امام کے سکتات میں مقتدی کا سورہ فاتحہ پڑھنا
یہ اقتباس شیخ بدیع الدین شاہ راشدی کی کتاب فاتحہ خلف الامام سے ماخوذ ہے۔

امام کے سکتات میں مقتدی کا سورہ فاتحہ پڑھنا

اس کے متعلق پہلے حدیثیں ملاحظہ ہوں:
1. ابوداؤد صفحہ 113 جلد 1 باب السکتہ عند الافتتاح میں ہے:
«وحدث سمره بن جندب انه حفظ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم سكتتين سكته اذا كبر و سكته اذا فرغ من قرأه غير المغضوب عليهم ولا الضالين»
یعنی سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سکتے یاد کئے۔ ایک سکتہ جب آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع کرتے اور دوسرا سکتہ جب آپ غير المغضوب عليهم ولا الضالين کے پڑھنے سے فارغ ہوتے۔
دوسری حدیث میں ہے:
قال سمره حفظت سكتتين فى الصلاة سكته اذا كبر الامام حتي يقرأ سكته اذا فرغ من فاتحة الكتاب و سوره عند الركوع
یعنی سمرہ کہتے ہیں کہ میں نے نماز میں دو سکتے یاد کئیے۔ ایک جب امام تکبیر تحریمہ کہے جب تک قراءت شروع کرے، دوسرا سکتہ رکوع کے وقت جب فاتحہ اور سورت سے فارغ ہو۔
2. ابن ماجہ صفحہ 61 باب فی سکتتین الامام میں ہے:
«عن سمره بن جندب قال سكتتان حفظت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فانكر ذلك عمران بن الحصين فكتبتا الي ابي بن كعب بالمدينه فكتب ان سمره قد حفظ قال سعيد فقلنا لقتاده ما هاتان السكتتان قال اذا دخل فى صلاته و اذا فرغ من القرأه ثم قال بعد و اذا قرأ غير المغضوب عليهم والضالين قال كان يعجبهم اذا فرغ من القرأه ان يسكت حتي يترأ اليه نفسه»
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سکتے یاد کئیے جس پر عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے انکار کیا۔ راوی کہتا ہے کہ ہم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ سمرہ رضی اللہ عنہ نے واقعی یاد کیا ہے۔ راوی سعید کہتا ہے کہ ہم نے قتادہ سے کہا کہ یہ دو سکتے کون سے ہیں؟ کہا کہ جب نماز میں داخل ہو اور جب قراءت سے فارغ ہو۔ اس کے بعد کہا کہ جو غير المغضوب عليهم والضالين کہے اور ان کو یہ پسند تھا کہ جب قراءت سے فارغ ہو تو تھوڑی دیر خاموش رہے تاکہ سانس اس کی طرف واپس لوٹ آئے۔
3. جزء القراءۃ للبخاری صفحہ 29 میں ہے:
عن عبدالله بن عثمان بن خيثم قال قلت لسعيد بن جبير اقرأ خلف الامام قال نعم و ان سمعت قراءته انهم قد احدثوا ما لم يكونوا يصنعونه ان السلف كان اذا ام احدهم الناس كبر ثم انصت حتي يظن ان من خلفه قد قرأ فاتحة الكتاب ثم قرأ و انصتوا
عبداللہ بن عثمان بن خیثم سے روایت ہے کہ میں نے سعید بن جبیر سے پوچھا کیا میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟ کہا: ہاں، اگرچہ اس (امام) کی قراءت سنتے بھی ہو۔ انہوں نے وہ نیا کام کیا ہے جو سلف (صحابہ) نہیں کرتے تھے۔ ان کا تو یہ طریقہ تھا کہ جو بھی ان کی امامت کرتا تھا تو وہ تکبیر کہہ کر خاموش ہو جاتا تھا جب تک یہ خیال کرتا کہ پیچھے والوں نے سورہ فاتحہ پڑھ لی ہے، پھر امام پڑھتا، وہ خاموش ہو جاتے۔
4. جزء القراءۃ للبیہقی صفحہ 70 میں ہے:
«عن ابي هريره رضى الله عنه قال كل صلاة لا يقرأ فيها بأم الكتاب فهي خداج ثم هي خداج فقال بعض القوم فكيف اذا كان الامام يقرأ قال ابو سلمه للامام سكتتان فاغتنموهما سكته حين يكبر و سكته حين يقول غير المغضوب عليهم ولا الضالين»
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ خداج اور ناقص ہے۔ تو قوم میں سے کسی نے سوال کیا کہ جب امام پڑھ رہا ہو تو کیا کرے؟ سلمہ نے جواب دیا کہ امام کے دو سکتے ہیں، ان سے فائدہ لے لو۔ ایک جب تکبیر تحریمہ کہے، دوسرا جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے۔
فائدہ: یہ جواب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے تھا، انہوں نے کوئی انکار نہیں کیا، پس اس کا بھی یہی فیصلہ ہے۔
5. مستدرک حاکم صفحہ 232 جلد 2 میں ہے:
«عن ام سلمه رضي الله عنها قالت ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يقطع قرأته آيه آيه الحمد لله رب العالمين ثم يقف الرحمن الرحيم ثم يقف»
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قراءت کرتے وقت آیت آیت جدا کرتے۔ الحمد لله رب العالمين کہہ کر ٹھہر جاتے، پھر الرحمٰن الرحيم کہہ کر ٹھہر جاتے۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ متعدد سکتات مسنون ہیں۔ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد اور پھر سورہ فاتحہ پوری کرنے کے بعد اور پھر پوری قراءت کرنے کے بعد یعنی رکوع سے قبل۔ اس طرح ہر آیت کے بعد تھوڑا سا وقفہ، انہی حالتوں میں مقتدی جب چاہے پوری سورت فاتحہ یا آیت آیت کر کے پڑھ سکتا ہے۔ تابعین رحمہم اللہ نے صحابہ کے عمل سے یہی سمجھا جیسا کہ سعید بن جبیر اور ابو سلمہ کا قول ذکر ہوا اور ابو سلمہ کے قول کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بھی تائید ہے، نیز عروہ کا قول آپ نے بھی ذکر کیا ہے۔ نیز ابو داؤد صفحہ 120 جلد 1 میں ہے:
«قال مكحول اقرأ فيما جهر به الامام اذا قرأ بفاتحة الكتاب و سكت سرا فان لم يسكت اقرأ بها قبله و معه و بعده لا تتركها على حال»
یعنی مکحول فرماتے ہیں کہ امام جب جہری نماز میں سورہ فاتحہ پڑھ کر خاموش ہو، تم بھی آہستہ پڑھ لیا کرو۔ اگر خاموش نہ ہو، تب بھی اس سے قبل یا بعد یا اس کے ساتھ پڑھ لیا کرو اور کسی حال میں بھی نہ چھوڑو۔
آپ نے جزء القراءۃ سے صحابہ کا عمل ذکر کیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوتے تو وہ پیچھے پڑھتے اور جب آپ پڑھتے تھے تو وہ خاموش ہوتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ امام کو سکتات کرنے ہیں تاکہ مقتدی بآسانی سورہ فاتحہ پڑھ سکے۔ اور اہل حدیث حدیث کو قرآن پر مقدم نہیں کرتے، بلکہ حدیث کو قرآن کی تفسیر جانتے ہیں اور اس کی روشنی میں قرآن کو سمجھتے ہیں، یہی صحابہ کا معمول تھا۔ چنانچہ مسلم صفحہ 395 جلد 1 مع النووی میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر حج کا ذکر ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں:
«رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اظهرنا وعليه ينزل القرآن و هو يعرف تأويله و ما عمل من شيء عملنا به»
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تھے اور آپ ہی پر قرآن نازل ہو رہا تھا اور آپ ہی اس کی تفسیر کو جانتے تھے اور جو آپ عمل کرتے، ہم وہی کرتے۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں یہ قرآن کے خلاف نہیں ہے اور آیت ﴿اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا﴾ میں فاتحہ کی کوئی منع نہیں ہے اور وہ مطلق ہے اور احادیث میں خاص فاتحہ کا ذکر ہے، لہذا دونوں پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ فاتحہ کا حکم جدا سمجھنا چاہئیے۔ اگر اس آیت میں فاتحہ کی بھی ممانعت ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز حکم نہ دیتے، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو کہ ہم سے قرآن کے زیادہ عالم اور جاننے والے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے مقتدیوں کے لئے یہ حکم سنا کہ” جب میں جہر سے قرآن پڑھوں تو تم قرآن مجید سے کچھ نہ پڑھو سوائے سورہ فاتحہ کے، اس لئے کہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی“ جیسا کہ آپ نے بھی نقل کیا ہے، تو کسی صحابی نے یہ عرض نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن میں تو یہ حکم ہے کہ ”جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے“ ۔ اب ہم قرآن کے دونوں حکموں کی کیسے خلاف ورزی کریں یعنی نہ سنیں نہ خاموش رہیں۔ کسی نے یہ خدشہ پیش نہیں کیا کیونکہ وہ سمجھ گئے کہ اس قرآنی حکم میں فاتحہ کی منع نہیں ہے، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم نہیں دیتے۔ اس کی مثال دوسری سنیئے۔ صحیح بخاری صفحہ 749 جلد 2 میں ابو سعید بن معلی سے روایت ہے کہ:
قال كنت اصلي فدعاني النبى صلى الله عليه وسلم فلم اجبه قلت يا رسول الله اني كنت اصلي قال ألم يقل الله ﴿اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ﴾
یعنی میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر میں نے یہ عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) میں نماز پڑھ رہا تھا (یعنی نماز میں سکوت سے رہنا ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو جواب دو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جواب دو جب بھی آپ کو بلائے۔
اور سنن ترمذی صفحہ 111 جلد 2 ابواب فضائل القرآن باب ما جاء فی فضل فاتحۃ الکتاب میں بھی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا اس طرح کا واقعہ ہے:
عن ابي هريره رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج على ابي بن كعب فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم يا ابي و هو يصلي فالتفت ابي و لم يجبه و صلى ابي فخفف ثم انصرف الي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال السلام عليك يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم و عليكم السلام ما منعك يا ابي ان تجيبني اذ دعوتك فقال يا رسول الله اني كنت فى الصلاة قال ألم تجد فيما اوحي الله الي ان استجيبوا لله وللرسول اذا دعاكم لما يحييكم قال بلي و لا اعود ان شاء الله
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابی بن کعب کی طرف نکلے اور اسے بلایا اور وہ نماز پڑھ رہا تھا اور جواب نہیں دیا۔ پھر ہلکی نماز کر کے پوری کی اور آپ کے پاس آ کر سلام کہا تو آپ نے اس کا جواب دے کر فرمایا: جب میں نے تجھے بلایا تو کس نے تجھے جواب دینے سے روکا؟ عرض کیا کہ میں نماز میں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ جو میرے پاس وحی آئی ہے اس میں تو یہ حکم نہیں پایا کہ اللہ کو جواب دو اور اس کے رسول کو جب بھی تم کو بلائے؟ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔
اب ظاہر ہے کہ اس آیت میں نماز کا کوئی ذکر نہیں، لیکن چونکہ ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ آپ ہی قرآن کو جاننے والے ہیں اور آپ ہی کی تعلیمات کی روشنی میں اس کو سمجھنا ہے، اس لئے باوجود اس کے کہ اس کو پتہ تھا کہ نماز میں کلام کرنے یا جواب دینے نہیں ہیں، لیکن اپنی فہم کو غلط سمجھا اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کیا۔ احادیث میں ایسی کئی مثالیں مل سکتی ہیں۔ فيما نحن فيه میں ایسا ہی سمجھنا چاہئیے۔ اگر قرآن کریم میں صریحاً خاص فاتحہ کی منع ہوتی تو پھر قرآن و حدیث میں معاذ اللہ تعارض سمجھا جاتا، بلکہ ایک مطلق حکم ہے اور حدیث میں تو صراحت اور خصوصی حکم ہے، لہذا وہ قرآن کی وضاحت ہے نہ کہ معارض یا مخالف۔
آپ نے خود ”فوائد ستاریہ“ سے نقل کیا ہے کہ ”ابتداء میں صلاۃ پڑھتے ہوئے باتیں کر لیا کرتے تھے۔“ اس سے خود ہی ثابت ہوا کہ یہ آیت اگرچہ نماز کے بارے میں تسلیم کی جائے لیکن قراءت کے بارے میں نہیں، کلام کے بارے میں ہے، پس تعارض کا تو تصور ہی نہیں رہا۔ خود فوائد ستاریہ صفحہ 280 میں پوری عبارت اس طرح ہے: ”نماز میں لوگ باتیں کیا کرتے تھے، اس پر یہ آیت اتری اور باتوں کی ممانعت ہوئی۔“ پس اس عبارت سے ہی فیصلہ ہو گیا کہ آیت میں کلام کرنے کی ممانعت ہے نہ کہ فاتحہ پڑھنے کی۔ اور حدیث میں فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے نہ کہ کلام کرنے کا۔ اس لئے کوئی تعارض نہیں۔ اور اہل حدیث پر الزام صحیح نہیں ہوا کہ وہ قرآن پر اپنی سمجھ سے حدیث کو مقدم کرتے ہیں۔ الفرض سکتات میں پڑھنے کا حکم اس حکم کو متضمن ہے کہ امام کو سکتات کرنا ضروری ہیں۔ و ما لا يتم الواجب الا به واجب پس مقتدی امام کے سکتات میں، اس سے پہلے یا درمیان میں یا آخر میں، پورے قیام میں رکوع تک تک سورہ فاتحہ پوری کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جہری نماز میں امام کے پیچھے فاتحہ کے علاوہ اور کچھ پڑھنے کی منع ہے نہ کہ فاتحہ کی، کیونکہ الفاظ یہ ہیں جیسا کہ آپ نے ابو داؤد اور دارقطنی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ:
فلا تقرؤوا بشيء من القرآن اذا جهرت الا بأم القرآن فانه لا صلاة لمن لم يقرأ بها
اور اذا جهرت سے بالکل واضح ہے۔ اور دارقطنی صفحہ 319 جلد 1 میں یہ الفاظ ہیں:
قال هل تقرؤون فى الصلاة معي قلنا نعم قال فلا تفعلوا الا بفاتحة الكتاب
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نماز میں میرے ساتھ ساتھ پڑھتے ہو؟ ہم نے کہا ہاں! فرمایا کہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھو۔
ثابت ہوا کہ فاتحہ کے پڑھنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہاں البتہ سکتات میں پڑھنے کا حکم ہے۔ اگر موقعہ نہیں ملتا تو بھی فاتحہ کو چھوڑنا نہیں، ہر حال میں پڑھنا ہے جیسا کہ مکحول تابعی کا قول گزرا اور یہی حدیث کے الفاظ کا تقاضا ہے۔
و ما لا يدريك كله لا يثترك كله
والله يقول الحق وهو يهدي السبيل

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1