انسانی شعور، روح اور طبعی قوانین کا فلسفیانہ تجزیہ

جذبات اور کیمیائی تعاملات

انسانی جذبات، جیسے خوشی، غم، غصہ اور خوف، اکثر جسم میں ہونے والے کیمیائی تعاملات کے ذریعے ظاہر ہوتے ہیں۔
لیکن "سرشاری”، "استغنأ”، "اُنس”، "بے نیازی”، اور "سخاوت” جیسے احساسات کو صرف کیمیائی تعاملات کی بنیاد پر نہیں سمجھا جا سکتا۔
سوال یہ ہے کہ اگر کسی غریب کی مدد کرنے کے بعد سکون محسوس ہو یا دیانتداری سے کام کرنے پر تسلی ملے، تو کیا یہ بھی صرف خون میں پیدا ہونے والا کیمیکل ری ایکشن ہے؟ یقیناً نہیں۔

شعور اور دماغ: حیاتیاتی یا غیر مادی؟

ایک بحث میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ آیا انسانی ذہن اور شعور صرف حیاتیاتی دماغ تک محدود ہیں یا اس سے باہر بھی کوئی حقیقت موجود ہے؟
اگر انسانی شعور کو صرف حیاتیاتی دماغ کی پیداوار مانا جائے، تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ:

  • عقل، منطق، جذبات، اور اخلاقیات سب غیر معروضی (subjective) ہیں۔
  • یہ سب ارتقاء کے نتیجے میں محض ظاہری مظاہر (phenomena) ہیں، جن کی حقیقی معروضی حیثیت نہیں۔

ارتقاء کا معمہ اور عقل کی معروضیت

اگر ہماری عقل صرف ارتقاء کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ ہم کائنات کے نظم و ضبط کو حقیقی سمجھنے کے قابل کیسے ہوئے؟

مثال کے طور پر: اگر دو اور دو چار ہمیں منطقی لگتے ہیں، تو کیا یہ حقیقت ہے یا صرف ہمارا دماغ ہمیں ایسا محسوس کروا رہا ہے؟

نیچرل سلیکشن کے مطابق، ہمارا دماغ ارتقاء کے کسی مخصوص پیٹرن پر ترقی پذیر ہوا۔ لیکن اگر ارتقاء کا یہ پیٹرن مختلف ہوتا، تو ہم آج جو چیزیں منطقی سمجھتے ہیں، شاید وہ اس کے برعکس ہوتیں۔

انسانی آزاد مرضی اور طبعی قوانین

اسٹیون ہاکنگ نے اپنی کتاب The Grand Design میں کہا:

"یہ تصور مشکل ہے کہ انسانی مرضی آزادانہ کام کر سکتی ہے، کیونکہ ہمارے رویے طبعی قوانین کے تابع ہیں۔”

ہاکنگ نے مزید کہا کہ انسانی رویے اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان کی مکمل پیشگوئی ممکن نہیں۔
اس کے لیے انسانی جسم کے ہزار کھرب کھرب خلیات کی مکمل معلومات اور مساوات کو حل کرنا ہوگا، جس میں اربوں سال لگ سکتے ہیں۔

ہاکنگ کے اس تجزیے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر ہم طبعی قوانین کی بنیاد پر انسانی آزاد مرضی کا انکار کرتے ہیں، تو ہمیں روحانی توجیہات کا انکار کرنے کا حق بھی نہیں۔

روح اور وجود کی حقیقت

انسان کو اگر اپنے آپ کو دکھانے کے لیے کہا جائے، تو وہ اپنے جسم کے کسی حصے کی طرف اشارہ کرے گا۔
لیکن اس کے "وجود” کو مادی طور پر دکھانا ممکن نہیں۔

مثال کے طور پر: ایک کار کا برانڈ "ج” تصور کریں۔ اگر اس کار کے تمام پرزے علیحدہ کر دیے جائیں تو "ج” غائب ہو جائے گی، لیکن پرزے موجود رہیں گے۔
اسی طرح انسان کا "وجود” ایک غیبی تصور ہے، جو روح کہلاتا ہے۔

روح اور کوانٹم نظریہ

جدید سائنس میں روح کے متعلق کوانٹم نظریہ بھی زیرِ بحث آیا ہے۔

ڈاکٹر اسٹووارٹ ہیمراف اور سر روجر پینروز کے مطابق:

  • انسانی شعور دماغ کے خلیوں میں موجود "مائیکرو ٹیوبیولز” میں پایا جاتا ہے۔
  • جب دل دھڑکنا بند کر دیتا ہے اور جسمانی افعال ختم ہو جاتے ہیں، تو یہ کوانٹم معلومات فنا نہیں ہوتی بلکہ کائنات میں تقسیم ہو جاتی ہے۔
  • اگر جسم دوبارہ فعال ہو جائے، تو یہ کوانٹم معلومات واپس آ جاتی ہے۔

اس نظریے کے مطابق، موت کے بعد بھی روحانی معلومات باقی رہتی ہے، جو مذہبی عقائد کی تصدیق کرتی ہے۔

پروفیسر ہینز پیٹر ڈور کا نظریہ

پروفیسر ہینز پیٹر ڈور کے مطابق:

"یہ دنیا جو ہم دیکھتے ہیں، مادی تصور کی ایک سطح ہے۔ اس کے پیچھے ایک لامحدود حقیقت ہے جو مادی وجود سے بڑی ہے۔”

جب جسم مر جاتا ہے، تو کوانٹم معلومات یا روح فنا نہیں ہوتی بلکہ جاری رہتی ہے۔
اس طرح انسان کے "روحانی وجود” کی بقا ثابت ہوتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے