ایامِ تشریق کی راتیں منٰی میں گزاری جائیں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں ہے:
ثم رجع إلى منى فمكث بها ليالي أيام التشريق يرمى الحمرة إذا زالت الشمس
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منٰی کی طرف لوٹے تو ایام تشریق کی راتیں وہیں ٹھہرے۔ (اس دوران ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھل جاتا تو جمروں کو کنکریاں مارتے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1736 ، كتاب المناسك: باب فى رمى الجمار ، ابو داود: 1973 ، أحمد: 90/6 ، ابن خزيمة: 311/4 ، ابن حبان: 1013 – الموارد ، أبو يعلى: 187/8 ، شرح معاني الآثار: 220/2 ، ابن الجارود: 492 ، حاكم: 477/1 ، بيهقي: 148/5]
(جمہور ) منٰی میں ایام تشریق کی راتیں گزارنا واجب ہے۔
[نيل الأوطار: 437/3]
ان کی دلیل گذشتہ حدیث (یعنی یہ عمل مناسک حج میں سے ہے اور مناسک حج پر عمل واجب ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
خذوا عن مناسككم
اور مندرجہ ذیل احادیث ہیں:
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منٰی کی راتیں مکہ میں گزارنے کی اجازت طلب کی تا کہ وہ آبِ زم زم پلا سکیں:
فأذن له
”تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی ۔“
[بخاري: 1634 ، كتاب الحج: باب سقاية الحاج ، مسلم: 1315 ، ابو داود: 1959 ، دارمي: 75/2 ، نسائي فى الكبرى: 4177 ، أحمد: 19/2 ، بيهقي: 153/5 ، شرح السنة: 135/4]
معلوم ہوا کہ بغیر کسی عذر کے ایام تشریق کی راتیں منٰی میں گزارنا ضروری ہے اسی لیے انہوں نے اجازت طلب کی۔
➋ حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أرخص لرعاة الإبل فى البيتـوتـه عن مني
”رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اونٹوں کے چرواہوں کو منٰی سے باہر رات گزارنے کی اجازت دے دی۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1738 ، كتاب المناسك: باب فى رمى الجمار ، ابو داود: 1975 ، مؤطا: 408/1 ، أحمد: 450 ، ترمذي: 955 ، نسائي: 273/5 ، ابن ماجة: 3037 ، ابن خزيمة: 2975 ، ابن الجارود: 478 ، حاكم: 478/1 ، بيهقي: 150/5]
اس حدیث میں جمہور کا مستدل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عذر کی بنا پر رخصت دی اور رخصت کا متضاد عزیمت ہے یعنی بغیر کسی عذر کے منٰی میں راتیں گزارنا ضروری ہے۔
(البانیؒ) وجوب کا قول ہی برحق ہے۔
[التعليقات الرضية على الروضة: 106/2]
منٰی میں تین راتیں قیام کرنا اور جمرات کو کنکریاں مارتے رہنا افضل ہے لیکن اگر کوئی دو دن قیام کے بعد واپس لوٹ آئے تو اس کی بھی اجازت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَاذْكُرُوا اللهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ [البقرة: 203]
”ان گنتی کے چند دنوں (یعنی ایام تشریق) میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو اور دو دن کی جلدی کرنے والے پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ “