انسانیت کو تہذیب کا لباس پہناتی نبوی ﷺ تعلیمات
حامد کمال الدین

یہ ہیں وہ نبی جو اخلاق کی بلند ترین مثال بن کر آئے اور جنہوں نے انسانیت کے برہنہ وجود کو تہذیب کا لباس دوبارہ پہنایا۔ ظلم و استحصال کے ہر پہلو کا خاتمہ کیا اور ہر طرح کے استحصال کی جڑیں کاٹیں – چاہے وہ دین کا استحصال ہو، اخلاق کا، تہذیب کا یا حق کا۔ ظلم اور جہالت کی ہر قسم اپنے عروج پر تھی، مگر خدا کے آخری رسول نے کسی بھی صورت کو مٹائے بغیر نہ چھوڑا۔

خدا کے نام پر استحصال

سب سے بڑا جھوٹ وہ ہے جو خدا کے نام پر بولا جائے، اور سب سے بڑا ظلم وہ ہے جو خدا کے نام پر کیا جائے۔ انسان پر ظلم اور جہالت کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا تھا کہ اُس کی روح، فکر، عقل اور ضمیر کو دفن کردیا گیا تھا، اور بدبختی یہ تھی کہ یہ سب خدا کے نام پر ہورہا تھا۔

تاریخ ہمیں ہر قوم، ہر مذہب اور ہر معبد کی داستانیں سناتی ہے، جہاں ظلم و بربریت کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ سن کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے۔ جب محمد ﷺ نے تہذیب کو اس کا حق واپس دلایا تو دنیا نے دیکھا کہ ہر مذہب اپنے ننگ کو چھپانے پر مجبور ہوگیا۔ محمدی بعثت کے نتیجے میں دنیا کا ہر مذہب اور ہر مذہبی رویہ ایک نئے ارتقا سے گزرا اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔

عورت کی حرمت اور انسانی تہذیب کا انقلاب

کہاں وہ زمانہ کہ کعبہ میں بت پرستی کے ساتھ برہنہ طواف کیا جاتا تھا، اور خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے مردوں کے ساتھ عورتیں بھی عریاں ہو کر طواف کرتی تھیں۔ اور کہاں وہ لمحہ کہ مکہ فتح ہوتا ہے، بیت اللہ سے بتوں کو مٹا دیا جاتا ہے اور پورا عرب اس نظارے کو حیرت سے دیکھتا ہے۔ جزیرۂ عرب آج اس نبی کے ساتھ کھڑا ہے۔

عورت کی حرمت اور معاشرتی استحصال کا خاتمہ

قبل از اسلام معاشرہ عورت کو بازار کی جنس سمجھتا تھا، جس کی کمائی معاشرے کے معزز افراد کے لیے ایک ذریعۂ آمدن تھی۔ لیکن جب یہ نبی یثرب میں قدم رکھتے ہیں، تو یہ استحصالی کاروبار ختم کرنے کا اعلان ہوتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاء إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَۃ الدُّنْيَا (النور:33)
”اور اپنی لونڈیوں کو پیشے پر مجبور مت کرو، جبکہ وہ عصمت کی زندگی گزارنا چاہیں، اِس لئے کہ تم کو دنیا کی زندگی کا مفاد مطلوب ہے۔“

یہ وہی نبی ہیں جن کی تعلیمات آج بھی دنیا کے ایک بڑے حصے میں عقیدت سے مانی جاتی ہیں۔ ان کی تعلیمات جب دل کی گہرائیوں میں اترتی ہیں تو زمیں پر پاکیزگی اور اخلاق کا دور آ جاتا ہے۔

شہر یثرب سے مدینہ تک کا سفر

محمد ﷺ کے قدموں کی برکت سے یثرب مدینہ کہلانے لگتا ہے، جس سے تمدن اور مدنیت کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ مدینہ، ایک ایسا معاشرہ بن جاتا ہے جو دنیا کی تہذیب کا معیار بننے والا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:

”بخدا، کتاب اللہ کی تصدیق کرنے اور تنزیلِ خداوندی پہ ایمان رکھنے میں میں نے انصارِ مدینہ کی عورتوں سے بڑھ کر کسی کو نہ پایا۔ سورہ نور کی آیت ’پس چاہیے یہ اپنے سروں کی چادروں سے اپنے سینے ڈھانپ لیں اور اپنے سنگھار کی نمائش نہ ہونے دیں‘ نازل ہوئی۔ ان کے آدمی خدا کی اِس وحی کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹے۔ ایک ایک آدمی اپنی بیوی، اپنی بیٹی، اپنی بہن اور اپنی ہر رشتہ دار کو خدا کا حکم سنا رہا تھا۔ تب کوئی عورت نہ رہی جس نے اپنی چادر نہ اٹھا لی ہو اور اُس میں لپٹ سمٹ نہ گئی ہو۔ اگلی صبح یہ سب کی سب، چادروں میں لپٹی رسول اللہ کے پیچھے کھڑی تھیں، گویا ان کے سروں پر کوّوں کے غول ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر، سورۃ نور)

مدینہ اور معاشرتی پاکیزگی

عرب معاشرے میں شراب نوشی عام تھی، اور اس کی موجودگی اس حد تک تھی کہ عربی زبان میں شراب کے ڈھائی سو نام تھے۔ مگر جب اس نبی کے معاشرے میں آسمان سے یہ آیت نازل ہوئی کہ ’لوگو! شراب حرام کر دی گئی‘ تو شراب کو ہاتھ لگانے والوں نے اپنے جام چھوڑ دیے، صراحیاں توڑ دیں، اور مدینہ کی گلیوں میں شراب بہا دی گئی۔ امام بخاری فرماتے ہیں:

فَجَرَت فِی سِکَکِ المَدِینَۃ
”تب مدینہ کی گلیوں میں شراب بہتی پھرتی تھی۔“

جاہلیت کا خاتمہ اور نور کی روشنی

کہاں وہ جاہلیت کا تاریک دور اور کہاں یہ آسمانی کتاب، جس نے عورت کو ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کی شکل میں معاشرے میں اعلیٰ مقام دیا۔ سورۃ نور، جسے ”روشنی“ کہا گیا، چودہ سو سال سے ہر مومن کے گھر میں تلاوت ہوتی ہے اور جو عورت کی عزت کے خلاف کھڑے ہونے والوں کے لیے آج بھی باعثِ عار ہے۔

یہ ہیں محمد ﷺ کے احکامات اور ان کی تعلیمات، جو معاشرتی برائیوں کے خلاف آج بھی ایک مضبوط معیار اور روشن مثال ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1