اہل جاہلیت کے بعض مسائل
تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

عبادت میں اضافہ کرنا

یعنی جو احکامات ان کو دیئے گئے اس میں اپنی طرف سے اضافہ کر کے من مانی عمل کرنا، جیسے عاشورا کے دن کے ان کے اعمال۔

عبادت میں گھٹانا

احکامات الہی میں کمی کرنا بھی اہل جاہلیت کی عادت رہی ہے، جیسے حج کے موقع پر عرفات میں وقوف نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ [2-البقرة:199]
پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو۔
یعنی عرفات سے لوٹو، مزدلفہ سے نہیں۔ یہ خطاب سب کے لیے عام ہے اور اہل جاہلیت کے اس عمل کو اس آیت سے باطل کیا گیا کہ عرفات کی بجائے مزدلفہ سے لوٹا جائے جیسا کہ قریش کے اشراف کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش اور ان کے طریقے پر چلنے والے لوگ مزدلفہ ہی میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے ہم لوگ حمس ہیں، ان کے علاوہ بقیہ عرب سب عرفات میں وقوف کرتے تھے۔ اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ عرفات میں آ کر وہیں وقوف فرمائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وہاں سے لوٹو جہاں سے سب لوگ لوٹے یعنی عام حجاج کرام خواہ وہ کہیں کے ہو اور کوئی ہوں سب کو حکم ہے کہ مزدلفہ سے نہیں عرفات میں وقوف کر کے لوٹو۔

پاکیزہ روزی ترک کر کے عبادت کرنا

اہل جاہلیت کی بندگی کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ حلال و مباح پاکیزہ چیزوں کا استعمال نہیں کرتے تھے اور زینت الہیٰ کو ترک کرنا بندگی سمجھتے تھے، جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے :
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
[7-الأعراف:31]
”اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنے تئیں مزّین کیا کرو اور کھاؤ اور پیؤ اور بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ پوچھو تو کہ جو زینت (وآرائش) اور کھانے (پینے) کی پاکیزہ چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں ان کو حرام کس نے کیا ہے؟ کہہ دو کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن خاص ان ہی کا حصہ ہوں گی۔ اسی طرح خدا اپنی آیتیں سمجھنے والوں کے لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے۔ “
اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ عرب کے کچھ لوگ بیت اللہ کا طواف بلکل ننگے ہو کر کرتے تھے، عورت ننگی ہی ہو کر طواف کرتی تھی صرف نچلے حصے پر ایک پٹی لٹکا لیتی تھی جیسے گدہوں کے منہ پر مکھی سے بچنے کے لیے لگائی جاتی ہے، ساتھ ہی یہ شعر پڑھتی،
اليوم يبدوابعضه اوكله … وما بد امنه فلا احله
آج جسم کا کچھ یا پورا حصہ کھلے گا . . . اور جو کھلے گا اس کو حلال نہیں کروں گی
اس کی بابت اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا، کلبی کا بیان ہے کہ اہل جاہلیت بقدر کفاف ہی کھاتے تھے اور ایام حج میں چربی بھی استعمال نہیں کرتے تھے ایسا کر کے وہ حج کی عظمت کو ظاہر کرتے تھے، یہ دیکھ کر مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ایسا تو ہمیں کرنا چاہیے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم فرمایا کہ كلو واشربو ”کھاؤ اور پئیو“ لیکن ولا تسرفو ”زیادتی مت کرو“ یعنی حلال کو حرام مت کرو، اور نہ حلال چھوڑ کر حرام استعمال کرو۔ نیز عمدہ کپڑوں کے استعمال اور کھانے پینے اور دیگر مباح لذت کی چیزوں سے کس نے منع کیا ہے، یہ تو سب دنیا میں اصلاً اہل ایمان کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو ان چیزوں میں ان کا کوئی شریک ہی نہ ہو گا۔

سیٹی اور تالی بجا کر عبادت کرنا

سیٹی اور تالی بجا کر عبادت کرنے کی رسم اہل جاہلیت میں عام تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمَا كَانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ
”اور بیت اللہ کے پاس ان کی نماز صرف سیٹی بجانا اور تالیاں پیٹنا تھیں، سو تم اپنے کفر کا عذاب چکھو۔“
آیت میں عِنْدَ الْبَيْتِ سے مراد صرف بیت اللہ نہیں پوری مسجد الحرام ہے، جس کی تعظیم سب کے لئے ضروری ہے، لیکن اہل جاہلیت نے اس کو بھی مذاق بنا رکھا تھا، ان کی نماز کیا تھی بس ہو، ہا اور بے معنی شور و شغب اسی کو قرآن نے سیٹی بجانے اور تالی پیٹنے سے تعبیر کیا ہے، ایک مطلب یہ بھی لیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھنا چاہتے تو یہ اشرار آ کر تالی پیٹتے اور سیٹی بجا کر خلل ڈالتے اور کہتے کہ ہم تو اپنی نماز پڑھ رہے ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اہل جاہلیت عورت مرد سب مل کر ننگے طواف کرتے اور مٹھیاں باندھ کر سیٹی بجاتے اور تالی پیٹتے۔
مطلب یہ کہ یہ سب اعمال عبادت نہیں بلکہ جاہلیت کا شعار ہیں۔ آج بھی کچھ جاہل مساجد میں اسی طرح سیٹی بجاتے اور تالی پیٹتے ہیں اور اسی کو عبادت سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ سب جاہلیت کی یادگار ہیں، کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
اقال الله صفق لي وعن … وقل كفرا وسم الفر ذكرا
کیا اللہ نے تالی پیٹنے اور گانے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ کفر بکو اور اس کو ذکر کہو
حالانکہ اللہ نے موسیقی کی آواز کو شیطان کی آواز کہا ہے، فرمایا :
وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا [ 17-الإسراء:64]
”اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیاروں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے۔ “

عقیدہ میں نفاق رکھنا

اہل جاہلیت کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ مومنوں کے پاس جاتے تو خود کو مومن کہتے ان کے پاس سے نکل آتے تو پھر پہلے جیسے کاففر ہو جاتے۔

بغیر علم کے لوگوں کو ضلالت کی طرف بلانا

اہل جاہلیت کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ علم کے بغیر لوگوں کو ضلالت کی طرف بلاتے تھے۔

جان بوجھ کر کفر کی دعوت دینا

اہل جاہلیت جان بوجھ کر لوگوں کو کفر کی دعوت دیا کرتے تھے۔

بڑی سازش کرنا

مسلمانوں کے خلاف بڑی سازش کرنا بھی اہل جاہلیت کی ایک عادت تھی جیسے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی بابت اللہ نے فرمایا :
وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا ٭ وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ٭ وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا [71-نوح:22]
”اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے۔ اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعقوب اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا۔ (پروردگار) انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے۔ تو تُو ان کو اور گمراہ کردے۔ “
ان کی یہ ساری تدابیریں اور چالیں صرف اس لئے تھیں کہ دین میں حیلہ بازی کریں اور بندگان خدا کو راہ حق سے روکیں اور حضرت نوح علیہ السلام کی اذیت رسانی کے لیے لوگوں کو اکسائیں جیسا کہ آج بھی نفس پرست حق کے دشمن، داعیان حق کے ساتھ قوم نوح جیسا سلوک کر رہے ہیں۔ ان سب کے دل ایک جیسے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد کرنے والے حق پرستوں کو ان سرکش ظالم بدکاروں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین
وقد جربتهم فرايت منهم … خبائث بالهيمن نستجير
میں نے ان کو آزمایا تو ان کو بھی ویسا ہی خبیث پایا، ان سے اللہ کی پناہ

جاہلی علماء کا حال

جاہلی علماء کا یہ حال تھا کہ کچھ تو ان میں بدکار علماء تھے اور کچھ جاھل عابد، ا اللہ تعالی نے ان کی بابت فرمایا :
أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ٭ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ٭ أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ٭ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ ٭ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ
”(مومنو) کیا تم امید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے (دین کے) قائل ہو جائیں گے، (حالانکہ) ان میں سے کچھ لوگ کلامِ خدا (یعنی تورات) کو سنتے، پھر اس کے سمجھ لینے کے بعد اس کو جان بوجھ کر بدل دیتے رہے ہیں۔ اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم ایمان لے آئے ہیں۔ اور جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں، جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے، وہ تم ان کو اس لیے بتائے دیتے ہو کہ (قیامت کے دن) اسی کے حوالے سے تمہارے پروردگار کے سامنے تم کو الزام دیں۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟ کیا یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، خدا کو (سب) معلوم ہے۔ اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے باطل خیالات کے سوا (خدا کی) کتاب سے واقف ہی نہیں اور وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں۔ تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو اپنے ہاتھ سے تو کتاب لکھتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے (آئی) ہے، تاکہ اس کے عوض تھوڑی سے قیمت (یعنی دنیوی منفعت) حاصل کریں۔ ان پر افسوس ہے، اس لیے کہ (بےاصل باتیں) اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور (پھر) ان پر افسوس ہے، اس لیے کہ ایسے کام کرتے ہیں۔ “ [2-البقرة:75]
اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہودی علماء کا ایک گروہ تورات سن کر اس میں اپنی من مانی تاویلات کر دیا کرتے تھے بلکہ تورات میں اپنا کلام شامل کر کے اس کو بدل دیا کرتے تھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کے بارے میں انہوں نے کیا کہ تورات میں آپ کا خلیہ ”گورا میانہ قد“ لکھا تھا اس کو بدل کر ”گندمی لمبا قد“ کر ڈالا اور جیسا کہ بخاری میں ہے کہ رجم کی آیت کو تسوید الوجہ سے بدل ڈالا۔ ایک گروہ ان کا ایسا بھی تھا جو صرف جھوٹے دعوے اور من گھڑت آرزوؤں ہی کا پروپیگنڈا کیا کرتا تھا
حاصل کلام یہ کہ کلام الہیٰ میں تحریف اور نفس کی اتباع اور اپنی گھڑی ہوئی باتوں کو اللہ کی طرف منسوب کر کے مطلب نکالنا یہ اہل جاہلیت کی خاص عادت تھی اور بالکل یہی حال آج کل کے علماء سوء اور اہل بدعت اور نفس پرستوں کا بھی ہے جو کتاب الٰہی میں من مانی تاویلات کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔

اولیاء اللہ ہونے کا دعوی

یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اللہ کے بڑے دوست ہیں کسی اور کو یہ فضیلت نہیں اللہ تعالیٰ نے مختلف آیات میں ان کے اس دعوے کی حقیقت کا پول کھولا ہے فرمایا :
قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّـهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ٭ وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ٭ قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ [62-الجمعة:6]
”کہہ دو کہ اے یہود اگر تم کو دعویٰ ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں تو اگر تم سچے ہو تو (ذرا) موت کی آرزو تو کرو۔ اور یہ ان (اعمال) کے سبب جو کرچکے ہیں ہرگز اس کی آرزو نہیں کریں گے۔ اور خدا ظالموں سے خوب واقف ہے۔ کہہ دو کہ موت جس سے تم گریز کرتے ہو وہ تو تمہارے سامنے آ کر رہے گی۔ پھر تم پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے (خدا) کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تمہیں بتائے گا۔ “
یہودیوں کے اس جھوٹے دعوے ولایت کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ ان سے بار بار کہو کہ اگر واقعی تم اللہ کے ولی ہو تو اس گندی اور غم و فکر سے بھری دنیا میں رہنا کیوں پسند کرتے ہو، کیوں نہیں موت کے تمنا، کرتے کہ اللہ تمہیں یہاں سے چھٹکارا دے کر اپنے پاس بلا لے۔ بقول تمہارے نحن ابناء الله واحباؤه ہم اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں، اور یہ کہ آخرت کا سارا انعام بس تمہارے ہی لئے مخصوص ہے کیونکہ تمہارا دعویٰ ہے۔ لن يدخل الجنة الا من كان هودا جنت میں صرف وہی داخل ہو گا جو یہودی ہو گا اور جیسا کہ اہل کتاب کے دونوں گروہ یہود و نصاریٰ کی بابت فرمایا :
وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ٭ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ [2-البقرة:111]
”اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی بہشت میں نہیں جانے کا۔ یہ ان لوگوں کے خیالاتِ باطل ہیں۔ (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔ ہاں جو شخص خدا کے آگے گردن جھکا دے، (یعنی ایمان لے آئے) اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس کا صلہ اس کے پروردگار کے پاس ہے اور ایسے لوگوں کو (قیامت کے دن) نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ظہور ہوا تو مدینہ کے یہودیوں نے خیبر کے یہودیوں کو لکھا کہ اگر تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کرو گے تو ہم بھی کریں گے، تم لوگ انکار کرو گے تو ہم بھی انکار کریں گے اس کا جواب خیبر کے یہودیوں نے یہ دیا کہ ہم تو اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں اللہ کے بیٹے عزیر اور دوسرے انبیاء بنی اسرائیل میں سے تھے۔ نبوت عربوں میں آخر رہی کب ؟ اس لئے نبوت کے حقدار ہم ہیں نہ کہ محمد اس لئے ان کی پیروی کرنے کا سوال ہی نہیں اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولا يتمنونه ابدا یہ یہودی کبھی بھی موت کی تمنا نہیں کریں گے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا : ”بخدا تم میں سے جس نے بھی موت کی تمنا کی وہ فوراً موت کے گھاٹ اتر جائے گا “ یہ سن کر کسی نے بھی موت کی تمنا نہیں کی کیونکہ ان کو آپ کی صداقت پر پکا یقین تھا، وہ خوب جانتے تھے کہ آپ کے اس کہنے کے بعد ہم نے موت کی تمنا کی تو ضرور اس وعید کے مطابق مر جائیں گے، غور فرمائیے یہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا بما قدمت ايديهم یعنی ان یہودیوں کو اپنے ماضی کے سیاہ اعمال کا اتنا خوف تھا کہ موت کے نام سے گھبراتے تھے۔ اللہ نے یہاں اعمال کے لئے يد یعنی ”ہاتھ“ کا لفظ استعمال فرمایا کیونکہ ہاتھ انسان کے اعمال اور طاقت دونوں کا ہی مظہر ہے والله عليم بالظلمين یعنی اللہ تعالیٰ ان کی جھوٹی بکواس اور ہر قسم کے مظالم معارصی کو جو یہ کر چکے اور جو آئندہ کرنے والے ہیں سب کو خوب جانتا ہے لہٰذا ان کی سزا بھی ان کو ضرور دے گا۔ قل ان الموت الذى تفرون منه کہو جس موت کے تصور اور تمنا سے تم بھاگ رہے ہو کہ کہیں اس کے ذریعے اپنے اعمال بد کی سزا نہ پاؤ فانه ملاتيكم وہ موت تم کو ضرور پکڑ لے گی کوئی نہ اس کو ٹال سکتا نہ تم اس سے بھاگ سکتے، ثم تردون اليٰ عام الغيب والشهادة پھر تم مارے جانے کے بعد اس ہستی کے پاس لے جائے جاؤ گے جو غیب اور حاضر سب چیز کا جاننے والا ہے، اس کے سامنے کوئی چیز چھپی نہیں، فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ یعنی تمہارے کفر و معاصی کی بھرپور سزا تم کو دے گا اور ملحدین اور خر دماغ لوگوں کا یہی حال ہے جیساکہ اللہ تعالی نے یہود کی بابت فرمایا :
نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ [ 5-المائدة:18 ]
”اور یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں کہو کہ پھر وہ تمہاری بداعمالیوں کے سبب تمھیں عذاب کیوں دیتا ہے (نہیں) بلکہ تم اس کی مخلوقات میں (دوسروں کی طرح کے) انسان ہو۔ “
ڈینگ مارنے کی یہ خصلت ملت اسلامیہ کے اکثر فرقوں میں پائی جاتی ہے بلکہ سب ہی یہودیوں کی طرح نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ کے دعویدار ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ نجات پانے والا فرقہ صرف وہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلے گا۔

شریعت کی پابندی کے بغیر محبت الہیٰ کا دعویٰ کرنا

اہل کتاب ایک طرف تو شریعت الہٰی کو پامال کرتے تھے اور ساتھ ہی اللہ کی محبت کا دعویٰ بھی کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان سے مطالبہ کیا :
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ [3-آل عمران:31]
”(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔ “
حسن اور ابن جریج کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں اس موقع پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام میں قریش کے پاس تشریف لے گئے دیکھا کہ انہوں نے اپنے بت کھڑے کر رکھے ہیں اور ان پر شترمرغ کے انڈے لٹکا رکھے ہیں اور کانوں میں لمبی لمبی بالیاں اور وہ ان کو سجدہ کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اہل قریش تم اپنے باپ حضرت ابراہیم اور اسمٰعیل کی ملت کے خلاف کام کر رہے ہو وہ تو اسلام پر قائم تھے، انہوں نے جواب دیا، محمد ! ہم ان کو محض اللہ کی محبت میں پوج رہے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر یہ آیت نازل فرمائی۔ دوسری روایات میں یہی مضمون نصاریٰ کے بارے میں بھی ہے کہ جب انہوں نے کہا کہ ہم حضرت مسیح کی تعظیم محض اللہ کی حجت کی خاطر کر رہے ہیں تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی، الغرض جو شخص معاصی میں مبتلا ہو اس کو زیب نہیں دیتا کہ اللہ کی محبت کا دعویٰ کرے، کسی نے کتنی اچھی بات کہی،
تعصي الاله وانت تظهر حبه … هذا لعمري فى القياس بديع
اللہ کی نافرمانی کرتے ہو اور ساتھ ہی اس کی محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہو بخدا یہ عجیب و غریب قیاس ہے۔
لو كان حبك صادقا لاطعته … ان المحب لمن يحب مطيع
اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم اس کی اطاعت کرتے، محبت کرنے والا اپنے محبوب کی اطاعت کرتا ہے۔

اللہ سے جھوٹی امیدیں باندھنا

اہل جاہلیت اپنی بداعمالیوں اور بداعتقادوں کے باوجود اس حسن ظن میں مبتلا تھے کہ وہ اللہ کے نزدیک بڑے محبوب ہیں اور جہنم سے محفوظ ہیں، اگر داخل بھی کیے گئے تو بس برائے نام چند دنوں کے لیے۔ ان کی اس خوش فہمی کی تردید اللہ نے ان آیتوں میں نازل فرمائی ہے :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّـهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ ٭ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ [3-آل عمران:23]
”بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب (خدا یعنی تورات سے) بہرہ دیا گیا اور وہ (اس) کتاب الله کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ (ان کے تنازعات کا) ان میں فیصلہ کر دے تو ایک فریق ان میں سے کج ادائی کے ساتھ منہ پھیر لیتا ہے۔ یہ اس لیے کہ یہ اس بات کے قائل ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی اور جو کچھ یہ دین کے بارے میں بہتان باندھتے رہے ہیں اس نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ “
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان کے بیت المدارس میں تشریف لے گئے اور انہیں دین الہیٰ قبول کرنے کی دعوت دی اس پر نعمان بن عمرو اور حارث بن زید نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، محمد ! آپ کا دین کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں ابراہیم اور ان کی ملت پر ہوں، ان دونوں نے کہا، لیکن ابراہیم تو یہودی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایسا ہے تو تورات لاؤ اسی سے فیصلہ ہو جائے گا کہ ہم میں سے کون ملت ابراہیمی پر ہے۔ اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔
دوسری روایت ”البحر“ میں ہے کہ ایک یہودی نے کسی عورت کے ساتھ زنا کیا، اس وقت تک اسلام میں رجم کا قانون نازل نہیں ہوا تھا یہودیوں نے اس مسئلے کو فیصلے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیش کیا تاکہ مذکورہ مرد و عورت کی شرافت کا خیال کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ میں رعایت کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تمہاری کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا، انہوں نے تورات میں رجم کے حکم کی موجودگی سے انکار کیا تو تورات لائی گئی، لیکن جرہم بن صوریا نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ کر اسے چھپا لیا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہا نے فرمایا : یا رسول اللہ ! آپ ہاتھ آگے بڑھوائیں، چنانچہ آیت نظر آ گئی اور دونوں اس کے مطابق رجم کر دیئے گئے جس پر یہودی بہت ناراض ہوئے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
اور آیت ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ہمیں نار جہنم صرف چند دن ہی چھو سکے گی بس اسی خوش فہمی میں مبتلا ہو کر وہ کتاب الہیٰ سے اعراض کرتے اور کھلم کھلا معاصی کا ارتکاب کرتے تھے أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ چند دنوں سے مراد ان کے وہ دن تھے جن میں انہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ان کی افتراء پردازیوں نے ان کو دین کے بارے میں فریب میں ڈال رکھا ہے ان کی من گھڑت باتوں میں ایک تو ان کا جھوٹ تھا، دوسرے یہ خیال کہ ”ہم کو نار جہنم نہیں چھوئے گی“ تیسرے یہ کہ ”ہم اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں“ چوتھے یہ کہ ”ہمارے آباؤ اجداد انبیاء تھے وہ ہماری سفارش کر دیں گے“ پانچویں یہ کہ ”اللہ نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی اولاد کو بس قسم پوری کرنے کے لیے برائے نام ہی عذاب دے گا۔ “
اللہ تعالیٰ نے ان کی ان سب باتوں کا جواب یہ فرما کر دے دیا :
فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ [3-آل عمران:25]
”تو اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ان کو جمع کریں گے (یعنی) اس روز جس (کے آنے) میں کچھ بھی شک نہیں اور ہر نفس اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ “
مروی ہے کہ اہل حشر کے لئے کفار کے جھنڈوں میں سے پہلا جھنڈا یہود کا اٹھایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ سب کے سامنے یہودیوں کو رسوا کرے گا، اور انہیں داخل جہنم کرے گا۔
موجودہ دور میں بہت سے لوگ انہیں جھوٹی آرزؤں میں مبتلا ہو کر معاصی اور منکرات کا ارتکاب کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کی شفاعت کر دی جائے گی یا وہ حسب و نسب میں بہت برتر ہیں اس لئے عذاب سے بچ جائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ
سورہ بقرہ میں اللہ نے ایسے ہی لوگوں کی بابت فرمایا ہے :
وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّـهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّـهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ٭ بَلَى مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [2-البقرة:80]
”اور کہتے ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی۔ ان سے پوچھو، کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے کہ خدا اپنے اقرار کے خلاف نہیں کرے گا۔ (نہیں)، بلکہ تم خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں مطلق علم نہیں۔ ہاں جو برے کام کرے، اور اس کے گناہ (ہر طرف سے) گھیر لیں تو ایسے لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں (اور) وہ ہمیشہ اس میں (جلتے) رہیں گے۔ “

صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانا

اہل جاہلیت اپنے انبیاء اور صلحاء کی قبروں پر سجدہ کرتے تھے اور ان کو مسجد کی طرح سجدہ گاہ سمجھتے تھے، ایام جاہلیت میں اہل جاہلیت میں اہل کتاب یہود و نصاریٰ کا خاص معمول تھا، اسی کے بارے میں حدیث صحیح ہے :
لعن الله اليهود والنصريٰ اتخذوا قبورا انبيائهم مساجد
اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔
اور صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قاتل الله اليهود والنصاريٰ اتخذوا قبورا انبيائهم مساجد
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو ہلاک کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔
اور مسلم میں اس طرح ہے :
لعن الله اليهود والنصاريٰ اتخذوا قبورانبيائهم مساجد
اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔
صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہوئی تو اپنے چہرے پر سے چادر کھول کر پھینکنے لگے، جب ہوش آیا تو چہرہ کھول کر آپ نے اسی حالت میں فرمایا :
لعن الله اليهود والنصريٰ اتخذوا قبورانبيائهم مساجد
اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔
آپ ان کے اس فعل لعنت سے بچنے کی تاکید فرما رہے تھے۔
صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت ام سلمہ اور ام حبیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کنیسہ کا ذکر کیا جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا تھا جسے ”ماریہ کا کنیسہ“ کہا جاتا تھا، انہوں نے اس کنیسہ کی خوبصورتی اور اس میں رکھی ہوئی تصاویر کی تعریف کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أُولَئِكَ إذَا مَاتَ فِيهِمْ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا , ثُمَّ صَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّورَة، أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ
”یہ ایسے لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی مر جاتا تھا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے تھے اور اس میں یہ تصویریں بھی لگاتے تھے، یہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین لوگ ہیں۔“
اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم زائرات القبور، والمتخذين عليها المساجد والسرج
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں پر مسجد اور چراغ بنانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔
یہ ساری تنبیہ و ممانعت بزرگوں کی قبروں پر اہل کتاب کی مشابہت کرتے ہوئے مسجدوں کا بنانا، یہودیوں کی مشابہت اختیار کرنے سے ممانعت کی صریح دلیل ہے۔ نیز یہودیوں کے تمام اعمال سے بھی بچنے کی اس میں دلیل ہے کیونکہ ان کے تمام اعمال اسی قسم کے ہیں۔
اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آج یہودیوں کی دیکھا دیکھی کتنے مسلمان بزرگوں کی قبروں کو ان پر عمارت بنا کر سجدہ گاہ بنائے ہوئے اور کتنے بغیر عمارت بنائے ہی سجدہ کر رہے ہیں۔ اور یہ دونوں ہی فعل حرام اور ان کا کرنے والا ملعون ہے، جیسا کہ ان احادیث میں صراحت سے مذکور ہوا اور اس مضمون کی تمام احادیث و آثار کو جمع کرنے کا یہ موقع نہیں۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر ہی اسلاف کرام اس سے منع کرنے میں مبالغہ اور تاکید سے کام لیتے تھے۔

انبیاء کی یادگاروں کو سجدہ گاہ بنانا

اہل جاہلیت انبیاء کرام کی یادگاروں پر مسجدیں بنا لیا کرتے تھے، ان کی بدعات میں سے ایک بدعت یہ بھی تھی جس کی نقل اس امت کے جاہلیت پرستوں نے کی، چنانچہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذرا پردہ بھی کیا ہے یا جہاں آپ نے پائے مبارک رکھا، یا وہاں عبادت کی، وہاں وہاں انہوں نے عمارت بنا ڈالی۔ شریعت محمدیہ میں یہ بات انتہائی مذموم ہے کیونکہ اس سے شخصیت پرستی کا غلو پیدا ہوتا ہے، عراق میں کتنی جگہوں پر لوگوں نے عمارتیں بنا رکھی ہیں مثلاً جہاں معلوم ہوا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی نے عبادت کی ہے، یا وہ پتھر جس پر ہتھیلی کا نشان ہے اس کو شیعوں نے سمجھ لیا کہ یہ حضرت علی کے ہاتھ کا نشان ہے، وہاں انہوں نے مسجد بنا ڈالی، کتنی عمارتیں اس خیال سے بنائی گئیں کہ یہاں حضرت خضر نظر آتے تھے، حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
مسلمانوں کا فرض ہے کہ طعن و ملامت کا خوف کیے بغیر ایسی جگہوں کی زیارت سے بچیں اور دوسروں کو بھی منع کریں۔ اس مسئلے میں بڑی تفصیلات ہیں جن کے ذکر کی ضرورت نہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ انبیاء و صالحین کے یہ مقامات جہاں انہوں نے قیام کیا یا عبادت کی، لیکن ان کو مسجد نہیں بنایا تھا، اس بارے میں مشہور علماء کے دو اقوال کا مجھے علم ہے، پہلا قول یہ ہے کہ ان سے منع کیا جائے اور ان کو مکروہ سمجھا جائے اور عبادت کے لیے کسی خاص جگہ جانے کا ارادہ کرنا مستحب نہیں ہاں اگر وہاں جانا شرعاً ثابت ہو تو حرج نہیں، مثلاً یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ بطور خاص عبادت کی ہے۔ جیسے مقام ابراہیم پر نماز پڑھنا، یا جیسے آپ قصد کر کے استوانہ کے پاس نماز پڑھتے تھے یا وہ مساجد جہاں نماز کے ارادے سے جانا جائز ہے، یا پہلی صف میں شامل ہونے کی کوشش کرنا وغیرہ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ غیر اہم اور معمولی حالات میں اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں حضرت عبداللہ بن عمر ان جگہوں کو تلاش کرتے تھے جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا قصد و ارادہ گزرے تھے (لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل اس کے بالکل برعکس تھا اور وہ سختی سے منع کرتے تھے)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ آثار و مشاہد پر کسی کا جانا کیسا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ابن ام مکتوم کی اس حدیث کی روشنی میں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں کہیں نماز پڑھ دیں تاکہ وہ اس جگہ کو مصلیٰ بنا لیں یا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان مقامات کو تلاش کیا کرتے تھے جن پر سے آپ گزرے تھے۔ تو ان احادیث کی روشنی میں آ کر کوئی ان آثار و مشاہد پر جاتا ہو تو کچھ حرج نہیں لیکن لوگوں نے اس رخصت کی آڑ لے کر بڑا مبالغہ اور شدت اختیار کر لیا ہے۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل سے احمد بن قاسم نے بھی روایت کی ہے کہ آپ سے یہی سوال کیا گیا تو فرمایا کہ ان دونوں مذکورہ حدیثوں کے پیش نظر جس میں یہ بھی ہے کہ ابن عمر کو ایک جگہ پانی بہاتے ہوئے دیکھا گیا، پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں پانی بہاتے دیکھا تھا بس یہی سوچ کر میں بھی پانی بہا رہا ہوں، تو اگر کوئی شخص ایسا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
لیکن اس بارے میں لوگوں نے بڑی بداحتیاطی سے کام لیا ہے اور اس کو بڑھا چڑھا دیا ہے، اس سلسلے میں آپ نے لوگوں کے حضرت حسین کی قبر کے ساتھ سلوک کا ذکر کیا،الخلال نے کتاب الادب میں اس کی روایت کی ہے کہ ابوعبداللہ امام احمد نے مشاہد کے بارے میں تفصیل سے ذکر کیا ہے، مشاہد سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں انبیاء اور صالحین کے آثار پائے جاتے ہیں خواہ وہاں ان کی مساجد ہی نہ رہی ہوں جیسے مدینہ کے وہ چند مقامات جہاں میلہ اور اجتماع وغیرہ نہیں ہوتا . یا اکثر وہ مقامات جن کو لوگوں نے اجتماع گاہ بنا رکھا ہے اس تفصیلی بیان میں آثار اور اقوال صحابہ سب اکٹھا ہیں، جیسا کہ بخاری نے اپنی صحیح میں موسیٰ بن عقبہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے سالم بن عبداللہ کو دیکھا جو ان راستوں کو ڈھونڈتے اور ان میں نماز پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی یہاں نماز پڑھتے تھے۔
اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان جگہوں پر نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ تو ہوا امام احمد کے نزدیک اس مسئلے میں رخصت کا ذکر اور رہی کراہیت تو اس بارے میں سعید بن منصور نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے کہ ہم سے ابو معاویہ نے اور ان سے اعمش نے معرور بن سوید کی یہ روایت حضرت عمر کے واسطے سے بیان کی کہ ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک حج کے لئے نکلے چنانچہ فجر کی نماز میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رکعت میں الم تركيف فعل ربك باصحاب الفيل اور دوسری میں لايلف قريش تلاوت کی اور جب ہم حج سے واپس ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک جگہ لوگ مسجد میں بھاگے جا رہے ہیں، پوچھا یہ کیا ؟ لوگوں نے کہا اس مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی، اس پر آپ نے فرمایا : تم سے پہلے اہل کتاب اسی طرح تباہ ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے آثار کو کنیسہ بنا لیا، جس کے لئے نماز پڑھنا ضروری ہو وہ تو یہاں پڑھ لے، جسے ضروری نہ ہو وہ ہرگز نہ پڑھیں سفر جاری رکھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جگہ کو تہوار یا زیارت گاہ بنانا پسند نہیں کیا اور فرمایا کہ اہل کتاب اسی لیے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے انبیاء کے آثار کے پیچھے پڑ گئے اور انہیں کنیسہ اور گرجا بنا ڈالا۔
محمد بن وضاح وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس درخت کو کٹوا دیا جس کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت لی گئی تھی کیونکہ لوگ اس درخت کے نیچے کثرت سے جانے لگے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خوف ہوا کہ کہیں لوگ فتنہ میں نہ پڑ جائیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا وہی لائق کے قبول ہے اور وہی جمہور صحابہ کا مذہب بھی ہے سوائے ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ کے جو اس پر عمل کرنا پسند کرتے تھے اور اس پر اعتماد کرتے تھے۔

قبروں پر چراغ جلانا

قبروں پر چراغ جلانا بھی جاہلیت کی رسم رہی ہے جس کی حرمت ان تمام احادیث سے ثابت ہوئی جس کا ذکر اوپر والے مسئلہ میں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور آج ائمہ اہل بیت کے مزارات پر جتنی شمعیں جلائی جاتی ہیں اور خصوصاً رمضان اور دوسری بابرکت راتوں میں جو ہوتا ہے اس کا آپ مشاہدہ کریں تو حقیقت واضح ہو جائے، افسوس ہے کہ کرنے والے اس کو کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔

قبروں کو تہوار بنانا

اہل جاہلیت قبروں پر تہوار اور میلہ لگاتے تھے۔ عید ہر اس اجتماع کو کہتے ہیں جو حسب عادل معمول کے مطابق ہفتہ، مہینہ یا سال میں لوٹ لوٹ کر آیا کرے، لفظ عید بہت سے امور کو جمع کرتا ہے جیسے جمعہ اور عیدالفطر کا ایک مقررہ دن اور اجتماع کو بھی کہا جاتا ہے۔
ان رسوم عبادات کو بھی عید کہا جاتا ہے جو اس اجتماع میں کی جاتی ہیں، عید کسی مخصوص جگہ سے بھی متعلق ہوتی ہیں اور غیر مخصوص جگہ سے بھی، جیسے عراق میں ہر ولی کی قبر کے لئے ایک دن مخصوص ہے جس میں لوگ زیارت کے لیے جمع ہوتے ہیں جیسے زیارت عذیر اور رآس حسین کی جگہ اور بعض اولیاء کی قبروں کے لیے ہفتے کے بعض دن مخصوص ہوتے ہیں، جیسے جمعہ فلاں ولی کی قبر کے لئے اور منگل فلاں کے لئے اور فلاں دن فلاں کے لئے اسی طرح ان قبروں کی زیارت کے لئے بابرکت دنوں اور راتوں کو بھی خاص کر لیا گیا ہے، جیسے لیلۃ القدر، عید، شعبان کی پندرھویں شب وغیرہ حالانکہ ان کے جواز کے لئے کوئی دلیل بھی قرآن و حدیث ثابت نہیں۔

قبروں کے پاس جانور ذبح کرنا

قبروں کے پاس جانور ذبح کرنا بھی اہل جاہلیت کی قدیم رسم رہی ہے اللہ کا ارشاد ہے۔
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ٭ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ [6-الأنعام:163]
”آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔ “
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حکم فرمایا ہے کہ آپ ان مشرکین کو جو غیر اللہ کی عبادت کرتے اور ان کے لئے جانور ذبح کرتے ہیں یہ بتا دیں کہ نماز اور ذبیحہ کو اللہ نے صرف اپنے لئے خاص کر دیا ہے۔ مشرکین بتوں کی عبادت کرتے اور ان کے لئے جانور ذبح کیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی مخالفت کا حکم فرمایا اور اخلاص و للہیت کی تاکید فرمائی، جو لوگ اس نیت سے غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ نقصان دور کر دیں گے یا نفع پہونچائیں گے تو یہ اسی کفر اور اعتقادی شرک کی تعظیم ہو گی جس پر اہل جاہلیت عامل تھے اور ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہنے کی مشروعیت کا سبب صرف یہی ہے کہ ذبیحہ جیسے بڑے امور صرف اللہ معبود برحق کے ساتھ خاص ہیں، لہٰذا غیر اللہ کی نیت سے ذبح کرنا تو اور زیادہ شدت سے ممنوع ہونا چاہئیے ابوداؤد میں ہے کہ ایک شخص نے مقام بوانہ میں اللہ کے لئے اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی اس کو پوری کرنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا ”بوانہ“ میں کوئی بت ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : وہاں مشرکین کا کوئی تہوار ہوتا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ! تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو، وہ موحد تھا، صرف اللہ رب العزت کے تقرب کا خواہاں تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تحقیق فرمائی کہ کیا وہاں کبھی کوئی بت تھا یا مشرکین کا کوئی تہوار ہوا کرتا تھا اگر ان میں سے کوئی چیز رہی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اللہ کے نام کا جانور بھی ذبح کرنے کی اجازت نہ دیتے تاکہ عقیدہ توحید کی حفاظت ہو اور شرک کے تمام زرئع بند ہو جائیں۔ لیکن چونکہ ایسی کوئی بات نہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔
اسی طرح صحیح حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص ایک مکھی کے سبب جنت میں گیا اور دوسرا ایک مکھی کے سبب جہنم میں داخل ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو شخص ایک قوم کے بت کے پاس سے گزرے، جہاں ہر گزرنے والے کو کچھ نہ کچھ نذرانہ بت پر چڑھانا پڑتا تھا، ان دونوں سے بھی مجاوروں نے مطالبہ کیا کہ کچھ نہ کچھ نذر کرو خواہ ایک مکھی ہی سہی، ان میں سے ایک نے مکھی چڑھا دی تو اس کو آزاد کر دیا اور وہ بت پر ایک مکھی چڑھانے کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوا۔ دوسرے سے بھی یہی مطالبہ ہوا تو اس نے کہا : میں تو غیر اللہ کے لئے ایک مکھی بھی نذر نہیں کر سکتا تو اس کو لوگوں نے شہید کر دیا، اس طرح وہ جنت میں گیا۔
اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں، بت پر مکھی چڑھانے والا شخص جہنمی ہو حالانکہ اس کا ارادہ بت پر کچھ نذر کرنے کا نہیں تھا، اس نے محض اپنے چھٹکارے کی خاطر ایسا کیا تھا اور وہ مسلمان بھی تھا پھر بھی اس کے داخل جہنم ہونے کی وعید کی گئی، ورنہ غیر مسلم ہوتا تو یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ وہ جہنم میں گیا کیوں کہ غیر مسلم تو جہنمی ہوتا ہی ہے، کہنے کی کیا ضرورت۔
اس حدیث سے قلب کے اعمال اور عقیدہ توحید کی اہمیت و عظمت کا اندازہ کیجئے کہ حقیقت میں اسلام کا یہی مقصود اعظم اور رکن اکبر ہے اور اس مکھی کے قصے پر اچھی طرح غور کیجئے، حق ٹھوس ہوتا ہے اور باطل پوچ۔ اس پر بھی غور کرو کہ مشرکین اپنے بتوں پر محض اس لئے چڑھاوے چڑھاتے تھے کہ یہ بت ان کو اللہ کے قریب کر دیں گے اور ان کی شفاعت اس سبب سے ہو گی کہ یہ لوگ اللہ کے رسول، فرشتے یا اولیاء اللہ تھے، ان باتوں پر غور کرنے سے تمہیں آج کل کے قبر پرست مسلمانوں کی مشرکانہ حالت کا خوب اندازہ لگ جائے گا۔

بزرگوں کے آثار سے برکت حاصل کرنا

بزرگوں کے آثار سے برکت حاصل کرنا بھی جاہلیت کی خصلت تھی، جیسے دارالندوہ اور جس کی تولیت میں یہ ہو اس کا فخر کرنا، جیسے کہ حکیم بن حزام سے جب کہا گیا کہ تم نے قریش کی عزت بیچ دی تو اس نے جواب دیا کہ تقویٰ کے سوا سارے مکارم ختم ہو گئے۔ بڑوں کے آثار سے برکت لینے کی بدعت آج کل کے جاہلیت پرست مسلمانوں میں اچھی طرح بسی ہے اور وہ اس میدان میں یہود و نصاریٰ اور دور جاہلیت کے عربوں سے کہیں زیادہ آگے ہیں۔ اور حکیم بن حزام قرشی الاسدی سے بہتر جواب نہیں ہو سکتا جسے اس نے اس شخص کے اعتراض پر دیا تھا کہ تم نے قریش کی عزت بیچ دی۔ جسے اس نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ایک لاکھ درہم کے عوض بیچا اور اس کا جواب تھا کہ تقویٰ کے سوا سارے مکارم ختم ہو گئے، کیوں نہ ہو وہ بڑا عقلمند، متقی، سردار، اپنے مال کے سبب غنی تھا دور جاہلیت میں انہوں نے سو غلام آزاد کئے تھے، ایک سو اونٹ سواری کے لئے دیئے تھے۔ اسلام لا کر حج کیا تو ایک سو اونٹ ان کے ساتھ تھے جن کو چادر اڑھا رکھی تھی، عرفات میں ایک سو نوجوان لڑکے آزاد کیے جن کی گردنوں میں چاندی کی پلیٹ لٹکتی تھی اور اس پر لکھا تھا ”حکیم بن حزام کی طرف سے اللہ کی راہ میں آزاد ہیں“ ایک ہزار بکریاں ہدیہ میں دیں، جاہلیت میں بھی ساٹھ سال زندہ رہے اور اسلام لا کر بھی ساٹھ سال زندہ رہے اور کعبہ میں پیدا ہوئے تھے۔

نوحہ کرنا

ان چاروں مسائل کے باطل ہونے کی دلیل ایک حدیث ہے جسے بخاری اور مسلم نے ابومالک الاشعری سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا :
أربع فى أمتي من أمر الجاهلية لا يتركونهن: الفخر فى الأحساب، والطعن فى الأنساب، والاستسقاء بالنجوم، والنياحة، وقال: النائحة إذا لم تتب قبل موتها تقام يوم القيامة وعليها سربال من قطران ودرع من جرب [رواه مسلم]
جاہلیت کی چار باتیں میری امت میں باقی رہ جائیں گی جن کو لوگ نہیں چھوڑیں گے، حسب میں فخر کرنا، نسب میں طعنہ مارنا اور ستاروں کے ذریعے پانی طلب کرنا، نیز فرمایا نوحہ کرنے والی عورت اگر توبہ کئے بغیر نہیں مری، تو قیامت کے دن اس حالت میں اٹھائی جائے گی کہ اس کے بدن پر تارکول کا کرتا اور خارش کی قمیض ہو گئی۔
حسب میں فخر تو یہ ہے کہ اپنے باپ دادا کا نام لے کر فخر کرنا اور نسب میں طعنہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے آباء و اجداد کی حقارت کے لیے ان پر طعنہ مارنا اور ان کے مقابلے میں اپنے آباء و اجداد کو فوقیت دینا اور ستاروں سے پانی طلب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ جب فلاں ستارہ فجر کے وقت مغرب میں ہوا اور دوسرا مشرق میں طلوع ہو رہا ہو تو بارش ہو گی۔ اسی لیے اہل جاہلیت کہا کرتے تھے کہ ہمیں فلاح ستارہ کی وجہ سے بارش ملی۔ بس یہی جھوٹ بولنا ہی ان کا روزگار ہو گیا تھا۔ جیسا کہ سورہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ تم نے جھوٹ بولنے ہی کو اپنی روزی بنا لیا ہے۔
نوحہ کرنے والی کے بارے میں تارکول کے کرتے کی سزا اس لیے دی جائے گی کہ یہ سیاہ ماتمی لباس پہنا کرتی تھی، اس لئے قیامت میں بھی سیاہ تارکول کا کپڑا پہنے گی اور خارش کی قمیض اس لئے کہ جس طرح قمیض بدن کو ڈھانکے رہتی ہے اسی طرح اس کے پورے بدن کو خارش ڈھانپ لے گی، کیونکہ یہ اپنے دل آزاد جملوں سے مصیبت زدہ لوگوں کے دلوں کو مجروح کئے رہتی تھی۔
اس حدیث سے اہل جاہلیت کی ان تمام عادتوں کی تردید کی گئی، لیکن موجودہ دور کے وارثین جہالت اپنے پیشرو جہلاء سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں اپنے آباؤ اجداد کے مکارم کو لہک لہک کر بیان کرتے اور دوسروں پر فخر کرتے ہیں، لیکن خود ان کے پاسنگ کے برابر بھی نہیں۔ دوسروں کے نسب پر بھی اسی طرح طعنہ زنی کرتے ہیں کہ فلاں کے باپ تو ایسے تھے جبکہ ہمارے باپ دادا کی ذات ایسی اور ایسی تھی۔ ستارہ پرستی میں بھی ان کا وہی حال ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ بارش آسمان و زمین کے خالق کی قدرت سے نہیں بلکہ ستاروں کی بدولت ہوتی ہے۔ مردوں پر نوحہ کرنے کو بھی آج کتنا کار ثواب سمجھا جاتا ہے۔ خصوصاً ہر سال ماتم حسین کیا کہنا، بس اللہ کی پناہ۔

کسی کو اس کے ماں باپ کی وجہ سے عار دلانا

کسی کو دوسرے کے فعل پر عار دلانا اور خاص طور پر ماں باپ کی وجہ سے شرم دلانا جاہلیت کی رسم تھی۔ بخاری میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی روایت کی بابت معرور کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں مقام ربذہ میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملا، دیکھا کہ ان کے اور ان کے غلام کے بدن پر ایک ہی قسم کا کپڑا ہے میں نے اس یکسانیت و مساوات کا سبب پوچھا تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے ایک شخص سے تکرار کی اور اس کو اس کی ماں کے سبب عار دلایا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا :
إنك امرؤ فيك جاهلية، إخوانكم خولكم، جعلهم الله تحت أيديكم، فمن كان أخوه تحت يده، فليطعمه مما يأكل، وليلبسه مما يلبس، ولا تكلفوهم ما يغلبهم، فإن كلفتموهم فأعينوهم
تمہارے اندر جاہلیت کی بو پائی جا رہی ہے تمہارے یہ بھائی تمہارے غلام ہیں جن کو اللہ نے تمہارے ماتحت بنایا ہے لہٰذا جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو اسے اس کو وہی کھلانا چاہیے جو خود کھائے اور وہی پہنانا چاہیے جسے وہ خود پہنے اور ان کو اتنا کام مت دو کہ ان پر بار ہو اگر کام دو تو ان کی مدد کرو یہ واقعہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے معرفت و ایمان میں درجہ کمال تک پہنچنے سے پہلے کا ہے۔ایک دن حضرت بلال رضی اللہ عنہ حبشی ‏ موذن رسول سے ان کی تکرار ہو گئی جس پر انہوں نے جذبہ میں آ کر ان کو ”یا ابن السوداء“ کہ دیا یعنی ”اے کالے کی اولاد“ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے کہا : ”تم نے بلال کو برا بھلا کہا اور ان کی ماں کے سیاہ رنگ ہونےکا ان کو طعنہ دیا “، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے جرم کا اعتراف کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حسبت انه بقي فيك شئ من كبرالجاهلية ”میرا خیال ہے کہ اب بھی تمہارے اندر جاہلیت کی نخوت باقی ہے“ یہ سن کر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا رخسار زمین پر رکھ دیا اور کہا میں اس وقت تک سر نہیں اٹھاؤں گا جب تک کہ بلال رضی اللہ عنہ اپنے پاؤں میرے رخسار پر نہ رکھ دیں، اللہ اکبر آج لوگوں کا حال دیکھیے، کس طرح عادات جاہلیت ان میں رچی بسی ہے کہ بسا اوقات ایک آدمی کے کئے پر پورے شہر والوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے آخر یہ جاہلیت نہیں تو اور کیا ہے ؟

بیت اللہ کے متولی ہونے پر فخر کرنا

اہل مکہ بیت اللہ کے متولی ہونے پر فخر کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں کی بابت فرمایا ہے :
قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُونَ (23-المؤمنون:66)
”تم پر میری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تم الٹے پاؤں بھاگتے تھے تکبر کرتے ہوئے قرآن کی شان میں بیہودہ بکتے ہوئے۔“
پوری آیت کا مطلب پچھلی آیت کو ملا کر یوں ہوتا ہے کہ لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ إِنَّكُمْ مِنَّا لَا تُنْصَرُونَ ”چلاؤ مت، ہماری طرف سے اب تم کو کوئی بچانے والا نہیں۔ “
اب کوئی مدد نہیں کرے گا کیونکہ تم نے ہماری آیتوں کو جھٹلا کر بہت بڑا گناہ کیا ہے جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جاتا تھا تو تم اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا تو درکنار سننے کے بھی روادار نہیں تھے مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ بیت اللہ کے خادم ہونے کا تم کو بڑا غرور تھا سَامِرًا تم ہمیشہ اپنی مجلسوں میں قرآن ہی کا چرچا کیا کرتے تھے، کبھی اس کو شعر کہتے تھے کبھی جادو تَهْجُرُونَ قرآن اور صاحب قرآن اور ان کی جماعت کے خلاف تم ہمیشہ بدگوئی ہی کرتے رہتے تھے أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اور اگر وہ قرآن پر غور کرتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ اس میں کتنا اعجاز ہے اور یہ ان کے رب کی سچی کتاب ہے تاکہ ان کو اس پر ایمان لانے کی توفیق ہوتی۔ أَمْ جَاءَهُمْ مَا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ یا اس لیے نہیں مانتے کہ ان کے پاس ایسی بات آئی ہے جو ان کے پچھلے آباؤ اجداد کے پاس نہیں آئی تھی، تو یہ بھی تو صحیح نہیں کیوں کہ سارے انبیاء نے قرآن ہی کے مطابق دعوت دی ہے۔
حاصل کلام یہ کہ اہل جاہلیت اپنے مقدس مناصب کی ریاست و سربراہی کی بناء پر اکڑتے تھے بالکل ویسے ہی جیسے آج اکثر جھوٹی عزت کے دعویدار اکڑتے ہیں، کچھ تو وہ ہیں جو عام مسلمان پر اپنی بزرگی اس لئے جتاتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کے سردار ہیں، کچھ وہ ہیں جو مشاہد و مزارات اولیاء اللہ کے خادم ہونے پر فخر کر رہے ہیں، بغداد میں شیخ عبدالقادر جیلانی کی قبر کے متولی وہ مجاور ہونے کو باعث شرف سمجھتے ہیں اور ہندوستانی مرد جو نذر و نیاز اور صدقات و خیرات اور شرکیہ چڑھاوے ان کو دیتے ہیں اسی کو وہ عزت و فخر کی چیز سمجھتے ہیں، ایسے لوگ اپنے کو چاہے کچھ سمجھ لیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ اللہ کے نزدیک انتہائی ذلیل ہوں گے اور عذابِ الٰہی سے کوئی چیز ان کو بچا نہ سکے گی اور اس کے بندوں کی نظر میں ذرے سے بھی زیادہ حقیر اور رحمت الہٰی سے دور ہیں۔

انبیاء کی نسل میں سے ہونے پر فخر کرنا

اہل جاہلیت اس پر بھی فخر کرتے تھے کہ وہ انبیاء کی نسل میں سے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس جاہلی غرور کی تردید فرمائی :
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ [2-البقرة:134]
”یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی اس کا کیا اس کے لئے اور تمہارا کیا تمہارے لئے اور تم سے ان کے کئے کی بابت نہیں پوچھا جائے گا۔“
یہاں گزری ہوئی امت سے مراد حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد ہیں جیسا کہ اللہ نے فرمایا :
وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [2-البقرة:130]
”اور ملت ابراہیمی سے تو وہی بیزار ہو گا جو اپنی ذات ہی سے بےوقوف ہو، اور ہم نے ان کو دنیا میں منتخب کیا ہے اور وہ آخرت میں وہ صالحین میں سے ہوں گے۔“
امت کے کئی معنی ہیں جو ام سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے قصد کرنا، یہاں امت سے مراد جماعت ہے، اور امت ہر جماعت کو کہا جاتا ہے جس کو کوئی بھی چیز ایک جگہ جمع کر دے۔ ایک دین، ایک زمانہ یا ایک مکان، کیوں کے افراد امت ایک دوسرے سے ملتے اور جمع ہوتے ہیں لها ماكسبت ولكم ما كسبتم یعنی تمہارا خود کو ان کی طرف منسوب کرنا بیکار ہے، کیونکہ ان کے اعمال سے تم کو ذرا بھی فائدہ نہیں پہنچے گا فائدہ تو جب پہنچ سکتا ہے جب تم ان کی راہ پر چلو اور ان کی شریعت کی اتباع کرو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : نبی کے قریبی لوگ وہی ہیں جو متقی ہیں، بس نبی کی راہ پر چلو، اور سن لو کہ لوگ مجھ سے اس حالت میں مل ہی نہیں سکتے کہ ان کی گردنوں پر ان کے اعمال کا بوجھ ہو، اور تم دنیا میں مجھ سے ملو تو میں تم سے اپنا چہرہ چھپا لوں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ [ 49-الحجرات:13]
”لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو قومیں اور مختلف خاندان بنایا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچانو، اللہ کے نزدیک سب سے شریف وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔“
ولا تسئلون عما كانوا يعملون یعنی نہ تم اپنے بزرگوں کے گناہوں پر پکڑے جاو گے نہ ان کی نیکیوں کا ثواب پاؤ گے۔ ”پدرم سلطان بود“ یہ جاہلیت کا پرانا نعرہ ہے جس پر آج مسلمانوں کا بڑا طبقہ چل رہا ہے، آج ان کی بڑی دولت صرف یہ رہ گئی ہے کہ اپنے باپ دادا کا نام لے کر فخر کریں۔ آج کتنے لوگ ایسے ہیں جو شیخ عبدالقادر جیلانی، شیخ احمد الرفاعی کی اولاد ہونے پر فخر کر رہے ہیں، کتنے خود کو بکری صدیقی، کتنے عمری فاروقی، کتنے علوی، حسنی، حسینی کہہ کر جھومتے رہتے ہیں۔ جب کہ یہ ڈینگ مارنے والے خود کسی فضیلت اور تقویٰ سے بالکل عاری ہیں اور یہ نسبتیں انہیں اس دن بالکل کام نہ دیں گے جس دین قلب سلیم کے سوا اللہ کے نزدیک نہ کسی کی اولاد کام دے گی نہ مال و اسباب۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے صاف صاف فرما دیا :
يا فاطمة بنت محمد، لا اغني عنك من الله شيئا ”اے فاطمہ بنت محمد، میں تم کو اللہ کی طرف سے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔ “
اور باپ دادا کے فضائل و مکارم سے خالی اور بے عمل لوگ، باپ کے نام کی محض روٹی کھانا چاہتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ كن عصاميا ولا تكن عظاميا ”ذاتی شرافت کے مالک بنو، مردہ پرست مت بنو۔ “
ان الفتي من يقول ها أنا ذا . . . ليس الفتيٰ من يقول كان ابي
بہادر وہ ہے جو خود کو بہادری میں پیش کرے . . . بہادر وہ نہیں جو کہے میرے والد بہادر تھے۔
کسی نے کیا خوب کہا؎
اقول لمن غداني ل يوم . . . يباهينا باسلاف عظام
جو شخص اپنے بزرگوں کا نام لے کر فخر کرتا ہے . . . میں اس سے روز کہتا ہوں۔
اتقنع بالعظام وانت تدري . . . بان الكب يقنع بالعظام
تم ہڈیوں پر قناعت کرتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ کتنے ہڈیوں پر قناعت کرتے ہیں۔
کسی اور نے کہا ؎
وما الفخر بالعظم الرميم وانما . . . فخار الذى عبغي الفخار بنفسه
بوسیدہ ہڈیوں پر فخر کرنا مناسب نہیں . . . فخر تو وہ ہے یہ آدمی اپنی صلاحیت پر فخر کرے۔

پیشہ پر فخر کرنا

اہل جاہلیت اپنے کاموں اور پیشوں پر فخر کرتے تھے، جیسے شام اور یمن میں گرمی اور سردی کے موسم میں تجارتی سفر کرنے والے لوگ، محنت مزدوری کرنے والوں کو حقیر سمجھتے تھے۔ عموماً تجارت کھیتی کرنے والوں، چھوٹی موٹی صنعت نعت اور پیشہ سے متعلق لوگوں، جیسے جوتا بنانے والوں، کپڑا بننے والوں وغیرہ کو معیوب سمجھتے ہیں، یہ سراسر جاہلی عادت ہے۔ سارے حلال پیشے اللہ کی بندگی اور اطاعت کا ذریعہ ہیں اور آخروی نجات کا وسیلہ ہیں، یہ ذلت نہیں فخر کا باعث ہیں۔ کاروبار و تجارت سب دنیاوی اسباب اور آنی جانی چیزیں ہیں ان پر فخر کرنا اور دوسروں کو ذلیل سمجھنا کسی عاقل کا کام نہیں، کس کو معلوم کب زوال آئے اور اسباب دنیا سے ہاتھ دھونا پڑے۔

دلوں میں دنیا کی عظمت کا احساس رکھنا

اہل جاہلیت دنیا اور دنیا کے عزوجاہ کو حق کا معیار سمجھتے تھے، اور دنیا ان کے نزدیک سب سے بڑی چیز تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت فرمایا :
وَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ قَالُوا هَـٰذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِهِ كَافِرُونَ ٭ وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ٭ أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ [43-الزخرف:30]
”اور جب ان کے پاس یہ قرآن پہنچا تو کہنے لگے یہ جادو ہے اور ہم اس کو نہیں مانتے، اور کہنے لگے کہ یہ قرآن اگر کلام الہٰی تو ان دونوں بستیوں (مکہ اور طائف کے رہنے والوں میں) سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا، کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانیٴ دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے۔“
اہل جاہلیت نے پہلے تو یہ کہہ کر آپ کی نبوت کا انکار کیا کے آپ بشر ہیں اور بشر نبی نہیں ہو سکتا لیکن جب دلائل کے سامنے انہیں چپ ہونا پڑا اور اپنی اس تک بندی کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھا تو انکار کے لئے ایک نیا شوشہ چھوڑا کہ اگر یہ قرآن حق ہوتا تو مکہ اور طائف کے کسی بڑے صاحب حیثیت پر اترتا۔ مکہ والوں میں سے ان کی مراد، ولید بن المغیرہ المخزومی اور اہل طائف سے مراد حبیب بن عمرو بن عمیر الثقفی کی ذات تھی، یہ دونوں ہی بڑے مالدار صاحب عزوجاہ تھے۔ ولید بن مغیرہ کو تو ريحانة القريش ”قریش کا گلدستہ“ کہا جاتا تھا۔
لیکن ان کا یہ نظریہ انتہائی جاہلانہ اور کھوکھلا تھا کیونکہ نبوت جیسے مقدس اور پاکیزہ منصب کے لئے دنیاوی رذائل اور مادی اسباب کے بجائے انسانی کمالات اور فضائل قدسیہ اور اوصاف عالیہ کی ضرورت تھی، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا : اهم يقسمون رحمة ربك یعنی یہ کتنے جاہل اور احمق لوگ ہیں کہ قرآن جیسی نعمت کو اپنے من مانی تقسیم کرنا چاہتے ہیں نحن قسمنا بينهم معيشتهم فى الحياة الدنيا حالانکہ ہم نے اپنی حکمت و مصلحت کے پیش نظر خود جس کو مستحق سمجھا اپنی نعمت سے نوازا کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ایسے لوگ کائنات کی تدبیر سے بالکل جاہل اور عاجز ہیں۔ ورفعنا بعضهم فوق بعض یعنی روزی اور معاش کے وسائل میں ہم نے ہی ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے درجٰت سب کے درجے بھی مختلف رکھے ہیں، کسی کو کمزور، کسی کو غنی، کسی کو فقیر، کسی کو خادم، کسی کو مخدوم، کسی کو حاکم، کسی کو محکو م بنایا ہے ليتخذ بعضهم بعضا سخريا تاکہ ہر شخص اپنی حاجات اور مصالح کے پیش نظر ایک دوسرے سے مستفید ہوتا رہے اور مل جل کر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں، نہ صاحب وسعت کا اس سے کمال ثابت ہوتا ہے، نہ تنگ دست کا نقص، اگر یہ ذمہ داری ان دنیا داروں کو سونپ دی جاتی تو ہلاک و برباد ہو جاتے، جب وہ اپنے ذاتی معاملات اور دنیاوی مسائل کو حل نہیں کر سکتے تو امور دین کی تدبیر اور نبوت جیسی مقدس سے ذمہ داری کو کیسے سنبھال سکتے تھے۔
نحن قسمنا سارے امور اللہ کی تقسیم پر منحصر ہیں، طلب دنیا میں اپنی کوششوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ سب طرف سے کٹ کر اللہ عزوجل کی مدد پر توکل کرنا چاہئیے۔
فاعتبر نحن قسمنا بينهم . . . تلقه حقا و بالحق نزل
(ہم نے لوگوں کے درمیان تقسیم کی ہے) سے عبرت حاصل کرو، یہی حق ہے اسی کو درست پاؤ گے ورحمة ربك خير مما يجمعون تمہارے رب کی رحمت ان کے مال دنیا جمع کرنے سے بہتر ہے۔ رحمت سے مراد، نبوت اور دارین کی سعادت ہے، جو اس دنیاوی عارضی نعمتوں سے کہیں بہتر ہے۔ لہٰذا عظیم وہ ہے جسے رحمت الہٰی سے نوازا جائے، فانی دنیا کی دولت کسی کو عظیم نہیں بناتی، لیکن افسوس آج بھی دنیا میں عزت و عظمت کا معیار وہی قدیم جعلی عادات کو سمجھا جاتا ہے اور آج بھی مال کو علم پر، اور دولت کو اخلاق پر ترجیح دی جاتی ہے اور فقیر الحال علماء کے مقابلے میں دنیا دار جہلا کو برتر سمجھا جاتا ہے، کسی نے صحیح کہا ہے :
رب علم اضاعه عدم المال . . . وجهل عطي عليه النعم
کتنا علم ایسا ہے جسے مفلسی نے ضائع کر دیا . . . اور کتنی جہالتوں پر نعمتوں نے پردہ ڈال رکھا ہے۔

فقراء کو حقیر سمجھنا

اہل جاہلیت فقیر و محتاج لوگوں کو بہت حقیر سمجھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت سورۃ انعام میں تفصیل سے ذکر فرمایا ہے :
وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ٭ وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ [ 6-الأنعام:51]
”اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت سے جمع کئے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ ان کا کوئی مددگار ہو گا اور نہ کوئی شفیع، اس امید پر کہ وه ڈر جائیں، اور ان لوگوں کو نہ نکالیے جو صبح و شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اسی کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں۔ ورنہ آپ ﻇلم کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے
۔“
اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکور لوگوں کو ڈرانے کا حکم دیا کہ شاید اس سے متاثر ہو کر وہ بھی متقیوں میں شامل ہو جائیں، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ان کو ڈرانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کو بھگا دیں۔
ان آیات کی تفسیر میں امام احمد بن حنبل اور طبرانی نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ قریش کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزری، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت صہیب، عمار، بلال اور خباب رضی اللہ عنہم اور دوسرے غریب مسلمان بیٹھے ہوئے تھے، قریش کی اس جماعت نے ان لوگوں کی طرف اشارہ کر کے کہا: محمد ! اپنی قوم میں سے بس انہیں کو آپ چاہتے ہیں ؟ کیا ہمارے ہوتے ہوئے اللہ نے انہیں لوگوں پر احسان فرمایا ہے ؟ کیا ہم ایسے ہی لوگوں کی پیروی کریں ؟ بہتر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنے پاس سے ہٹا دیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں گے۔ اس موقع پر یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔
اور ابن جریر اور بیہقی نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ اقرع بن حابس التمیمی اور عیینہ بن حصن الفزاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے وہاں آپ کے پاس حضرت بلال، صہیب اور عمار رضی اللہ عنہم وغیرہ غریب مسلمان بیٹھے ہوئے تھے، ان کو دیکھ کر یہ حقارت سے جل گئے اور آپ کو تنہائی میں لے جا کر کہا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لئے آپ ایک الگ مجلس بنائیں، جہاں ان لوگوں سے دور ہو کر ہم لوگ آپ کے پاس بیٹھیں، اس سے عرب ہمارے مرتبہ کو بھی پہچانے گے، اس لئے کہ عرب کے وفود برابر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں، اس وقت ان غلاموں کے ساتھ بیٹھے ہوئے خود کو دیکھ کر ہمیں شرم آتی ہے۔ لہٰذا جب ہم لوگ آپ کے پاس آئے تو ان لوگوں کو مجلس سے اٹھا دیں، جب ہم چلے جائیں تو پھر آپ ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : ٹھیک ہے اس پر ان لوگوں نے مطالبہ کیا کہ آپ اس مضمون کی ایک تحریر ہمیں لکھ دیں۔ آپ نے لکھنے کے لئے حضرت علی رضی اللہ کو کاغذ کے ساتھ بلایا، ہم لوگ ایک کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ جبرئیل علیہ السلام ان آیات کو لے کر نازل ہوئے، اس کے بعد آپ نے ہم لوگوں کو بلایا، ہم آئے تو یہ آیت تلاوت فرمائی : سلام عليكم كتب ربكم على نفسه الرحمه تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمے کر رکھا ہے، اس کے بعد یہ معمول رہا کرتا تھا کہ ہم مجلس میں بیٹھے رہتے، آپ اٹھنا چاہتے تو ہم کو چھوڑ کر اٹھے جاتے، پھر یہ آیت نازل ہوئی :
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا [18-الكهف:28]
”اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضامندی چاہتے ہیں)، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا۔ دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے۔ “
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ بیٹھے رہتے آپ کے اٹھنے کا وقت آتا تو آپ کو چھوڑ کر ہم خود ہی اٹھ جاتے تاکہ آپ بھی اٹھ جائیں۔
اور ابن المنذر نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ ربیعہ کے بیٹے عتبہ اور شیبہ اور قزطہ بن عبد عمرو بن نوفل اور حارث بن عامر بن نوفل اور مطعم بن عدی قبیلہ بنو عبد منافع کے اشراف نے ابوطالب کے پاس جا کر کہا کہ آپ کے برادر زاد سے اگر ان غلاموں کو ہماری موجودگی کے وقت اپنے پاس سے ہٹا دیتے تو ہم کو بڑی خوشی ہوتی اور اور ہمیں ان کی تصدیق اور اتباع میں کوئی عذر نہ ہوتا ابوطالب نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی جس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رائے دی کہ بہتر ہے کہ آپ اس پر عمل کر کے دیکھیں کہ ان کا کیا رد عمل ہوتا ہے اور کہاں تک وہ اپنی اس بات کا پاس رکھتے ہیں اسی موقع پر یہ آیات وانذربه الذين يخافون سے لے کر اليس الله باعلم بالشكرين تک نازل فرمائی۔
ان غلام اور خلفاء میں حسب ذیل حضرات شامل تھے بلال، عمار بن یاسر، سالم مولیٰ حذیفہ، صبیح مولیٰ اسیر اور خلفاء میں عبداللہ بن مسعود، مقداد بن عمرو اور واقد بن عبداللہ اور عمرو بن عبد عمرو اور مرشد بن ابومرثد وغیرہ۔
اور قریش کے آئمہ کفر اور موالی اور حلفاء کے بارے میں وكذلك فتنا بعضهم ببعض نازل ہوئی جب یہ آیات اتریں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی رائے پر معذرت کرنے لگے اس وقت یہ آیت واذا جاءك الذين يؤمنون باياتنا نازل ہوئی۔ بیچ میں آیت ما عليك من حسابهم من شيء جملہ معترضہ کے طور پر بیان کی گئی ہے۔
جس سے واضح ہو جائے کہ اب ضعفاء کو اپنے پاس سے ہٹانے کی ضرورت نہیں، نہ ان امراء کی باتوں کے دھوکے میں آنا چاہئیے کیونکہ کسی کی کوئی ذمہ داری آپ کے سر نہیں ہے بالکل اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام سے بھی ان کی قوم کے بڑوں نے کہا تھا . : ما نراك اتبعك الا الذين هم اراذ لنا بادي الراي یعنی ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے متبعین کی اکثریت پست حال، کم عقل لوگوں کی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ آپ کو لوگوں کے باطنی اعمال اور قلبی ایمان کے حساب و کتاب سے کچھ تعلق نہیں کہ ان مشرکین کے کہہ دینے پر آپ اپنے فیصلہ و عمل کی بنیاد پر حکم قائم کر دیں۔ بحثیت نبی کے آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ ظاہری حالت کو دیکھ کر اس کے مناسب احکامات جاری کریں اور باطن کے امور کو اللہ کے سپرد کر دیں چونکہ ان ضعفاء کے ظاہری حالات یہ ہیں کہ صبح و شام یہ اللہ کے سامنے دعا و مناجات میں لگے ہیں، اس لئے ان ظاہری اعمال پر فیصلہ کیجئیے۔
ما عليك من حسابهم من شيء کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ان غریب مسلمانوں کو مشرکین کے اشارے پر آپ کیوں نکالیں گے، کیا ان کی غربت دور کرنا اور ان کو روزی خرچ دینا بھی آپ کے ذمہ دار ہے ؟ نیز ان کے غریب ہونے سے آپ کا کیا بگڑتا ہے۔ اگلی تفصیل کا بھی یہی خلاصہ ہے کہ آپ پر کسی کی میں ذمہ داری نہیں نہ کوئی کسی کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔

ملائکہ وحی رسالت اور قیامت کا انکار

اہل جاہلیت فرشتوں، اللہ کی کتابوں اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان ہی نہیں رکھتے تھے اسی مضمون پر کتب عقائد و حدیث و تفسیر میں مفصل بحث موجود ہے اور آیات بھی بکثرت موجود ہیں مثلاً :
زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن يُبْعَثُوا قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ [64-التغابن:7]
”ان کافروں نے خیال کیا ہے کہ دوباره زنده نہ کیے جائیں گے۔ آپ کہہ دیجئے کہ کیوں نہیں اللہ کی قسم! تم ضرور دوباره اٹھائے جاؤ گے پھر جو تم نے کیا ہے اس کی خبر دیئے جاؤ گے اور اللہ پر یہ بالکل ہی آسان ہے۔ “
اور یہ جاہلی اشعار بھی ان کے عقیدے کو تباہ رہے ہیں :
يحدثنا الرسول بان سنحيا . . . وكيف حياه اصداء وهام
رسول بتاتے ہیں کہ ہم دوبارہ زندہ ہوں گے . . . لیکن مردوں اور کھوپڑیوں کو زندگی کیسے ملے گی۔
دوسرے نے کہا:
حياة ثم موت ثم نشر . . حديث خرافة يا ام عمرو
زندگی پھر موت، پھر زندہ ہو کر اٹھنا . . . اے ام عمرو یہ بکواس ہے۔
اسی طرح سورۃ الصافات 16، 17 اور سورۃ الواقعہ 47، 48 وغیرہ میں کفار جاہلیت کا یہ عقیدہ کہ :
اأَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَاماً أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ أَوَ آبَآؤُنَا الأولون
”کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈی ہو جائیں گے تو کیا ہم اور ہمارے پچھلے باپ دادا دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔“
اور فرمایا :
أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۖ ذَٰلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ
”کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے پھر بھی اٹھائے جائیں گے ؟ یہ محال ہے۔ “
اہل جاہلیت کے عقائد پر اس سے پہلے ہم بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔
بت اور شیطان پر ایمان لانا
بت اور شیطان پر ایمان لانا اور مشرکین کے دین کو مسلمانوں کے دین پر ترجیح دینا بھی اہل جاہلیت کا شیوہ تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَـٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا [4-النساء:51 ]
”کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا ایک حصہ ملا ہے پھر بھی وہ بت اور شیطان کو مانتے ہیں اور کفار کی بابت کہتے ہیں کہ یہ لوگ بہ نسبت مسلمانوں کے زیادہ راہ راست پر ہیں۔“
اس مضمون پر اس سے پہلے مسلہ نمبر 50 میں مفصل بحث گزر چکی ہے، یہاں صرف اتنا بتانا مقصود ہے کہ جاھل اہل کتاب مشرکین سے کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں تم زیادہ ہدایت پر ہو اور تمہارا دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت کے دین سے بہتر ہے۔
جیسا کہ آج نام نہاد صوفیاء اور کٹر معتصب لوگ قبر پرستوں کے علماء اور اور بدعتوں سے کہا کرتے ہیں کہ تم اہل توحید و سنت سے زیادہ بہتر ہو۔ فيا للعجب

جان بوجھ کر حق چھپانا

اہل جاہلیت جان بوجھ کر حق چھپاتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے یہودی اور عیسائی علماء کی بابت بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت جو بشارتیں اور حالات ان کی کتابوں میں مذکور تھیں ان کو وہ چھپاتے تھے۔ یہ بحث شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی کتاب، ”الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح“ میں بہت مفصل موجود ہے اس کا مطالعہ کرنا چاہیے ایسی جامع اور نادر کتاب لکھی نہیں گئی۔

علم کے بغیر اللہ کے بارے میں کلام کرنا

علم کے بغیر اللہ کے بارے میں کلام کرنا یہ ضلالت و فساد کی جڑ ہے۔ اکثر متکلمین اہل بدعت نے اس بارے میں ایسی ایسی باتیں کہی ہیں جن کا کتاب و سنت سے کوئی ثبوت نہیں اور نصوص شریعت میں من مانی تاویلات کی ہیں، جیسے فخر الدین رازی نے اپنی کتاب ”اساس التقدیس“ میں لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے اس کا رد لکھ کر اس کی بنیاد کھود ڈالی اور رازی کے جہل و ضلالت پر مہر لگا دی اور اس کا ناطقہ بند کر دیا۔ سچ ہے ولولا دفع الله الناس بعضهم ببعض لفسدت الارض اگر یہ بات نہ رہتی کہ اللہ تعالیٰ بعض آدمیوں کو بعض کے ذریعے دفع نہ کرتا تو پوری زمین فساد سے بھر جاتی۔

تناقض

متضاد باتوں کا کہنا بھی اہل جاہلیت کے خاص عادت تھی جیسا کہ سورۃ ق میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ [50-ق:5]
”انہوں نے حق کو جھٹلایا جب ان کے پاس آیا اور وہ متزلزل حالت میں ہے۔“
یہی حال تمام غالی بدعتوں کا ہے کہ اسلام کا دعوی کرنے کے ساتھ ساتھ دین کے مخالف کام کرتے ہیں۔

کہانت اور اس جیسی دوسری چیزوں پر عمل کرنا

رمل، چھکہ پھینکنا، کنکریاں مار کر برا شگون لینا، پرندے سے برا شگون لینا، نجومیوں پر عقیدہ رکھنا، طاغوت کو حاکم مان کر فیصلہ لینا
ان مسائل کی تفصیل ہم نے اپنی کتاب بلوغ الادب فى الاحوال العرب میں تفصیل سے کر دی ہے اور جاہل مسلمانوں کے ان اعمال و خرافات کو اچھی طرح بیان کر دیا ہے جنہیں آج کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں مسائل کی اصل و حقیقت کو معلوم کرنا ہو تو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ”اقتضاء الصراط المستقیم“ کا مطالعہ کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے