پھر عہدہ فاروقی کے ابتدائی دو تین سالوں میں، اس کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تعزیزی حکم جاری کیا تو یہ مسئلہ نزاعی حیثیت اختیار کر گیا، گویا اس کی اجمائی حیثیت کے منکر اہلحدیث نہیں مقلدین ہیں۔ پھر کسی مسئلے میں ائمہ اربعہ کے اتفاق کو اجتماع قرار دینا بھی بہت بڑی غلطی ہے، کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ ان چار ائمہ کے مذاہب میں منحصر نہیں، ان سے باہر بھی ہو سکتا ہے، اور اگر حق کو انہیں چار مذاہب میں منحصر مان لیا جائے تو ان مسلمانوں کے متعلق آپ کیا فرمائیں گے جو ان مذاہب کے معرض وجود میں آنے سے پہلے تھے، جن میں صحابہ کرام و تابعین رضی اللہ عنھم بھی شامل ہیں ؟ کیا ان میں مجتہدیں نہیں تھے ؟ اگر تھے تو ان کے اجتہاد کی کیا حیثیت ہوگی ؟ اور زیر بحث مسئلہ میں جن صحابہ کرام و تابعین رضی اللہ عنہم کا موقف ائمہ اربعہ کے موقف سے ہٹ کر ہے، ان کے متعلق کیا ارشاد ہے، کیا وہ بھی شیعہ کے ساتھ ہیں ؟
اور اگر غور کیا جائے تو اس مسئلے میں اہلحدیث نہیں، احناف مقلدین شیعہ کے ساتھ ہیں، کیونکہ احناف مقلدین ہی ہیں جنہوں نے مسئلہ طلاق کا سہارا لے کر حلالے جیسی لعنت کا دروازہ کھولا ہے، وہ کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ملعون ہے اور اسے کرنے اور اس کا کروانے والا لعنت کا مستحق ہے، اسے احناف مقلدین جائز قرار دیتے ہیں، إنالله وإنا إليه راجعون ، جبکہ دوسری طرف شیعہ کے ہاں متعہ جائز ہے، حلالہ اور متعہ میں وجہ اشتراک کسی سے مخفی نہیں۔
مسئلہ طلاق اور سعودی علماء
طلاق ثلاثہ “ کے مسئلے میں اکثر سعودی علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کر کے اس کے بعد خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہو گا، سو آیئے ان علماء کے فتوے ملاحظہ کریں :
➊ شیخ ابن باز رحمہ اللہ
فتاوى المرأة المسلمة میں شیخ کا تفصیلی فتویٰ موجود ہے، جس کا اردو ترجمہ” فتاوی علامہ عبد العزیز بن باز ص295“ میں یوں کیا گیا ہے :
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی جملہ میں تین طلاق دے دے مثلا یہ کہے کہ : تم کو تین طلاق ہے یا تم کو تین طلاق دے دی گئی، تو جمہور علماء کی رائے ہے کہ تینوں طلاق عورت پر واقع ہو جائے گی اور عورت شوہر کے لئے حرام ہو جائے گی، یہاں تک کہ اپنی مرضی سے ( حلالہ کی غرض سے نہیں )کسی دوسرے آدمی سے شادی کر لے، اور اس سے جماع کرے، اور دوسرا شوہر طلاق دے دے، یا اس کی موت ہو جائے تو پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی، اور اس کی دلیل ان لوگوں نے پیش کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں پر یہی نافذ کیا تھا۔
اور دوسرے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ ایک ہی طلاق ہوگی، اور عورت جب تک عدت میں ہے شوہر اس سے رجوع کر سکتا ہے اور اگر عدت سے نکل گئی تو نکا ح جدید کے ذریعے اس کو حلال بنا سکتا ہے اور دلیل میں صحیح مسلم کی یہ روایت پیش کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں، اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاق ایک طلاق ہوتی تھی “حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ”لوگوں نے ایسے ایک معاملے میں عجلت سے کام کیا جس میں ان کے لئے نرمی تھی، کاش ہم تینوں طلاق کو ان پر نافذ کر دیتے۔“ چنانچہ انہوں نے نافذ کر دیا، مسلم ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ابوصہبانے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : ”کیا عہد رسالت، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی تین سالوں میں تین طلاق ایک طلاق نہیں مانی جاتی تھی ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : ہاں کیوں نہیں۔“
ان کی دوسری دلیل مسند احمد کی روایت ہے جس کی سند جید ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ : ”ابورکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی، اور اس کی وجہ سے ان کو افسوس ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی کو ان کے لئے جائز قرار دیا اور فرمایا کہ یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے۔“
ان لوگوں نے اس حدیث کو اور اس سے پہلے والی حدیث کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ ایک ہی جملہ میں تین طلاق دی گئی تھیں، تا کہ ان دونوں حدیثوں میں اور اس آیت میں کوئی تعارض نہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الطلاق مرتان ” طلاق دو مرتبہ ہے“ [البقره : 229] اور اس آیت سے بھی تعارض نہ رہے کہ : فان طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيرة ”اگر اس نے بیوی کو طلاق دے دی تو اس کے لئے حلال نہیں ہوگی، جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کر لے “ [البقره : 230]
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے (ایک صحیح قول کے مطابق ) اسی کو اختیار کیا ہے، اور ایک دوسری روایت میں ان سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے جمہور کا قول اختیار کیا ہے، اور تین طلاق کو ایک طلاق ماننے والوں میں حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم بھی ہیں۔
محمد بن اسحاق (کتاب المغازی، سیرت نبوی کے پہلے مصنف ) اور تابعین کی ایک جماعت بھی یہی کہتی ہے، اور متقدمین ومتاخرین علماء کی ایک جماعت اسی کی قائل ہے، شیخ الاسلامیہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے اور میں بھی یہی فتوی دیتا ہوں اس لئے کہ اس میں تمام دلائل پر عمل ہو جاتا ہے، اور اس میں مسلمانوں کے ساتھ رحمت و شفقت اور نرمی کا پہلو بھی ہے۔
➋ کبار علماء کی فتوی کمیٹی اور رنگونی صاحب کی خیانت
رنگونی صاحب رقمطراز ہیں :” اور سعودی حکو مت اور سعودی عرب کے ممتاز علماء کرام کا اتفاق ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی ہیں، حکو مت سعودیہ نے علماء حرمین اور ملک کے دوسرے مشہور علماء پر جوتحقیقاتی مجلس قائم کر رکھی ہے، جس کا فیصلہ تمام ملکی عدالتوں میں نافذ رہتا ہے، اس تحقیقاتی مجلس کے سامنے طلاق ثلاثہ کا مسئلہ پیش ہوا جس نے اس مسئلہ سے متعلق قرآن و حدیث کی نصوص کے علادہ تفسیر و شروح احادیث کے مضبوط دلائل اور بحث ومباحثہ کے بعد بالاتفاق فیصلہ دیا کہ ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقیں تین ہی ہیں۔ “ [ص : 25 ]
قارئین کرام ! آپ نے رگونی صاحب کا فرمان ملاحظہ فرمایا، اب اصل حقیقت بھی ملاحظہ کیجئے :
اصل حقیقت یہ ہے کہ سعودیہ کے کبار علماء پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے جب یہ مسئلہ پیش ہوا، اور ان علماء نے اس میں تحقیق کی تو ان میں سے اکثر نے واقعتا وہی موقف اختیار کیا جسے رنگونی صاحب نے ذکر کیا ہے، لیکن ان کا یہ موقف متفقہ نہیں تھا بلکہ اس کمیٹی کے پانچ کبار علماء نے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے الگ فیصلہ لکھا جس کے ابتدائی الفاظنکچھ یوں ہیں :
الحمد لله والصلاة والسلام على رسوله وآله، وبعد : فنرى أن الطلاق الثلاث بلفظ واحد طلقة واحدة
ترجمہ : ”حمد الہی اور درود و سلام کے بعد : ہمارا موقف یہ ہے کہ ایک لفظ سے تین طلاقیں ایک طلاق ہی ہے“ [ أبحاث هيئة كبار العلماء : جاص، 419]
اور الشیخ عبد اللہ البسام اسی حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وخالف من أعضاء المجلس خمسة وهم : الشيخ عبد العزيز بن باز، والشيخ عبد الرزاق عفيفي، والشيخ عبد الله خياط، والشيخ راشد بن حنين، والشيخ محمد بن جبير [توضيح الاحكام من بلوغ المرام ج5، ص21 ]
ترجمہ : ”مجلس کے ارکان میں سے پانچ نے ایک الگ موقف اختیار کیا، اور وہ پانچ یہ ہیں : الشیخ ابن باز، الشیخ عبد الرزاق عفیفی، الشیخ عبد اللہ خیاط، الشیخ راشد بن حنین، الشیخ محمد بن جبیر۔ “
تو اس سے ثابت ہوا کہ ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقوں کو تین شکار کرنے کا جو فتوی سعودیہ کے کبار علماء کی تحقیقاتی کمیٹی کی طرف سے جاری ہوا، اسے ان علماء کا متفقہ فیصلہ قرار دینا جھوٹ اور علمی خیانت ہے، کیونکہ اس کمیٹی کے پانچ کبار علماء نے تین طلاقوں کو ایک طلاق شکار کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا، اور پھر جو فتوی رنگونی صاحب نے نقل کیا ہے خود اس کے اپنے الفاظ توصل المجلس بأكثرية بھی اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں۔
➌ الشیخ عبد اللہ بن عقیل رحمہ اللہ
موصوف سعودی عرب کے مشہور عالم دین عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ کے
سعودی شاگرد ہیں۔ ان سے ان کے استاذ مذکور نے چند سوالات کئے، جن میں سے ایک سوال ’’ طلاق ثلاثہ“ کے متعلق تھا، اس کے جواب میں موصوف رقمطراز ہیں :
وأما سؤالك عن الراجح فى مسألة الطلاق الثلاث لكلمة أو لكلمات فقد تقرر وتكرر أننا نعتقد صحة ما رجحه شيخ الاسلام فيها للوجوه الكثيرة التى بينها الشيخ و ابن القيم [الأجوبة النافعة عن المسائل الواقعة : 93 ]
ترجمہ : ”اور رہا آپ کا یہ سوال کہ ایک لفظ سے یا کئی الفاظ سے تین طلاقوں کے مسئلے میں کیا راجح ہے ؟ تو ہم پہلے بھی کئی بار اظہار کر چکے ہیں کہ ہم کئی وجوہات کی بناء پر اس موقف کو صحیح سمجھتے ہیں جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ترجیح دی ہے اور انہوں نے اور ان کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کے کئی دلائل ذکر کئے ہیں۔“
➍ شیخ عبداللہ بن عبد الرحمٰن بسام رحمہ اللہ
موصوف نے ”بلوغ المرام“ کی شرح اور [توضيح الاحكام ج5ص 18] میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی ہے، سب سے پہلے جمہور علماء کا مذہب اور ان کے دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
ترجمہ :” اور علماء کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ ایک لفظ یا کئی الفاظ سے دی گئی تین طلاقوں سے ایک طلاق ہی واقع ہوگی، اور یہ مذہب کئی صحابہ کرام، تابعین اور اتباع مذاہب سے مروی ہے، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ابوموی الاشعری، ابن عباس، ابن مسعود علی، عبدالرحمن بن عوف اور الز بیر بن العوام رضی اللہ عنہم اس مذہب کے قائل ہیں۔ “
اور تابعین میں سے طاوس، عطاء، جابر بن زید، عبد اللہ بن موسی، محمد بن اسحق رحمہم اللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اکثر شاگردوں نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔
اور اتباع مذاہب میں سے داود اور ان کے شاگرد، امام ابوحنیفہ کے بعض شاگرد، امام مالک کے بعض شاگرد، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بعض شاگرد، اسی طرح المجد عبد السلام بن تیمیہ، اور ان کے پوتے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور پھر ان کے شاگرد جن میں امام ابن القیم سرفہرست ہیں، جنہوں نے زاد المعاد اور إغاثة اللهفان دونوں کتابوں میں اس مسئلے پر طویل بحث کی ہے اور مخالفین کے دلائل کا تسلی بخش جواب دیا ہے۔ “
اس کے بعد شیخ بسام رحمہ اللہ نے جمہور کے دلائل کا جواب دیا ہے، اور وہ جو عمل صحابہ کو دلیل بناتے ہیں، اس کے متعلق لکھتے ہیں :
وأما الاستدلال بعمل الصحابة فمن أولاهم بالاقتداء والاتباع ؟ ونحن نقول إنهم يزيدون عن مائة ألف، وكل هذا الجمع الغفير وأولهم نبيهم صلی اللہ علیہ وسلم يعدون الثلاث واحدة، حتى إذا توفي صلی اللہ علیہ وسلم وهى على ذلك، وجاء خليفته الصديق فاستمرت الحال على ذالك حتى توفي، وخلفه عمر فمضى صدر خلافته والأمر كما هو على عهد النبى صلی اللہ علیہ وسلم وعهد الصديق، بعد ذلك جعلت الثلاث كعددها ثلاثا كما بينا سببه، فصار على أن الثلاث واحدة جمهور الصحابة من قضى نحبه قبل خلافة عمر . . . . . فعلمنا حينئذ أن الاستدلال بعمل الصحابة منقوض بما يشبه إجماعهم فى عهد الصديق على خلافه
ترجمہ : ”اور رہا عمل صحابہ سے استدلال، تو آپ بتائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کون پیروی کا زیادہ حق دار ہے ؟ جب کہ ہم کہتے ہیں کہ ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے تھے، پھر عہد صدیقی میں بھی یہی حال تھا، پھر عہد فاروقی کے ابتدائی سالوں میں بھی ایسا ہی رہا، اس کے بعد تین کو تین شمار کیا جانے لگا، جس کا سبب ہم بیان کر چکے ہیں، تو اس سے ثابت ہوا کہ خلافت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے تک جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین کو ایک تصور کرتے تھے لہٰذا تین کو تین شمار کرتے ہوئے عمل صحابہ کو دلیل بنانا درست نہیں، کیونکہ عہد صدیقی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جس بات پر اجماع تھا وہ اس کے خلاف ہے۔“
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی توجیہ بیان کرتے ہوئے الشیخ البسام رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
ترجمہ :”جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کا تعلق ہے تو ہم ان کے متعلق اور ان کے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا عمل کیا جس کا رسول اللہ کے زمانے میں وجود نہیں تھا، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے جب لوگوں کو دیکھا کہ وہ بکثرت تین طلاقیں اکٹھی دینے لگ گئے ہیں، جو کہ حرام ہے، تو انہوں نے لوگوں کو سبق سکھلانے کے لئے بطور تعزیز تین طلاقوں کو نافذ کر دیا، اور آپ کا یہ عمل اجتہادی تھا، اور اجتہاد اختلاف زمان و مکان کے ساتھ بدلتا رہتا ہے، اس کی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہوتی جو تبدیل نہ ہو سکے، لازم اور نا قابل تبدیل حکم وہی ہے جو کہ ابتداء اس مسئلے میں موجود تھا۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے