ایمان کی تعریف
"الایمان تصدیق بالجنان (یعنی دل سے تصدیق)، اقرار باللسان اور عمل بالارکان” یعنی ایمان دل سے تصدیق، زبان سے اقرار اور جسمانی اعضاء کے ساتھ عمل کرنے کا نام ہے۔
سلف صالحین نے ایمان کی اسی تعریف کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: قول و عمل۔ یعنی ایمان دل اور زبان کے قول اور دل اور جسم کے عمل کا نام ہے۔
امام بخاری کا بیان
امام بخاری ایمان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وہو قول و فعل۔ یعنی ایمان دل اور زبان کے قول اور دل اور جسم کے عمل کا نام ہے۔
سلف کی تعریفات میں کوئی تضاد نہیں
ان تمام تعریفات میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا، کیونکہ شریعت میں عمل کا اطلاق قول اور فعل دونوں پر ہوتا ہے۔
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایمان کی تعریف میں سلف کی مختلف تعبیرات کے بارے میں لکھتے ہیں:
"والمقصود ہنا أن من قال من السلف: الایمان قول و عمل، أراد قول القلب واللسان وعمل القلب والجوارح، ومن أراد الاعتقاد رأی أن لفظ القول لا یفہم منہ الا القول الظاہر أو خاف ذلک فزاد الاعتقاد بالقلب، ومن قال: قول و عمل ونیۃ، قال: القول یتناول الاعتقاد وقول اللسان، وأما العمل فقد لا یفہم منہ النیۃ، فزاد ذلک، ومن زاد اتباع السنۃ فلان ذلک کلہ لا یکون محبوبا للہ الا باتباع السنۃ، وأولئک لم یریدوا کل قول و عمل، انما أرادوا ما کان مشروعا من الأقوال والأعمال، ولکن کان مقصودہم الرد علی المرجئۃ الذین جعلوہ قولا فقط، فقالوا: بل قول و عمل۔”
"یعنی جن سلف نے ایمان کو قول و عمل کہا ہے، ان کی قول سے مراد دل و زبان کا قول ہے اور عمل سے دل اور جسم کا عمل مراد ہے۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ قول کا لفظ صرف ظاہری قول کے لیے ہے، انہوں نے دل کے اعتقاد کا اضافہ کیا۔ جنہوں نے ایمان کی تعریف میں قول، عمل اور نیت کا ذکر کیا، ان کے نزدیک قول میں اعتقاد اور ظاہری الفاظ شامل ہیں۔ عمل میں نیت کا ذکر شامل نہیں ہوتا، اس لیے انہوں نے نیت کا اضافہ کیا۔ اتباع سنت کا لفظ شامل کرنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی عمل اتباع سنت کے بغیر قبول نہیں۔ ان سب کا مقصد مرجئہ کے عقیدے کی تردید تھا، جو ایمان کو صرف قول مانتے تھے۔ سلف نے عمل کو بھی اس میں شامل کیا۔”
(مجموع الفتاویٰ: ٧/١٧١)
امام ابو حنیفہ کا موقف
اہل سنت والجماعت کی اس متفقہ تعریف کے برخلاف، امام ابو حنیفہ ایمان کی تعریف سے عمل کو خارج کرتے ہیں۔ جیسا کہ امام وکیع بن الجراح کہتے ہیں:
"ولقد اجترأ أبو حنیفۃ حین قال: الایمان قول بلا عمل۔”
یعنی "ابو حنیفہ نے یہ کہہ کر بڑی جسارت کی ہے کہ ایمان صرف قول کا نام ہے، عمل کا نہیں۔”
(الانتقاء لابن عبد البر: ١٣٨، وسندہ صحیح)
عبدالحق حقانی دیوبندی کا موقف
عبدالحق حقانی دیوبندی ایمان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں: "ایمان فقط تصدیق قلب کا نام ہے۔”
(عقائد الاسلام از عبد الحق حقانی: ١٢٣)
اجماع کی مخالفت کا نتیجہ
جو لوگ ایمان کے مسئلے میں اہل سنت والجماعت کے اجماع کے مخالف ہیں، انہیں سنی کہلانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
ایمان کا لغوی معنی و مفہوم
لفظ "ایمان” عربی زبان کے باب افعال کا مصدر ہے۔ اس کے لغوی معنی کے بارے میں دو مشہور اقوال ہیں:
➊ ایمان کا لغوی معنی: تصدیق
زیادہ تر اہل لغت کے مطابق، ایمان کا لغوی مطلب "تصدیق” ہے۔ وہ اس پر اجماع کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ ازہری فرماتے ہیں:
"اتفق أہل العلم من اللغویۃ وغیرہم أن الایمان معناہ التصدیق”
یعنی، "لغوی اور دیگر اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایمان کا مطلب تصدیق ہے۔”
(تہذیب اللغۃ: 5/513)
ان کے اس موقف کی دلیل قرآنِ مجید کا یہ فرمان ہے:
"(وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ کُنَّا صَادِقِیْن)”
"(یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد سے کہا کہ) آپ ہماری تصدیق کرنے والے نہیں، حالانکہ ہم سچے ہیں۔”
(یوسف: 17)
یہاں ایمان کا مطلب تصدیق ہے۔
➋ سلف صالحین کا نظریہ: ایمان کے لغوی معنی
سلف صالحین کے نزدیک ایمان کا لفظ لغت میں دو مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے:
(الف) "با” کے ساتھ: جب "با” کے ساتھ ہو تو اس کا مطلب تصدیق ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
"(آمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ)”
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں نے اپنے رب کی طرف سے نازل کردہ کلام کی تصدیق کی۔”
(البقرہ: 285)
(ب) "لام” کے ساتھ: جب "لام” کے ساتھ متعدی ہو تو اس کا مطلب بات ماننا ہوتا ہے، جیسا کہ اس آیت میں:
"(وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا)”
(یوسف: 17)
اور
"(فَآمَنَ لَہُ لُوْطٌ)”
(العنکبوت: 26)
ایمان کو صرف تصدیق تک محدود کرنے کا رد
سلف صالحین نے ایمان کو صرف تصدیق تک محدود کرنے کے نظریے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگرچہ ایمان میں تصدیق شامل ہے، لیکن یہ محض تصدیق کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں اقرار اور طمانینت بھی شامل ہیں۔ ان کا استدلال درج ذیل نکات پر مشتمل ہے:
(الف) متعدی ہونا:
لفظ "ایمان” "با” اور "لام” دونوں کے ساتھ متعدی ہوتا ہے، جبکہ لفظ "تصدیق” یا تو خود ہی متعدی ہوتا ہے یا "با” کے ساتھ۔
(ب) معنی کے اجزاء:
ایمان میں امن، تصدیق، اور امانت کے معانی شامل ہیں، جبکہ تصدیق میں امن اور امانت کے معنی نہیں ہوتے۔
(ج) خبرِ غائب کے لیے استعمال:
ایمان کا استعمال صرف خبرِ غائب کے بارے میں ہوتا ہے۔ مثلاً، سورج کے طلوع ہونے کے بارے میں ایمان کا لفظ نہیں بلکہ تصدیق کا لفظ استعمال ہوگا، کیونکہ یہ غائب نہیں رہا۔ اس کے برعکس، "تصدیق” کا لفظ حاضر اور غائب دونوں طرح کے امور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
(د) ایمان کی ضد:
ایمان کی ضد کفر ہے، اور یہ صرف تکذیب پر مشتمل نہیں ہوتی، بلکہ اس میں حقیقت کا علم ہوتے ہوئے بھی مخالفت شامل ہوتی ہے۔ یہ بڑا کفر کہلاتا ہے، جبکہ تصدیق کی ضد صرف تکذیب ہے۔
ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان صرف تصدیق کا نام نہیں بلکہ دیگر اجزاء کو بھی شامل کرتا ہے۔
شریعت کے دو پہلو: خبر اور امر
اللہ تعالیٰ کی کلام اور شریعت دو پہلوؤں پر مشتمل ہے: خبر اور امر۔ خبر کے لیے تصدیق ضروری ہے جبکہ امر کے لیے ظاہری انقیاد یعنی اطاعت ضروری ہے۔ جب خبر کو تصدیق اور امر کو اطاعت کے ساتھ قبول کیا جائے تب اصل ایمان حاصل ہوتا ہے۔ اگر ایمان کو اہل لغت کی طرح صرف تصدیق سمجھا جائے تو ایمان کا ایک جزو مکمل ہوگا، دوسرا باقی رہ جائے گا۔
مثال کے طور پر، ابلیس کا کفر تصدیق نہ کرنے کی وجہ سے نہیں تھا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو سننے کے بعد اس کی تکذیب نہیں کی بلکہ ظاہری طور پر اطاعت سے انکار کیا، جس کی بنا پر وہ کافر قرار پایا۔
ایمان کو صرف تصدیق ماننے کے نقصانات
بعد کے ادوار میں بعض لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ ایمان صرف تصدیق کا نام ہے۔ جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ ابلیس اور فرعون نے اللہ تعالیٰ کی تکذیب نہیں کی یا اگر کی بھی تو صرف زبانی، جبکہ دل سے ان کو حقیقت کا علم تھا، تو یہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ سلف صالحین کی بیان کردہ راہ کو اپناتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ ایمان قول اور عمل دونوں کا مجموعہ ہے، یعنی دل سے اللہ و رسول اور ان کی تعلیمات کی تصدیق، زبان سے اقرار، اور اعضاء کے ساتھ عمل کرنا۔
تصدیق اور انقیاد میں سے اگر کوئی چیز نہ ہو تو ایمان بھی نہیں ہوتا۔ اگر تصدیق تو موجود ہے مگر تکبر یا عناد ظاہری انقیاد میں رکاوٹ بن رہا ہے تو بھی ایمان نہیں ہوگا، جیسے کہ ابلیس کا کفر تکذیبی نہیں بلکہ استکباری تھا۔ اس کے برعکس عیسائیوں کا کفر جہالت کی بنا پر تکذیبی ہے جبکہ یہودی جان بوجھ کر اسلام کی اطاعت سے انکاری ہیں۔ جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودیوں کا ایک گروہ آیا اور سوالات پوچھے، جن کے جواب آپ نے دے دیے۔ وہ کہنے لگے کہ "ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں” لیکن پھر بھی انہوں نے آپ کا اتباع نہ کیا۔
(مسند احمد: 4/239، سنن نسائی: 4083، جامع ترمذی: 2833، 3144 وقال: حسن صحیح، ابن ماجہ: 3705، وسندہ صحیح)
الحاکم نے فرمایا:
"ہذا حدیث صحیح لا نعرف لہ علۃ بوجہ من الوجوہ”
(المستدرک: 1/9)
اور الذہبی نے اس کی موافقت کی۔
یہ ثابت ہوا کہ ایمان کے لیے تصدیق کے ساتھ ساتھ ظاہری اطاعت بھی اعمال کی شکل میں ضروری ہے، ورنہ ابلیس کا کفر کیسے سمجھا جائے گا؟
"ایمان” کا معنی: تصدیق نہیں بلکہ اقرار
اہل لغت نے اس آیت:
"(وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا)”
(یوسف: 17)
میں "ایمان” کا معنی تصدیق قرار دیا ہے، جو صحیح نہیں۔ سلف صالحین نے اس کی تفسیر "اقرار” سے کی ہے اور یہ تفسیر "تصدیق” کی نسبت زیادہ مناسب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب لفظ "ایمان” "لام” کے ساتھ متعدی ہوتا ہے تو یہ اقرار کے معنی میں ہوتا ہے نہ کہ تصدیق کے۔ تصدیق کا مفہوم اس وقت ہوتا ہے جب یہ لفظ خود بخود متعدی ہو یا "با” کے ساتھ متعدی ہو۔
خلاصہ:
یہ مضمون ایمان کے لغوی اور شرعی معنی کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ لغوی اعتبار سے، ایمان کا مطلب تصدیق ہے، لیکن سلف صالحین اور علماء کے مطابق ایمان محض تصدیق تک محدود نہیں بلکہ اس میں دل سے تصدیق، زبان سے اقرار، اور ظاہری اعمال شامل ہیں۔ اللہ کی شریعت میں ایمان کی تکمیل کے لیے خبر کو تصدیق اور امر کو عملی اطاعت کے ذریعے قبول کرنا ضروری ہے۔ محض تصدیق کو کافی سمجھنے کا نظریہ ناقص ہے، جیسا کہ ابلیس کی مثال سے واضح ہوتا ہے، جس کا کفر اطاعت کے انکار کی بنا پر تھا نہ کہ تصدیق کی کمی کی وجہ سے۔ اس لیے ایمان کو جامع طور پر سمجھنا ضروری ہے، جس میں قول و عمل دونوں کا امتزاج ہو۔