ایک رکعت وتر پڑھنے کی صحیح احادیث سے دلیل
ماخوذ : فتاوی علمیہ (توضیح الاحکام)

سوال

ایک وتر کی دلیل

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز وتر کی کم از کم ایک رکعت ہونے کی واضح دلیل موجود ہے، اور اس بارے میں نبی کریم ﷺ کی کئی احادیث وارد ہوئی ہیں جو اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ وتر ایک رکعت بھی ہو سکتی ہے۔

حدیث نمبر 1:

نبی کریم ﷺ کا واضح فرمان ہے:

«الْوِتْرُ رَكْعَةٌ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ»
(صحيح مسلم: 752)

ترجمہ:
"وتر رات کے آخر میں ایک رکعت ہے۔”

یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا جائز ہے۔

حدیث نمبر 2:

ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا:

«صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ، صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى»
(صحيح بخارى : 911، صحيح مسلم: 749)

ترجمہ:
"رات کی نماز دو دو رکعت کر کے ہے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو صبح ہونے کا خدشہ ہو تو وہ ایک رکعت ادا کرے جو اس کی پہلے ادا کی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی۔”

یہ حدیث اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ جب رات کے آخر میں وقت کم ہو یا صبح قریب ہو، تو صرف ایک رکعت وتر کافی ہوتی ہے۔

حدیث نمبر 3:

ایک اور موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

«ان اللّٰه وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ»
(مسلم: 2677)

ترجمہ:
"بے شک اللہ تعالیٰ وتر (ایک) ہے اور وتر کو پسند فرماتا ہے۔”

یہ حدیث اس بات کو بیان کرتی ہے کہ وتر کی اہمیت اللہ تعالیٰ کی صفات میں شامل ہے، اور وہ اسے پسند کرتا ہے، لہٰذا ایک رکعت وتر پڑھنا سنت اور محبوب عمل ہے۔

نتیجہ

مذکورہ بالا تینوں احادیث مبارکہ ایک رکعت وتر پر دلالت کرتی ہیں، اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ ایک وتر پڑھنا نہ صرف جائز بلکہ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1