انسانی حقوق کا عالمی چارٹر: خطبہ حجۃ الوداع
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

خطبہ حجۃ الوداع ابدی حیات، انسانی تہذیب و تمدن کے اصول، حقوق انسانی کے تحفظ، عالمی امن کی تدابیر، بھائی چارہ ورواداری کی تعلیم ، عدل و انصاف کا قیام، اخوت و مساوات کی ہدایات، انسان کی معاشی بہتری و ترقی اور خوشحالی اور معاشرتی پاکیزگی و طہارت کا جامع عملی، مثالی منشور و مجموعہ قوانین ہے۔ ابی داؤ د وغیر ہم میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
”عرفہ کے دن جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے قصوا نامی اونٹنی پر کچا وہ رکھنے کو کہا، وادی کے درمیان آئے ، لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: تحقیق تمہارے خون، تمہارے اموال تم پر حرام ہیں، جس طرح تمہارا یہ دن، اس مہینہ اور اس شہر میں حرمت والا ہے۔ جاہلی سارے کام میرے قدموں کے نیچے روندے گئے، جاہلیت کے خون ختم ۔ اور پہلا خون جو میں معاف کرتا ہوں ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے، یہ بچہ بنوسعد میں دودھ پلایا جار ہا تھا کہ ھذیل نے اسے قتل کر دیا۔ جاہلیت کے سود ختم ، اور ہمارے سودوں میں سے پہلا سود جو میں ختم کرتا ہوں عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے، عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر لیا ہے، اور اسی کے حکم سے ان کی شرم گاہوں کو حلال بنایا ہے، ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ تمہارے بستروں پر کسی کو جگہ نہ دیں؟ اگر ایسا کریں تو ان کو معمولی سزا دو ۔ اور ان کے لیے تمہارے او پر ان کی خوراک اور لباس ۔ حالات کے مطابق میں تم میں اللہ کی کتاب چھوڑے جارہا ہوں۔ اگر تم نے اُسے قابو کیا تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے، اور تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا، ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے پہنچا دیا (ذمہ داری) ادا کی، اور خیر خواہی کی۔ آپ نے شہادت کی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا، اسے لوگوں کی طرف حرکت دی، اور تین بار فرمایا، اے اللہ! تو گواہ رہ ، اے اللہ ! تو گواہ رہ “
صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم : 2950۔

فقه الحديث :

مذکورہ حدیث سے درج ذیل مسائل اخذ ہوتے ہیں۔
1 : بطلان نظر یہ اشتراکیت فی الاموال اور فردی ملکیت کا احترام۔
2: جاہلی امور اور سود کے خاتمے کا اعلان ۔
3: عورتوں کے حقوق کا تحفظ ۔
4 : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے لیے حجت قاطعہ کتاب اللہ ہے۔
5 : منصب رسالت کا تحفظ ۔
6: اللہ تعالیٰ کا عرش پر علو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ یوم النحر :

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذوالحجہ کو ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا: آپ نے کہا حرمت میں کون سا دن بڑا ہے؟ لوگوں نے کہا ہمارا یہی دن ، آپ نے فرمایا، حرمت میں کون سا مہینہ بڑا ہے؟ لوگوں نے کہا، یہی ماہ، آپ نے فرمایا، حرمت میں کون سا شہر عظیم ہے، لوگوں نے کہا ہمارا یہی شہر، آپ نے فرمایا: تو تمہارے خون، تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں، جس طرح اس دن کی حرمت اس شہر میں اور اس مہینہ میں ہے۔
مسند أحمد: 3/313، رقم: 14364۔ شیخ شعیب ارنا وط نے اس کی سند کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے۔

حجتہ الوداع کے موقعہ پر ایک اور خطبہ :

سید نا سلیمان بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر فرماتے ہوئے سنا ہے:
”اے لوگو! کون سا دن زیادہ حرمت والا ہے، تین بار فرمایا ، لوگوں نے کہا، حج اکبر کا دن، آپ نے فرمایا ، پس تمہارے خون، مال ، اور عزتیں تمہارے درمیان حرام ہیں۔ اس دن اس ماہ اور اس شہر کی حرمت کی طرح خبر دار ! ہر قصور کرنے والا اپنے قصور کا خود ذمہ دار ہے، والد کا قصور اولاد پر نہیں، اور اولاد کا قصور والد پر نہیں، خبر دار ! شیطان نا امید ہو گیا ہے کہ اس شہر میں اس کی عبادت کی جائے، البتہ بعض چیزوں میں اس کی اطاعت ہوگی، جنہیں تم معمولی سمجھو گے، وہ اسی پر راضی ہو جائے گا۔ خبردار! جاہلیت کے خون موقوف ہیں۔ پہلا خون جو میں معاف کرتا ہوں حارث بن عبد المطلب کا خون ہے جسے ہذیل نے قتل کیا تھا جب کہ وہ بنولیث میں مدت رضاعت پوری کر رہا تھا، خبردار! جاہلیت کے سود وضع کر دیئے گئے ہیں، اب تم اصل مال لے سکتے ہو۔ نہ دوسروں پر زیادتی کرو۔ اور نہ تم پر زیادتی ہو۔ اے امت! کیا واقعی میں تمہیں تبلیغ کر چکا ہوں؟ تین بار فرمایا ، لوگوں نے جواب دیا ، ہاں۔ آپ نے تین بار فرمایا: اے اللہ ! گواہ رہ “
سنن ابن ماجه، کتاب المناسک، رقم: 3055۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔

مستنبط مسائل :

اس خطبہ سے درج ذیل مسائل مستنبط ہوتے ہیں۔
1 : قصاص و دیت اور دیگر قانونی معاملات میں مساوات کا حق۔
2 : جزیرۃ العرب میں کفر و شرک سے ابلیس کی مایوسی ۔
3 : مسلمانوں کی معمولی کوتا ہیوں پر ابلیس کا راضی ہونا۔
4: داعی پہلے اپنی حالت سنوارے۔
5 : اہمیت تبلیغ دین۔
آپ کا ایک اور خطبہ :
سید نا ابوحرة رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایم کی اونٹنی کی باگ پکڑے ہوئے تھا، ایام تشریق کا درمیان تھا، لوگوں کو آپ سے ہٹا رہا تھا، آپ نے ارشاد فرمایا، اے لوگو! جانتے ہو تم کس ماہ میں ہو؟ اور کس دن میں؟ اور کون سے شہر میں؟ لوگوں نے جواب دیا، حرمت کے دن میں حرمت کے شہر میں اور حرمت کے مہینہ میں ۔ فرمایا: تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں اس دن ، اس مہینہ اور اس شہر کی حرمت کی طرح تم پر قیامت تک کے لیے حرام ہیں۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا : میری بات سنو اور حیات دوام حاصل کرو ۔ خبر دار ! ظلم نہ کرو ظلم نہ کرو، ظلم نہ کرو، کسی مسلمان کا مال اس کی مرضی کے بغیر حلال نہیں ہے۔ خبردار ! خون، مال اور دور جہالت سے آمدہ مطالبے قیامت تک میرے اس قدم کے نیچے ہیں۔ پہلا خون میں جو معاف کرتا ہوں ۔ ربیعہ بن حارث کا خون ہے یہ بنولیث میں مسترضع تھا، ہذیل نے اسے قتل کر دیا۔ خبردار! جاہلی سود ختم کر دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق سب سے پہلے عباس بن عبدالمطلب کا سود وضع کیا جارہا ہے۔ تمہیں اصل مال ملے گا۔ نہ ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ خبر دارا زمانہ اس ہیئت پر آپہنچا ہے۔ جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ
(9-التوبة:36)
”مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اس کی کتاب میں بارہ ماہ ہے، اسی دن سے جس دن کہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ، ان میں چار مہینے حرمت کے ہیں۔“
یہ سیدھا نظام ہے ان میں کسی پر زیادتی نہ کرو ۔ شیطان مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی اس کی عبادت کریں گے ، ہاں !وہ لڑانے میں تمہارے بیچ رہے گا۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ان کے تم پر حقوق ہیں، اور تمہارے لیے ان پر حق ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی کو نہ بیٹھنے دیں، اور تمہاری اجازت کے بغیر تمہارے گھروں میں کسی کو نہ آنے دیں۔ اگر ان کی نافرمانی کا خطرہ محسوس کرو تو انہیں سمجھاؤ اور بستر الگ کر لو۔ اور معمولی سزا دو۔ حالات کے مطابق ان کی روزی اور لباس مرد پر ہے، تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر لیا ہے، اور اللہ کے حکم سے ان کی شرمگاہیں حلال کی ہیں۔ خبردار! جس کے پاس کسی کی امانت ہو وہ اس کی واپس کر دے آپ نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور فرمایا: خبردار! کیا میں پہنچا چکا ہوں خبردار! کیا میں پہنچا چکا ہوں؟ خبردار! کیا میں پہنچا چکا ہوں؟ پھر ارشاد فرمایا: حاضر غائب کو پہنچا دیں۔ کئی پہنچائے ہوئے سننے والے سے زیادہ سعادت مند ہوتے ہیں۔ “
مسند أحمد: 5/73، رقم: 20695۔ شیخ شعیب ارنا وط نے اسے صحیح لغیرہ کہا ہے۔

مستنبط مسائل:

مذکورہ خطبہ سے درج ذیل مسائل ماخوذ ہیں:
1 : خون و مال اور عزت کا تحفظ ۔
2 : آپ کی سنت کی اتباع میں زندگی ہے جس میں ظلم کی کوئی گنجائش نہیں۔
3 : عدل و انصاف کرنا حکم الہی ہے۔
4 : زمانہ گھوم کر پھر اپنی اصلی حالت پر آگیا ۔
5 : اداء امانت کا حکم ۔
6 : راوی حدیث کے لیے فقیہ ہونا شرط نہیں ہے۔

وسط ایام تشریق کا ایک اور خطبہ:

امام احمد رحمہ اللہ ابو نضرة رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے ایک صحابی نے حدیث بیان کی جس نے ایام تشریق کے وسط کا خطبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے ارشاد فرمایا!
”اے انسانو! تمہارا رب ایک ہے تمہارا باپ ایک ہے، خبر دار کسی عربی کو عجمی پر ، اور کسی عجمی کو عربی پر، اور کسی کالے کو سرخ پر ، اور کسی سرخ کو کالے پر تقوی کے سوا کوئی برتری نہیں ہے، کیا میں پہنچا چکا ہوں؟ ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ) جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچا چکے۔ پھر فرمایا ، یہ کون سا دن ہے؟ لوگوں نے کہا،حرمت والا دن، پھر فرمایا : یہ کون سا مہینہ ہے؟ لوگوں نے کہا حرمت والا مہینہ، پھر فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا، حرمت والا شہر، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے خون اور تمہارے مال حرام کیے ہیں، جس طرح تمہارے اس دن کی اس ماہ اور شہر میں حرمت ہے۔ کیا میں تمہیں پہنچا چکا؟ لوگوں نے جواب دیا، آپ نے پہنچا دیا ہے، فرمایا، حاضرین میرا یہ پیغام ان تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں ۔ “
مسند أحمد: 5/211، رقم: 23789۔ مجمع الزوائد، رقم: 5622۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔
امام بزاز رحمہ اللہ نے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس میں مزید الفاظ یہ ہیں ۔
”اے لوگو! جس کے پاس کوئی امانت ہے وہ اس کے مالک کو پہنچا دے۔اے لوگو ! شیطان مایوس ہو چکا ہے کہ آخر زمانہ تک ان بلاد میں اس کی عبادت کی جائے ، وہ تمہاری معمولی غلطیوں پر راضی ہوگا۔ اپنے دین کے بارے میں معمولی سمجھے ہوئے برے کاموں سے محتاط رہو۔“
مسند بزار رقم: 1141۔
امام طبرانی ، عداء بن خالد سے روایت کرتے ہیں کہ حجتہ الوداع کے دن آپ ممبر پر چڑھے اللہ کی حمد وثنا کی اور فرمایا:
”یقینا اللہ فرماتا ہے اے لوگو! ہم نے تم کو مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور ہم نے تمہیں کنبے اور قبائل بنایا، تا کہ ایک دوسرے کو پہچان لو تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ پس کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر اور کالے کو سرخ پر اور سرخ کو کالے پر کوئی برتری نہیں ہے۔ سوا تقومی کے۔ اے جماعت قریش! تم دنیا کو اپنی گردنوں پر لاد کر نہ آنا جب کہ دوسرے لوگ اعمال آخرت کے ساتھ آئیں گے۔ میں تم سے اللہ کا عذاب نہیں روک سکوں گا۔ “
طبرانی کبیر: 12/18، 13۔
نیز امام طبرانی، ابوقبیلہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے موقعہ پر لوگوں میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ پس تم اپنے رب کی عبادت کرو۔ پانچ نمازیں قائم کرو، رمضان کے روزے رکھو، حکام وقت کی اطاعت کرو، پھر اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ۔
طبرانی کبیر : 716/22، مجمع الزوائد رقم: 5647۔ علامہ ہیثمی نے اس کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے۔

مستنبط مسائل:

مذکور حدیث سے درج ذیل مسائل اخذ ہوتے ہیں ۔
1 : حقوق اللہ کی پاسداری۔
2 : انسانوں میں تقوی کے سوا کسی دوسری بات میں تفاضل نہیں ہے۔
3: ایمانی اخوت افضل ہے۔
4 : عمل کے مقابلہ میں نسب کی کوئی حیثیت نہیں۔
5 : عمل کے بغیر نسب غیر مفید ہے۔
6 : سلسلہ نبوت آپ پر ختم ہے۔
7 : حکام وقت کی اطاعت کا حکم۔
8: شیطان کا اپنی عبادت سے مایوس ہونا ۔
9 : معمولی کوتاہی سے بھی پر ہیز کرنا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے