نماز میں اونچی آواز سے آمین کہنا مشروع ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

آمین کہنا سنت ہے

➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أمن الإمام فأمنوا فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو بلا شبہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے ۔“
[بخارى: 6402 ، كتاب الدعوات: باب فضل التأمين ، مسلم: 410 ، أبو داود: 936 ، ترمذي: 250 ، نسائي: 925 – 926 ، ابن ماجة: 851 – 852 ، موطا: 87/1 ، ابن خزيمة: 569 ، أحمد: 233/2 ، دارمي: 284/1 ، حميدي: 933]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما حسدتكم اليهود على شيء ما حسدتكم على السلام والتأمين
”یہود تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا سلام اور آمین کہنے پر کرتے ہیں ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 697 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب الجهر بأمين ، الصحيحة: 691 ، الترغيب والترهيب: 328/1]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
إذا قال الإمام غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا آمين
”جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمین کہو ۔ “
[بخاري: 782 ، كتاب الأذان: باب جهر المأموم بالتأمين ، مسلم: 620 ، كتاب الصلاة: باب التسبيح والتحميد والتأمين ، مؤطا: 87/1]
یہ حدیث بظاہر گذشته روایت: إذا أمن الإمام فأمنوا کے مخالف معلوم ہوتی ہے۔ (کیونکہ اس میں امام کے آمین کہنے پر آمین کا حکم ہے لیکن اس میں محض ولا الضالين پر ہی یہ حکم دیا گیا ہے) لیکن جمہور علماء نے ان میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ :
اذا امن کا معنی ہے إذا أراد التامين ”جب امام آمین کہنے کا ارادہ کرے (تو تم بھی آمین کہہ دو)۔“
[نيل الأوطار: 45/2]

اونچی آواز سے آمین کہنا مشروع ہے

➋ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غير المغضوب عليهم ولا الضالين کی قراءت کرتے تو آمین کہتے ورفع بها صوته ”اور اس (یعنی آمین) کے ساتھ اپنی آواز کو بلند کرتے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 824 ، كتاب الصلاة: باب التأمين وراء الامام ، صحيح ترمذي: 205 ، احمد: 316/4 ، أبو داود: 932 ، ترمذي: 248 ، بيهقي: 57/2]
➋ حضرت نعیم مجمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب وہ غير المغضوب عليهم ولا الضالين پر پہنچے تو انہوں نے آمین کہی اور لوگوں نے بھی آمین کہی پھر انہوں نے فرمایا کہ نماز میں میں تم میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں ۔
[ضعيف: ضعيف نسائي: 36 ، كتاب الإفتتاح باب قراءة بسم الله الرحمن الرحيم ، نسائيؒ 905 ، شيخ محمد صجی حسن حلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على السيل الجرار: 486/1]
➌ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے مقتدیوں نے اس قدر اونچی آواز سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی ۔
[عبد الرزاق: 96/2 ، الأوسط لابن المنذر: 132/3]
(احمدؒ ، شافعیؒ ، اسحاقؒ ) آمین اونچی آواز سے کہنی چاہیے۔
(مالکؒ ، ابو حنیفہؒ) آمین مخفی و پوشیدہ کہنی چاہیے۔
[الأم: 214/1 ، شرح المهذب: 331/3 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 880/2 ، حلية العلماء فى معرفة مذاهب الفقهاء: 107/2 ، المبسوط: 32/1 ، الهداية: 48/1 ، كشاف القناع: 339/1 ، سبل السلام: 243/1 ، نيل الأوطار: 48/2]
آمین مخفی کہنے کے قائل حضرات کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہی وخفض بها صوته ”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (یعنی آمین ) کے ساتھ اپنی آواز کو پست کیا ۔“
[شاذ: ضعيف ترمذي: 41 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى التأمين ، ترمذي: 248 ، ابن ماجة: 855 ، أحمد: 318/4 ، دارقطني: 334/1 ، يه روايت شعبهؒ سے مروي هے اور مدبها صوته والي روايت سفيانؒ سے مروي هے اور سفيان شعبه سے زياده بڑا حافظ هے جيسا كه امام ترمذيؒ نے امام ابو زرعهؒ سے اس حديث كے متعلق پوچها تو انهوں نے كها حديث سفيان فى هذا أصبح من حديث شعبة اس مسئلے ميں سفيانؒ كي حديث شعبه كي حديث سے زياده صحيح هے۔ ترمذي ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى التامين]
➋ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ، بسم الله تعوذ اور آمین اونچی آواز سے نہیں کہتے تھے۔“
[طحاوي: 150/1 ، آثار السنن: 125 ، یہ اثر بهت زياده ضعيف هے۔ أبكار المنن: 201 ، اس كي سند ميں سعيد بن مرذبان البقال راوي هے جس كے متعلق امام ابن معينؒ نے لا مكتب حديث كها هے اور امام بخاريؒ نے اسے منكر الحديث كها هے۔ ميزان الاعتدال: 228/3]
➌ امام ابراہیم نخعیؒ سے مروی ہے کہ پانچ چیزوں کو امام مخفی رکھے سبحانك اللهم ، تعوذ ، بسم الله
”آمین“ اور اللهم ربنا لك الحمد .
[مصنف عبدالرزاق]
واضح رہے کہ امام نخعیؒ کا یہ اثر مرفوع و صحیح روایت کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔
(راجح) جہری نماز میں امام اور مقتدی دونوں اونچی آواز سے اور سری نماز میں دونوں مخفی آمین کہیں گے۔
(ابن قدامہؒ) اس کے قائل ہیں ۔
[المغنى: 162/2]
(ابن قیمؒ) محکم صحیح سنت یہی ہے کہ نماز میں آمین کو اونچی آواز سے کہا جائے۔
[اعلام الموقعين: 396/2]
(شوکانیؒ) اس کو ترجیح دیتے ہیں۔
[نيل الأوطار: 48/2]
(عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ) اونچی آواز سے آمین کہنے پر صحابہ کا اجماع ہے۔
[تحفة الأحوزى: 79/2]
(ابن حزمؒ) امام اور مقتدی دونوں اونچی آواز سے آمین کہیں گے کیونکہ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
[المحلى بالآثار: 295/2]
(صدیق حسن خانؒ) اونچی آواز سے آمین کہنا پست آواز سے کہنے سے زیادہ بہتر ہے۔
[الروضة الندية: 272/1]
(عبد الحیی لکھنوی حنفیؒ) برحق یہی ہے کہ اونچی آواز سے آمین کہنا دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔
[التعليق الممجد: 101 ، السعاية: 13631]
(ابن ہمام حنفیؒ) اونچی آواز سے آمین کہنا سنت ہے۔
[فتح القدير: 107/1]
(رشید احمد گنگوهیؒ) احناف بھی آمین بالجبر کے معترف ہیں ۔
[فتاوى الرشيديه: 280 ، فتاوي شامي: 134/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1