سوال : ہمارے یہاں مسجد کا ایک امام ہے جو صلاۃِ تراویح میں بہت جلد بازی سے کام لیتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس عظیم فرصت میں ہم دعا پڑھ سکتے ہیں نہ تسبیح اور نہ خشوع و خضوع حاصل ہو پاتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ صرف ’’ تشہدِ اول“ أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً عبده ورسوله (یعنی میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں) پڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ بس یہی کافی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں پڑھتا ہے اور اسے زیادتی تصور کرتا ہے۔ رہا معاملہ قرآنی آیات پڑھنے کا تو صرف ایک یا دو آیتیں پڑھتا ہے آپ سے امید ہے کہ اس سلسلہ میں اپنی گرانقدر نصیحت سے نوازیں گے۔ جزاکم اللہ خیراً۔
جواب : ائمۂ مساجد کے لئے صلاۃِ تراویح اور صلاۃِ فرض میں اطمینان و سکون، قرأت میں ترتیل، رکوع و سجود میں خشوع، رکوع کے بعد اور دونوں سجدوں کے درمیان کامل اعتدال، فرض و نفل تمام صلوات میں مشروع ہے۔ اور اطمینان و سکون فرض ہے، اس کی پابندی ضروری ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیحین میں ثابت ہے۔
کہ آپ نے ایک آدمی کو بے اطمینانی کے ساتھ صلاۃ ادا کرتے ہوئے دیکھا تو اسے صلاۃ دہرانے کا حکم دیا اور رکوع و سجود میں اطمینان و سکون اور رکوع کے بعد اور دونوں سجدوں کے درمیان اعتدال کے واجب ہونے کی طرف اس کی رہنمائی کی۔
پس ائمۂ مساجد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ترتیل کے ساتھ (ٹھہر ٹھہر کر) قرآن پڑھیں اور اس میں خشوع کا لحاظ رکھیں۔ تاکہ وہ خود اور ان کے پیچھے قرأت سننے والے بھی اس سے مستفید ہوں۔ اور وہ اس سے دلوں میں حرکت پیدا کر کے انہیں جھنجھوڑ دیں۔ تاکہ دلوں میں خشوع و خشیت اور رجوع و انابت پیدا ہو جائے۔
اور اماموں اور مقتدیوں سب پر واجب ہے کہ تشہد کے بعد اور سلام پھیرنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودِ ابراہیمی پڑھیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے پڑھنے کا حکم ثابت ہے۔ اور اہلِ علم کی ایک جماعت اس کی فرضیت کی قائل ہے۔ لہٰذا امام اور مقتدی کسی کے لئے صلاۃ اور اس کے علاوہ دیگر مسائل حیات میں شریعت مطہرہ کی مخالفت جائز نہیں ہے۔
اسی طرح ہر مصلی کے لئے خواہ امام ہو یا مقتدی یا منفرد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد اور سلام پھیرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذریعہ عذابِ جہنم، عذابِ قبر، حیات و موت کے فتنہ اور مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگنا چاہیے۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا خود کرتے تھے اور امت کو اس دعا کے پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔
اور سلام سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ مشہور دعا پڑھنی چاہیے جس کی آپ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو ہر صلاۃ کے بعد پڑھنے کی وصیت فرمائی تھی اور وہ یہ ہے :
اَللّٰهُمَّ أَعِنِّي عَلٰي ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ
’’ اے اللہ ! تو اپنے ذکر اور اپنی شکر گزار ی اور اپنی اچھی عبادت پر میری مدد فرما“۔
اور توفیق دینے والاصرف اللہ تعالیٰ ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ“
جواب : ائمۂ مساجد کے لئے صلاۃِ تراویح اور صلاۃِ فرض میں اطمینان و سکون، قرأت میں ترتیل، رکوع و سجود میں خشوع، رکوع کے بعد اور دونوں سجدوں کے درمیان کامل اعتدال، فرض و نفل تمام صلوات میں مشروع ہے۔ اور اطمینان و سکون فرض ہے، اس کی پابندی ضروری ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیحین میں ثابت ہے۔
کہ آپ نے ایک آدمی کو بے اطمینانی کے ساتھ صلاۃ ادا کرتے ہوئے دیکھا تو اسے صلاۃ دہرانے کا حکم دیا اور رکوع و سجود میں اطمینان و سکون اور رکوع کے بعد اور دونوں سجدوں کے درمیان اعتدال کے واجب ہونے کی طرف اس کی رہنمائی کی۔
پس ائمۂ مساجد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ترتیل کے ساتھ (ٹھہر ٹھہر کر) قرآن پڑھیں اور اس میں خشوع کا لحاظ رکھیں۔ تاکہ وہ خود اور ان کے پیچھے قرأت سننے والے بھی اس سے مستفید ہوں۔ اور وہ اس سے دلوں میں حرکت پیدا کر کے انہیں جھنجھوڑ دیں۔ تاکہ دلوں میں خشوع و خشیت اور رجوع و انابت پیدا ہو جائے۔
اور اماموں اور مقتدیوں سب پر واجب ہے کہ تشہد کے بعد اور سلام پھیرنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودِ ابراہیمی پڑھیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے پڑھنے کا حکم ثابت ہے۔ اور اہلِ علم کی ایک جماعت اس کی فرضیت کی قائل ہے۔ لہٰذا امام اور مقتدی کسی کے لئے صلاۃ اور اس کے علاوہ دیگر مسائل حیات میں شریعت مطہرہ کی مخالفت جائز نہیں ہے۔
اسی طرح ہر مصلی کے لئے خواہ امام ہو یا مقتدی یا منفرد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد اور سلام پھیرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذریعہ عذابِ جہنم، عذابِ قبر، حیات و موت کے فتنہ اور مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگنا چاہیے۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا خود کرتے تھے اور امت کو اس دعا کے پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔
اور سلام سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ مشہور دعا پڑھنی چاہیے جس کی آپ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو ہر صلاۃ کے بعد پڑھنے کی وصیت فرمائی تھی اور وہ یہ ہے :
اَللّٰهُمَّ أَعِنِّي عَلٰي ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ
’’ اے اللہ ! تو اپنے ذکر اور اپنی شکر گزار ی اور اپنی اچھی عبادت پر میری مدد فرما“۔
اور توفیق دینے والاصرف اللہ تعالیٰ ہے۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃ اللہ علیہ“