ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرُنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللهُ [البقرة: 222] ”حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب مت جاؤ پس جب وہ پاک ہو جائیں تو جہاں سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں اجازت دی ہے ان کے پاس جاؤ۔“
اس آیت میں حائضہ عورت سے مباشرت کے لیے دو مرتبہ طہارت کا ذکر ہے یعنی حتى يطهرن اور فإذا تطهرن پہلی طہارت سے مراد تو بالاتفاق انقطاعِ حیض ہی ہے لیکن دوسری طہارت میں اختلاف کیا گیا ہے کہ اس سے مراد غسل ہے یا مجرد انقطاع حیض ۔
(ابن عباس) اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ حتي يطهرن ”یعنی وہ خون سے پاک ہو جائیں ۔“ فإذا تطهرن
”یعنی وہ پانی کے ساتھ طہارت حاصل کر لیں ۔“
[تيسير العلى القدير 181/1]
(ابن کثیرؒ ) علماء نے اس بات پر اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے کہ عورت سے جب حیض کا خون ختم ہو جائے تو وہ پانی کے ساتھ غسل کرنے تک، یا با مر مجبوری تیمم کرنے تک حلال نہیں ہوتی۔ [تفسير ابن كثير – بتحقيق عبد الرزاق مهدى 522/1]
(جمہور، مالکؒ) شوہر کے لیے حائضہ عورت سے اس وقت تک مباشرت جائز نہیں ہے جب تک کہ وہ پانی کے ساتھ طہارت نہ حاصل کرلے ۔ [تفسير فتح القدير 226/1]
(مجاہدؒ ، عکرمہ) مجر وانقطاع خون ہی عورت کو اس کے خاوند کے لیے حلال کر دیتا ہے، لیکن وہ وضوء کرے گی ۔ [أيضا]
(ابو حنیفہؒ، ابو یوسف محمدؒ) اگر دس دن گزرنے کے بعد خون منقطع ہو تو غسل سے پہلے بھی اس عورت سے جماع و ہم بستری کرنا جائز ہے اور اگر انقطاع خون دس دنوں سے پہلے ہو جائے تو غسل یا نماز کا وقت اس پر داخل ہو جانے سے پہلے اس سے جماع کرنا جائز نہیں ہے۔
(ابن حزمؒ) غسل کے بغیر بھی جماع درست ہے۔ [المحلى بالآثار 391/1]
(البانیؒ) اسی کے قائل ہیں ۔ [آداب الزفاف ص 47]
(قرطبی) اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں کہ فإذا تطهرن یعنی وہ عورتیں پانی کے ساتھ طہارت حاصل (یعنی غسل) کرلیں۔ [تفسير قرطبي 88/2]
(شوکانیؒ) انہوں نے تطهرن کا معنی غسل کرتے ہوئے غسل سے پہلے جماع کو حرام قرار دیا ہے۔ [تفسير فتح القدير 226/1]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے کیونکہ تطهرن کا راج معنی غسل ہی ہے نیز جب اباحت و تحریم دونوں کا احتمال ہو تو تحریم کو ہی مقدم کیا جاتا ہے۔