امام الانبیاء ﷺ کے اخلاق حسنہ کا دل آویز تذکرہ
تحریر: قاضی محمد سلیمان منصور پوری ؒ

خلق محمدی علی صاحباھا الصلوۃ و السلام

ایک ایسے ملک میں جہاں کوئی حکومت اور قانون نہ ہو ۔ جہاں خونریزی اور قتل معمولی بات ہو۔ جہاں کے باشندے وحشت اور غارت گری میں درندوں کے مشابہ ، جہالت اور لایعقلی میں انعام سے بدتر ہوں ایک ایسے دعویٰ کا پیش کرنا جو تمام ملک کے نزدیک عجیب اور جملہ قبائل میں مخالفت کی فوری آگ لگا دینے والا ہو ، کچھ آساں نہ تھا۔ پھر اس دعویٰ کا ایسی حالت میں سرسبز ہو تا کہ کروڑوں اشخاص کی انتہائی مخالفت اس کے ملیامیٹ کرنے پر دل سے ، جان سے ، زر سے ، مال سے سالہا سال متفق رہی ہو ۔ بالکل تائید ربانی کا ثبوت ہے۔
نبی ﷺ کے اخلاق و محاسن، صفات و محامد کی چمک ایسی نمایاں ہے جیسے ریت میں کندن اور ان واقعات ہی سے یہ پتہ لگتا ہے کہ مظلومی وبیچارگی اور قوت و سطوت کی متضاد حالتوں میں یکساں سادگی و غربت کے ساتھ زندگی پوری کرنے والا صرف وہی ہو سکتا ہے جس کے دل پر ناموس الہی نے قبضہ کر لیا ہو اور اسے علائق دنیوی سے پاک کر دیا ہو۔
نبی ﷺ کی زندگی کے مبارک واقعات ہر ملک اور ہر طبقہ کے فرد اور جماعتوں کے لیے بہترین نمونہ اور مثال ہیں۔ اس بات کے تحت میں مختصر طور پر نبی کریم ﷺ کے اخلاق کا جو علمنی ربی فاحسن تادیبی کے مصداق ہیں ذکر کروں گا۔ خلق محمدی ﷺ ایسا لفظ ہے کہ اب بہترین بزرگوں کو عادات و اخلاق ، اطوار و شمائل کے اظہار کے لیے مشبہ بہ بن گیا ہے۔ میں اس جگہ کمالات نبوت اور خصوصیات نبویہﷺ کا ذکر نہیں کروں گا۔ صرف وہ سادہ حالات لکھنے مقصود ہیں جن کو کوئی سعادت مندازلی اپنے لیے نمونہ بنا سکتا ہے۔
لقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةً
تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کا بہترین نمونہ موجود ہے۔
سید نا محمد رسول اللہ ﷺ امی تھے ، لکھنا پڑھنانہ جانتے تھے اور بعثت و نبوت کے زمانے تک کسی عالم کی صحبت بھی میسر نہ ہوئی تھی۔ تیرافگنی ، شہسواری، نیزہ بازی، سجع گوئی، قصیدہ خوانی، نسب دانی اس زمانے کے لیے ایسے فنون تھے جنہیں شریف خاندان کا ہر ایک نوجوان حصول شہرت و عزت کے لیے ضرور سیکھ لیا کرتا تھا اور جن کے بغیر کوئی شخص، ملک اور قوم میں عزت یا کوئی امتیاز حاصل نہ کر سکتا تھا۔ نبی ﷺ نے ان فنون میں سے کسی کو بھی (اکتسابا) حاصل نہ کیا تھا اور نہ کسی پر اپنی دل چسپی کا اظہار کیا تھا۔ نبی ﷺ کی نسبت فرنج پروفیسر سیڈیو لکھتا ہے:
نبی کریم خندورو، ملنسار، اکثر خاموش رہنے والے، بکثرت ذکر اللہ کرنے والے ، لغویات سے دور، بیہودہ پن سے نفور ، بہترین رائے اور بہترین عقل والے تھے۔“
انصاف کے معاملے میں قریب و بعید نبی کریم ﷺ کے نزدیک برابر ہوتا تھا، مساکین سے محبت فرمایا کرتے تھے۔ غرباء میں رہ کر خوش ہوتے، کسی فقیر کو اس کی تنگ دستی کی وجہ سے حقیر نہ سمجھا کرتے اور کسی بادشاہ کو بادشاہی کی وجہ سے بڑا نہ جانتے ، اپنے پاس بیٹھنے والوں کی تالیف قلوب فرماتے۔ جاہلوں کی حرکات پر صبر فرمایا کرتے ۔ کسی شخص سے خود علیحدہ نہ ہوتے جب تک کہ وہی نہ چلا جائے۔ صحابہ سے کمال محبت فرمایا کرتے۔ سفید زمین پر بلا کسی (مسند و فرش کے) نشست فرمایا کرتے اپنے جوتے کو خود گانٹھ لیتے ، اپنے کپڑے کو خود پیوند لگا لیتے تھے۔ (خلاصه تاریخ العرب پر وفیسر سیڈیو ص ۴۲)
دشمن و کافر سے بکشادہ پیشانی ملا کرتے تھے۔ (شفاء عیاض ص ۳۱۳) .
حجۃ الاسلام غزالی لکھتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ مویشی کو چارہ خود ڈال دیتے۔ اونٹ باندھتے، گھر میں صفائی کر لیتے، بکری دوہ لیتے ، خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھا لیتے ، خادم کو اس کے کام کاج میں مدد کرتے، بازار سے چیز خود جا کر خرید لیتے ، خود اسے اٹھالاتے ، ہر اولٰی واعلٰی خرد و بزرگ کو سلام پہلے کر دیا کرتے ، جو کوئی ساتھ ہو لیتا اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر چلا کرتے، غلام و آقا، حبشی و ترکی میں ذرا تفاوت نہ کرتے ، رات دن کا لباس ایک ہی رکھتے ، کیسا ہی کوئی حقیر شخص دعوت کے لیے کہتا قبول فرمالیتے ، جو کچھ کھانا سامنے رکھ دیا جاتا اسے برغبت کھاتے ، رات کے کھانے میں سے صبح کے لیے اور صبح کے کھانے میں سے شام کے لیے اٹھا نہ رکھتے۔ نیک خو، کریم الطبع، کشادہ روتھے، مگر ہنستے نہ تھے ، اندو ہگیں تھے ، مگر ترش رونہ تھے ، متواضع، جس میں دنایت نہ تھی، باہیت، جس میں درشتی نہ تھی، سخی تھے ، مگر اسراف نہ تھا، ہر ایک پر رحم فرمایا کرتے، کسی سے کچھ طبع نہ رکھتے، سر مبارک کو جھکائے رکھتے تھے۔ (کیمیائے سعادت مصنفہ امام غزالی التوفی ۵۰۵ هجری) ص ۲۸۰ مطبوعه نول کشور (۱۸۸۲ء)
شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں: جو کوئی شخص نبی کریم ﷺ کے سامنے یکبارگی آجاتا، وہ ہیبت زدہ ہو جاتا اور جو پاس آبیٹھتا وہ فدائی بن جاتا۔
( یہ فقرہ سید نا علی مرتضی ؓ کے کلام کا ترجمہ ہے ، فرماتے ہیں: (من راه بهدیه هابه دمن خالطه محبةعشقه) کنبہ والوں اور خادموں پر بہت زیادہ مہربان تھے۔ انس ؓ نے دس سال تک خدمت کی اس عرصہ میں انہیں بھی اف (ہونھ ) تک نہ کہا۔ زبان مبارک پر کبھی کوئی گندی بات یا گالی نہیں آتی تھی۔ نہ کسی پر لعنت کیا کرتے تھے۔ دوسرے کی اذیت و آزار پر نہایت صبر کیا کرتے۔ خلق خدا پر نہایت رحمت فرماتے ، ہاتھ یا زبان مبارک سے بھی کسی کو شر نہ پہنچا۔ کنبہ کی اصلاح اور قوم کی درستی پر نہایت توجہ فرماتے ، ہر شخص اور ہر چیز کی قدر و منزلت سے آگاہ تھے۔ آسمانی بادشاہت کی جانب ہمیشہ نظر لگائے رکھتے تھے۔ (حجۃ اللہ البالغہ : ص ۳۸۵)
صحیح بخاری میں ہے:
نبی کریم ﷺ مطیع کو بشارت پہنچاتے ، عامی کو ڈر سناتے۔ بے خبروں کو پناہ دیتے، اللہ کے بندہ ورسول، جمله کارو بار کو اللہ پر چھوڑ دینے والے، نہ درشت خو،نہ سخت گو، چیخ کر نہ بولتے بدی کا بدلہ ویسانہ لیتے، معافی مانگنے والے کو معاف فرمایا کرتے، گنہگار کو بخش دیتے ، ان کا کجی ہائے مذاہب کو درست کر دینا ہے، ان کی تعلیم اندھوں کو آنکھیں، بہروں کو کان دیتی، غافل دلوں کے پردے اٹھادیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ ہر ایک خوبی سے آراستہ جملہ اخلاق فاضلہ سے متصف، سکینہ ان کا لباس، نکوئی ان کا شعار ، تقویٰ ان کا ضمیر ، حکمت ان کا کلام، عدل ان کی سیرت ہے۔ ان کی شریعت سرا پاراستی، ان کی ملت اسلام ، ہدایت ان کی رہنما ہے۔ وہ ضلالت کو اٹھا دینے والے، گمناموں کو رفعت بخشنے والے، مجھولوں کو نامور کر دینے والے۔ قلت کو کثرت اور تنگ دستی کو غنا سے بدل دینے والے ہیں۔

سکوت اور کلام

نبی کریم ﷺ اکثر خاموش رہا کرتے تھے۔ بلا ضرورت کبھی گفتگو نہ فرمایا کرتے۔ نبی کریم ﷺ نہایت شیریں کلام اور کمال فصیح تھے۔ کلام میں آورد ذرا نہ تھی۔ گفتگو ایسی دلاویز ہوتی تھی کہ سننے والے کے دل و روح پر قبضہ کر لیتی تھی۔ نبی کریم ﷺ کا یہ وصف ایسا مسلمہ تھا کہ مخالف بھی اس کی شہادت دیتے تھے اور جاہل دشمن اس کا نام سحر و جادو رکھا کرتے۔
سلسلہ سخن ایسا مرتب ہوتا تھا جس میں لفظ و معنا کوئی خلل نہ ہوتا۔ الفاظ ایسی ترتیب سے ادا فرمایا کرتے کہ اگر سننے والا چاہے تو الفاظ کا شمار کر سکتا تھا۔ (زاد المعاد: جلد ۲ صفحہ ۷۸)

ہنسنا رونا

نبی کریم ﷺ کبھی کھل کھلا کر ہنسنا پسند نہ کرتے تھے اور نہ خود ہنستے تھے۔ تبسم ہی آپ کا ہنسنا تھا۔ نماز تہجد میں بسا اوقات نبی کریم ﷺ رو پڑا کرتے۔ کبھی کسی مخلص کے مرنے پر آبدیدہ ہو جاتے۔ نبی کریم ﷺ کے فرزند ابراہیم (سلام اللہ علیہ) دودھ پیتے میں گزر گئے تھے۔ جب انہیں قبر میں رکھا گیا تو نبی کریم ﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ فرمایا:
تدمع العين ويحزن القلب ولا نقول الامايرضى ربنا و انا علیک یا ابراہیم محرونون۔
” آنکھوں میں نم ہے، دل میں غم ہے، پھر بھی ہم وہی بات کہتے ہیں۔ جو ہمارے پروردگار کو پسندیدہ ہے۔ ابراہیم ہم کو تیری وجہ سے رنج ہوا‘‘.
ایک دفعہ اپنی نواسی سانس توڑتی ( دختر زینب) کو گود میں اٹھایا۔ اس وقت نبی ﷺ کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ سعدؓ نےعرض کیا کہ یارسول اللہﷺ ! یہ کیا؟ فرمایا: یہ وہ رحم دلی ہے جو اللہ اپنے بندوں کے دلوں میں بھر دیتا ہے اور اللہ بھی اپنے انہیں بندوں پر رحم کرے گا جو رحم دل ہیں۔ ( بخاری من اسامه بن زید علی الله کتاب الایمان والنذور )
ایک دفعہ ابن مسعودؓ نبی کریم ﷺ کو قرآن مجید سنارہے تھے۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے
فكيف إذا جتنا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ جِئْنَا بِكَ عَلَى هَوَلا شَہیدًا
’’تب کیسی ہو گی جب ہر ایک امت پر اللہ ایک ایک گواہ کھڑا کرے گا اور آپ کو ہم سب امتوں پر شہادت کیلئے کھڑا کریں گے “۔ فرمایا: بس ٹھہرو۔ ابن مسعودؓ نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو نبی ﷺ کی آنکھوں سے پانی جاری تھا۔( بخاری عن ابن مسعود ؓ)

غذا کے متعلق ہدایت

رات کو بھوکا سونے سے منع فرماتے اور ایسا کرنے کو بڑھاپے کا سبب فرماتے۔ (زاد المعاد جلد ۲ ص (۷۸)
کھانا کھاتے ہی سو جانے سے منع فرمایا کرتے۔ (زاد المعاد جلد ۲ ص ۸۷ بحوالہ نعیم)
تقلیل غذا کی رغبت دلا یا کرتے۔ فرمایا کرتے کہ معدہ کا ایک تہائی حصہ کھانے ، ایک تہائی پانی کے لیے ایک تہائی حصہ خود معدہ کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ (زاد المعاد جلد ۲ ص ۷)
پھلوں، ترکاریوں کا استعمال ان مصلح چیزوں کے ساتھ فرمایا کرتے۔ (زاد المعاد جلد ۲ ص ۳۵)

مرض اور مریض

متعدد امراض سے بچاؤ رکھتے اور تندرستوں کو اس سے محتاط رہنے کا حکم دیا کرتے۔ (زاد المعاد جلد ۲ ص ۵۰)
بیمار کو طبیب حاذق سے علاج کرانے کا حکم فرماتے(زاد المعاد ج ۲ ص ۴۴)
اور پر ہیز کرنے کا حکم دیتے۔ (زاد المعاد جلد ۲ ص ۳۵)

طبیب نادان

نادان طبیب کو طبابت سے منع کیا کرتے اور اسے مریض کے نقصان کا ذمہ دار ٹھہراتے (زاد المعاد دعوت الكل حديث 1990 اپریل 2009ء ج ۲ ص ۴۷)
حرام اشیاء کو بطور دوا استعمال کرنے سے منع فرماتے۔ ارشاد فرماتے: اللہ نے حرام چیزوں میں تمہارے لیے شفا نہیں رکھی۔ (زاد المعاد ج ۲ ص ۱۵۳، بحوالہ بخاری عن ابن مسعود ی ، زاد المعاد ج ۲ ص ۴۷)

عیادت بیماراں

صحابہ میں جو کوئی بیمار ہو جاتا، اس کی عیادت فرمایا کرتے ۔ عیادت کے وقت مریض کے قریب بیٹھ جاتے۔ بیمار کو تسلی دیتی لابأس طهور (یا كفارة) ان شاء اللہ فرمایا کرتے ، مریض کو پوچھ لیتے کہ کس چیز کو دل چاہتا ہے۔ اگر وہ شے اس کو مضر نہ ہوتی تو اس کا انتظام کر دیا کرتے۔ ایک یہودی لڑکا نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا ، اس کی عیادت کو بھی تشریف لے گئے۔ (زاد المعارج ۱ ص ۱۴۳)

علاج

حالت مرض میں دوا کا استعمال خود فرمایا ور لوگوں کو بھی علاج کرنے کا ارشاد فرماتے:
يا عباد الله تدادوا فان الله عز وجل لم يصنع داء الا وضع له شفاء غير دار واحد قالوا ما هو قال الهرم (زاد المعاد جلد ۲ ص ۵ حوالہ مسند امام احمد التوفی ۲۴۱ھ)
اے بندگان رب! دوا کیا کرو۔ کیونکہ اللہ نے ہر مرض کی شفا مقرر کی ہے۔ بجز ایک مرض کے۔ لوگوں نے پوچھا کہ وہ کیا ہے ؟ فرمایا کھوسٹ (بڑھایا)

خطبه خوانی

زمین یا منبر پر کھڑے ہو کر باشتر و ناقہ پر سوار ہو کر خطبہ فرمایا کرتے۔ جس کا آغاز تشہد سے اور اختتام استغفار پر ہوا کرتا۔ قرآن مجید اس خطبہ میں ضرور ہوتا اور قواعد اسلام کی تعلیم اس خطبہ میں دی جایا کرتی تھی۔
كان يخطب في كل وقت بما تقتضيه حاجة المخاطبين ومصلحتهم (زاد المعارج ۱ ص ۴۹)
خطبہ میں وہ باتیں ضرور بیان کی جاتی تھیں جن کی سردست مسلمانوں کو ضرورت ہوتی اور وقت و ضرورت کے اعتبار سے خطبہ میں سب کچھ بیان ہوا کرتا۔
ایسے خطبات، جمعہ کے دن ہی پر موقوف نہ ہوتے، بلکہ جب ضرورت اور موقع ہو تا تب ہی لوگوں کو کلام پاک سے مستفید فرمادیا کرتے تھے۔ خطبہ کے وقت ہاتھ میں بھی عصا ہوتا، کبھی کمان، ان پر اثنائے تقریر میں ٹیک بھی لگالیا کرتے تھے۔ خطبہ کے وقت تلوار کبھی ہاتھ میں نہ ہوتی تھی۔ نہ اس پر ٹیک لگایا کرتے۔

علامہ ابن قیم ؒ کہتے ہیں
” جاہلوں کا قول ہے کہ نبی ﷺ منبر پر تلوار لے کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ گو یا اشارہ یہ تھا کہ دین بزور شمشیر قائم کیا گیا ہے۔“
علامہ موصوف فرماتے ہیں:
جہال کا یہ قول غلط ہے۔
۱۔ تلوار پر خطبہ میں ٹیک لگانا ثابت نہیں۔
۲- خطبہ خوانی کا آغاز مدینہ میں ہوا تھا اور مدینہ بذریعہ قرآن فتح ہوا تھا، نہ کہ شمشیر ۔ پھر علامہ موصوف یہ بھی بتاتے ہیں کہ دین تو وحی سے قائم ہوا ہے۔ (زاد المعاد ج ۲ ص ۴۹)

صدقہ و ہدیہ

صدقہ کی کوئی چیز ہر گز استعمال نہ کرتے۔ البتہ ہدیہ قبول فرماتے ۔ مخلصین صحابہ نیز عیسائی اور یہودی جو چیزیں تختہ بھیجتے انہیں قبول فرمالیتے ان کے لیے خود بھی تحفے ارسال فرماتے مگر مشرکین کے ہدایا لینے سے انکار فرماتے۔ مقوقس متی شاہ مصر کے بھیجے ہوئے خچر پر نبیﷺ نے سواری فرمائی اور جنگ حنین کے دن وہی خچر نبی کریم ﷺ کی سواری میں تھا۔ لیکن عامر بن مالک کے بھیجے ہوئے گھوڑے کو قبول کرنے سے انکار فرمایا اور ار شاد فرمایا کہ ہم مشرک سے ہدیہ قبول نہیں کرتے۔ (زاد المعاد ج ۱ ص ۱۴۱)
جو قیمتی تحائف نبی کریم ﷺ کے پاس آیا کرتے، اکثر اوقات انہیں نبی کریمﷺ اپنے صحابہ پر تقسیم فرمادیا کرتے۔

اپنی تعریف

اپنی ایسی تعریف جس سے دوسرے نبی کی کمی نکلتی پسند نہ فرمایا کرتے اور ارشاد فرماتے:
لا تخیر وامین الانبیاء ( بخاری عن ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ )
نبیوں کے ذکر میں ایسی طرز اختیار نہ کرو کہ ایک کی دوسرے کے مقابلے میں کمی نکلتی ہو۔
ایک بیاہ میں تشریف لے گئے وہاں چھوٹی چھوٹی لڑکیاں اپنے بزرگوں کے تاریخی کارنامے گارہی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی گایا کہ ”ہمارے درمیان ایسا نبی ہے جو کل (فردا) کی بات آج بتادیتا ہے۔“ نبیﷺ نے فرمایا یہ نہ کہو جو پہلے کہتی تھیں وہی کہے جاؤ۔ ( صحیح بخاری عن ربیع بنت معوذ )

اظہار حقیقت یا خوش عقیدہ پن کی اصلاح

سیدنا ابراہیم فرزند رسول ﷺ کا انتقال ہو گیا۔ اس روز سورج گرہن بھی ہوا۔ لوگ کہنے لگے کہ ابراہیم کی موت کی وجہ سے سورج بھی گہنا گیا، نبی ﷺ نے لوگوں کے مجمع میں خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ سورج چاند کسی کے مرنے یا جینے سے نہیں گہنایا کرتے۔ (بخاری عن مغیرہ بن شعبہ ؓ)

مصلحت عامہ کا لحاظ

جب قریش نے اسلام سے پہلے کعبہ کی عمارت بنائی تو انہوں نے کچھ تو عمارت ابراہیمی میں اندر کی جگہ باہر چھوڑ دی۔ پھر کرسی اتنی اونچی رکھی کہ زینہ لگانا پڑے اور بیت اللہ میں دروازہ بھی صرف ایک ہی رکھا۔ نبی ﷺ نے ایک روز عائشہ طیبہؓ سے فرمایا:
ان قومك حديث عهدهم بكفر لنقضت الكعبة فجعلت لها بابين باب يدخل الناس وباب ارجون منه ( بخاری عن ابن زبیر عن عائشہ)امام بخاری نے اس حدیث کا باب ان الفاظ میں لکھا ہے: مخافة ان يقصر فهم بعض الناس، یہ کتاب العلم میں ہے)
قریش کو مسلمان ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں۔ ورنہ میں اس عمارت کو گرا دیتا، کعبہ میں دو دروازے رکھتا ایک آنے کا ایک جانے کا۔ ۔ جب منافقین کے شر انگیز افعال و حرکات حد سے بڑھ گئے تو عمر فاروقؓ نے عرض کیا کہ انہیں قتل کر دینا چاہیے۔ نبی ﷺ فرمایا۔ نہیں (بے خبر لوگ کہیں گے کہ محمد ﷺ اپنے دوستوں کو قتل کرنے لگا)۔

بشریت ورسالت

نبی ﷺ ان احکام کو جو شانِ رسالت سے ظاہر ہوتے ان افعال و اقوال سے جو بطور بشریت ثابت ہوتے ہمیشہ نمایاں طور پر علیحدہ علیحدہ دکھانے کی سعی فرماتے۔
۱۔ ایک دفعہ فرمایا :میں بشر ہوں۔ میرے سامنے تنازعات پیش ہوتے ہیں، کوئی شخص دوسرے فریق سے اپنے مدعا کو بہتر طریق پر ادا کرنے والا ہوتا ہے۔ جس سے گمان ہو جاتا ہے کہ وہ سچا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں۔ پس اگر کسی شخص کو کسی مسلمان کے حصے میں سے اس فیصلہ کے بموجب کچھ ملتا ہو تو وہ سمجھ لے کہ یہ ایک آگ کا ٹکڑا ہے۔ اب خواہ لے خواہ چھوڑ دے۔ (بخاری، کتاب المظالم عن ام سلمہ فی ) ۔
بریرہ لونڈی سے نبی کریم ﷺ نے مغیث اس کے شوہر کی سفارش کی جس سے بوجہ آزادی (حریت) علیحدہ ہو چکی تھی۔ بریرہ نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! کیا آپ حکم دے رہے ہیں۔ فرمایا: نہیں، میں سفارش کرتا ہوں۔ وہ بولی مجھے مغیث کی حاجت نہیں۔ ( بخاری، کتاب الطلاق عن ابن عباس ؓ)
اہل مدینہ تر کھجور کا بور مادہ کھجور پر ڈالا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس کی کیا ضرورت ہے؟۔ اہل مدینہ نے یہ عمل چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پھل درختوں پر کم لگا۔ لوگوں نے اس بارہ میں نبی کریم ﷺ سے گذارش کی۔ فرمایا: دنیا کے کام تم مجھ سے بہتر جانتے ہو ، جب میں کوئی کام دین کا بتایا کروں، تو اس کی پیروی کیا کرو۔ ( بخاری، کتاب الاستیذان عن انس ملی فنون )
بچوں پر شفقت
بچوں کے قریب سے گزر فرماتے تو ان کو خود السلام علیکم کہا کرتے۔ ان کے سر پر ہاتھ رکھتے۔ انہیں گود میں اٹھا لیتے۔ (بخاری، کتاب الاستیذان عن انسؓ )

بوڑھوں پر عنایت

فتح مکہ کے بعد ابو بکر صدیق ؓ اپنے بوڑھے ، ضعیف ، فاقد البصر باپ کو نبی کر یم ﷺ کی خدمت میں بیعت اسلام کرانے کے لئے لائے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم نے بوڑھے کو کیوں تکلیف دی، میں خود ان کے پاس چلا جاتا۔ ( مسلم )

۱ – سعد بن معاذ ؓ کو جو خندق میں سخت زخمی ہو گئے تھے۔ مسجد تک پہنچے تو آپ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو قبیلہ اوس کے تھے فرمایا: قوموالِی سَيْدِكُمْ (اپنے سردار کی پیشوائی کو جاؤ) لوگ گئے۔ ان کو آگے بڑھ کر لے آئے۔
۲۔ حسان ؓ بن ثابت اسلام کی تائید اور مخالفین کے جواب میں اشعار نظم کر کے لاتے تو ان کے لیے مسجد نبویﷺ میں منبر رکھ دیا جاتا جس پر چڑھ کر وہ اشعار پڑھا کرتے تھے۔
خادم کے لیے دعا
انس بن مالک ؓ نے دس سال تک مدینہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت کی اس عرصہ میں کبھی ان سے یہ نہ کہا کہ یہ کام کیوں نہ کیا ایک روز ان کے حق میں دعافرمائی۔ اللهم اكثر ماله وولده وبارك له ما اعطيته الہی ! اسے مال بھی بہت دے اور اولاد بھی بہت دے اور جو کچھ اسے عطا کیا جائے۔ اس میں برکت بھی دے۔

ادب و تواضع

۱۔ مجلس میں کبھی پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے۔
۲۔ جو کوئی مل جاتا اسے سلام پہلے خود کر دیتے۔
۳۔ مصافحہ کے لیے خود پہلے ہاتھ پھیلا دیتے۔
۴صحابہ کو کنیت کے نام سے پکارتے (عرب میں عزت سے بلانے کا یہی طریق ہے)
۵۔ کسی کی بات کبھی قطع نہ فرماتے۔
۶۔ اگر نماز نفل میں ہوتے اور کوئی شخص پاس آبیٹھتا تو نماز کو مختصر کر دیتے اور اس کی ضرورت پوری کر دینے کے بعد پھر نماز میں مشغول ہوتے۔
۷۔ اکثر متبسم رہتے۔ (ماخوذ از شفاء ص ۵۴)
۸نبی کریم ﷺ کے ایک ناقہ کا نام عضبا تھا۔ کوئی جانور اس سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔ ایک اعرابی اپنی سواری پر آیا اور عضباء سے آگے نکل گیا۔ مسلمانوں کو یہ بہت ہی شاق گزرا۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
ان حقا على الله عزوجل ان لا يرفع شيئاً من الدنيا الا وضعه ( صحیح بخاری)
دنیا میں اللہ کی سنت ہی ہے کہ کسی کو اٹھاتا ہے تو اسے نیچا بھی دکھاتا ہے۔
۹۔ ایک شخص آیا اس نےنبی ﷺ یا خیر البرية ( برترین خلق) کہہ کر بلایا۔ نبی ﷺ فرمایا یه شان تو ابراہیم ؑ کی ہے۔ (صحیح بخاری)
۱۰۔ ایک شخص حاضر ہوا وہ نبی ﷺ کی ہیبت سے لرز گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
هون علیک فالی لست بملک امما انا ابن امراة من قريش ناقل القديد
( صحیح بخاری) کچھ پروانہ کرو، میں بادشاہ نہیں ہوں۔ میں قریش کی ایک غریب عورت کا فرزند ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔

شفقت و رأفت

عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں:
۱-کوئی شخص بھی اچھے خلق میں نبی کریم ﷺ جیسا نہ تھا۔ خواہ کوئی صحابی بلاتا یا گھر کا کوئی شخص نبی ﷺ اس کے جواب میں لبیک (حاضر) ہی فرمایا کرتے۔ (شفاء ص ۵۳)
۲۔ عبادات نافلہ چھپ کر ادا فر ما یا کرتے تاکہ امت پر اس قدر عبادت کرنا شاق نہ ہو۔
۳ ۔ جب کسی معاملہ میں دو صورتیں سامنے آتیں تو آسان صورت کو اختیار فرماتے۔( صحیح بخاری عن عائشه ؓ)
۴۔ اللہ پاک کے ساتھ معاہدہ کیا کہ جس شخص کو میں گالی دوں یا لعنت کروں وہ گالی اس کے حق میں گناہوں کا کفار و رحمت و بخشش اور قرب کا ذریعہ بنادی جائے۔
۵۔ فرمایا: ایک دوسرے کی باتیں مجھے نہ سنایا کرو۔ میں چاہتا ہوں کہ دنیا سے جاؤں، تو سب کی طرف سے صاف سینہ جاؤں۔ (شفاء ص ۵۵) ۔
۶-وعظ و نصیحت کبھی کبھی فرمایا کرتے تا کہ لوگ آکتا نہ جائیں۔ ( صحیح بخاری عن ابن مسعود ؓ )
۷۔ ایک بار سورج گرہن ہوا۔ نماز کسوف میں نبیﷺ روتے تھے اور دعا میں فرماتے تھے۔
رب الم تعدنی ان لا نعزبھم وانا فيهم وهم يستغفرون ونحن نستغفرك (زاد المعاد ج ۱ ص ۴۹)
ترجمہ :۔ اے پروردگار ! تو نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان لوگوں کو (بہر دو صورت) عذاب نہ دیا جائے گا،
۱ جب تک میں ان کے درمیان موجود ہوں۔
۲ جب تک یہ استغفار کرتے رہیں۔ اب اے اللہ ! میں موجود ہوں اور سب استغفار بھی کر رہے ہیں۔
لکل نبي دعوة يدعو ابها فاستجيب لها فجعلت دعوت شفاعة لامعى يوم القيامة( صبح بخارى عن انس رضی اللہ عنہ ، کتاب الدعوت)
ترجمہ: ہر ایک نبی کے لئے ایک ایک دعا تھی وہ الجھتے رہے اور دعا قبول ہوتی رہی، میں نے اپنی دعا کو اپنی امت کی شفاعت روز قیامت کے لئے محفوظ رکھا ہے۔

عدل ورحم

اگر دودشمنوں کے درمیان جھگڑا ہوتا تو عدل فرماتے اور اگر کسی شخص کا نفس مبارک کے ساتھ کوئی معاملہ ہوتاتور حم فرماتے:
(۱) فاطمہ نامی ایک عورت نے مکہ میں چوری کی ، لوگوں نے اسامہؓ جو نبی کریم ﷺ کو بہت پیارے تھے، سفارش کرائی، نبی ﷺ نے فرمایا: کیا تم حدودالہی میں سفارش کرتے ہو ؟ سنو! اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی ایسا کرتی تو میں حد جاری کرتا ۔ ( صحیح بخاری عن عائشه فنی ، کتاب الحدود)
(۲) سواد بن عمرؓ کہتے ہیں کہ وہ ایک روز نبی کریم ﷺ کے سامنے رنگین کپڑا پہن کر گئے، نبی کریم ﷺ نے خط خط فرمایا اور چھڑی سے اُن کے شکم میں ٹھو کا بھی دیا، میں نے کہا: یارسول اللہ ﷺ ! میں تو قصاص لوں گا۔ نبی کریم ﷺ جھٹ سے اپنا شکم بر ہنہ کر کے میرے سامنے کر دیا۔ ( شفاء قاضی عیاض ص ۳۱۱)

اعداٗ پر رحم

۱۔ مکہ میں سخت قحط پڑا، یہاں تک کہ لوگوں نے مردار اور ہڈیاں بھی کھانی شروع کر دیں، ابو سفیان بن حرب ( ان دنوں دشمن غالی تھا) نبی ﷺ کی خدمت میں آیا، محمد (ﷺ) آپ تو لوگوں کو صله رحمی (حسن سلوک باقرابتداروں) کی تعلیم دیا کرتے ہیں، دیکھئے ! آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے ، اللہ سے دعا کیجئے ، نبی ﷺ نے دعافرمائی اور خوب ہی بارش ہوئی۔
۲۔ ثمامہؓ بن ابہال نے مسجد سے مکہ کو جانے والا غلہ بند کر دیا، اس لیے کہ اہل مکہ ، نبی کریم ﷺ کے دشمن ہیں ، نبی کریم ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمادیا۔
۳۔ حدیبیہ کے میدان میں نبی ﷺ مسلمانوں کے ساتھ نماز صبح پڑھ رہے تھے ، ستر (۷۰) آدمی چپکے سے کوہ تنعیم سے اترے تاکہ مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے قتل کر دیں، یہ سب گرفتار ہو گئے اور نبی ﷺ نے ان کو بلا کسی فدیہ یا سزا کے آزاد فر ما یاد یا۔ ( صحیح بخاری عن ابن مسعود ؓ باب اذا متشقع المشركون)

جود و کرم

(۱) سائل کو کبھی رد نہ فرماتے ، زبان مبارک پر حرف انگار نہ لاتے ، اگرچہ کچھ بھی دینے کو پاس نہ ہو تا سائل سے عذر کرتے، گویا کوئی شخص معافی چاہتا ہے۔
(۲) ایک شخص نے آکر سوال کیا، فرمایا میرے پاس تو اس وقت کچھ نہیں ہے، تم میرے نام پرقرض لے لو اور پھر اسے اتاروں گا، عمر فاروقؓ نے کہا: اللہ نے آپ کو یہ تکلیف نہیں دی کہ قدرت سے بڑھ کر کام کریں، نبی ﷺ چپ سے رہ گئے، ایک انصاری نے پاس سے کہہ دیا، یارسول اللہ ﷺ ! جواب دیجئے ، رب العرش مالک ہے، تنگ دستی کا کیا ڈر ہے ، نبی ﷺ ہنس پڑے، چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار آشکار ہو گئے، فرمایا: ہاں مجھے یہی حکم ملا ہے۔ (شفاء ص ۵۰ بحوالہ الہ شمائل ترندی)
(۳) ایک بار ایک سائل کو آدھا وسق غلہ قرض لے کر دلایا، قرض خواہ تقاضا کے لئے آیا نبی ﷺ نے فرمایا: ایک وسق غلہ دے دو، آدھا تو قرض کا ہے، آدھا ہمارے طرف سے جو دو سخا کا ہے (شفاء ص ۵۱ عن ابي هريرة )
(۴) فرمایا کرتے: اگر کوئی شخص مقروض مرجائے اور مال باقی نہ چھوڑے تو ہم اسے ادا کریں۔ گے اور اگر کوئی مال چھوڑ کر مرے تو وہ وارثوں کا حق ہے۔( صحیح بخاری کتاب الفرائض)

شرم و حیا

ابو سعید حذری ؓ کہتے ہیں کہ پردہ نشین لڑکی سے بڑھ کر نبی ﷺ میں حیا تھی، جب کوئی ایسی بات نبی کے سامنے کی جاتی، جس سے آپ کو کراہت ہوتی تو چہرہ مبارک سے فوراً معلوم ہو جاتا تھا۔ ( صحیح بخاری عن ابی سعیدؓ)
(۲) عائشہ طیبہؓ کا بیان ہے: اگر کسی شخص کی کوئی حرکت نبی ﷺ کو پسند نہ آتی تو اس کا نام لے کر منع نہ فرماتے بلکہ عام الفاظ میں اس حرکت و فعل کی نہی فرما دیتے-(ابو داود)
(۳) عادات و معاملات میں اپنی جان پر تکلیف اٹھا لیتے ، مگر دوسرے شخص کو ازراہ شرم کام کرنے کو نہ فرماتے۔
(۴) جب کوئی عذر خواہ سامنے آکر معافی کا طالب ہوتا تو نبی کریم ﷺ شرم سے گردن مبارک جھکا لیتے۔ ( ترندی فی الشمائل وشفاء ص: ۴۸)
(۵) عائشہ طیبہ ؓ کا قول ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو برہنہ کبھی نہیں دیکھا۔

صبر وحلم

۱۔ زید بن سعنہ ایک یہودی تھا۔ نبی ﷺ کو اس کا قرض دینا تھا، وہ ایک روز آیا، آتے ہی چادر آپ کے شانہ سے اتار لی، جسم کے کپڑے پکڑ لئے اور ٹرانے لگا : ” عبد المطلب والے بڑے نادہند ہوتے ہیں ‘‘عمر فاروقؓ نے اسے سختی سے جھڑک دیا، نبی ﷺ ہنس پڑے فرمایا: عمرؓ تمہیں لازم تھا کہ میرے ساتھ اور اس کے ساتھ اور طرح برتاؤ کرتے، مجھے حسن ادائیگی کے لیے کہتے اور اسے حسن تقاضا سکھاتے۔ پھر زید کی جانب نبی ﷺ مخاطب ہوئے، فرمایا: ’’ابھی تو وعدہ میں تین دن ہاتی ہیں‘‘ پھر عمر ؓ سے فرما یا اس کا قرض ادا کر دو۔ بیس صاع زیادہ بھی دینا کہ تم نے اس دھمکایا اور ڈرایا بھی تھا۔ (شفاء: عیاض ص ۴۸ – راده المبیقی)
۲ ایک اعرابی آیا، اس نے زور سے نبی کریمﷺ کی چادر کو جو موٹے کنارے کی تھی، جھٹکا دیا، وہ کنارہ نبی کریم ﷺ کی گردن میں گڑ گیا اور نشان پڑ گیا۔ اعرابی نے اب زبان سے یہ کہا: محمد ! یہ مال اللہ کا جو تمہارے پاس ہے نہ تیرا ہے اور نہ تیرے باپ کا ہے ، اس میں سے ایک بار شتر مجھے بھی دلائو۔ نبیﷺ نے ذرا خاموشی کے بعد فرمایا: مال بے شک اللہ کا ہے اور میں اس کا غلام ہوں، بالآخر حکم فرمایا کہ ایک بار شتر جو، اور ایک بار شتر کھجور میں اسے دی جائیں۔ (صحیحین عن انس ؓ وشفاء : ص ۴۸)
۳ طائف میں نبی ﷺ وعظ اور تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے تھے ، وہاں کے باشندوں نے نبی ﷺ پر کیچڑ پھینکی، آوازے لگائے، اتنے پتھر مارے کہ آپ لہو سے تربہ تر اور بے ہوش ہو گئے پھر بھی یہی فرمایا: کہ میں ان لوگوں کی ہلاکت نہیں چاہتا، کیونکہ اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو امید ہے کہ ان کی اولاد مسلمان ہو جائے گی۔ ( صحیح بخاری)

عفوورحم

۱-عائشہ طیبہؓ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی ذات مبارک کی بابت کسی سے انتقام نہیں لیا۔
۲۔ جنگ احد میں کافروں نےنبی ﷺ کے دانت توڑے، سر پھوڑا، نبی ﷺ ایک غار میں بھی گر گئے تھے ، صحابہ نے عرض کیا کہ ان پر بد دعا فرمائیے، نبی ﷺ نے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لئے نہیں بنایا گیا، اللہ نے مجھے لوگوں کو اپنی بارگاہ میں بلانے کے لئے بھیجا ہے، اس کے بعد یہ دعا فرمائی: اللہ میری قوم کو ہدایت فرما، وہ (مجھے) نہیں جانتے ہیں۔(شفاء عیاض ۴۷ )
۳-ایک درخت کے نیچے نبی ﷺ سو گئے، تلوار شاخ سے آویزاں کردی، غورث بن الحراث آیا، تلوار نکال کر نبی ﷺ کو گستاخانہ جگایا، بولا: اب تم کو کون بچائے گا، فرمایا: اللہ ! وہ چکر کھا کر گرپڑا نبی کریم ﷺ نے تلوار اٹھالی، فرمایا: اب تجھے کون بچا سکتا ہے ؟ وہ حیران ہو گیا، فرمایا: جائو! میں بدلہ نہیں لیا کرتا۔ صحیح بخاری باب غزوہ ذات الرقاع و شفاه ص ۴۷)
(۴) ہبارنے نبی کریم ﷺ کی بیٹی زینب ؓ کے نیزا مارا، وہ ھودج سے نیچے گر گئیں اور حمل ساقط ہو گیا، اور بالآخر یہی صدمہ ان کی موت کا باعث ہوا، ہبار نے عفو کی التجا کی اور اسے معاف فرمایا۔ ( دیکھو : بیان فتح مکہ )
(۵) فرمایا: زمانہ جاہلیت سے لے کر جن باتوں پر قبائل میں باہمی جنگ وجدل چلا آتا ہے، میں سب کو معدوم کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے خون کا دعوئی اور اپنے چچا کے رقوم قرضہ کو معاف کرتا ہوں۔ ( صحیح بخاری خطبہ نبوی بروز فتح مکہ )

صدق و امانت

۱۔ جانی دشمن بھی نبیﷺ کے ان اوصاف کے قائل تھے ، صادق و امین بچپن ہی سے نبی کریمﷺکا خطاب پڑ گیا تھا۔ انہی اوصاف کی وجہ سے قبل ازنبوت بھی لوگ اپنی مقدمات انفصال کے لئے نبی کریم ﷺ کے پاس لایا کرتے تھے۔ ( شفاء عیاض، ص ۴۹ )
(۲) ایک روز ابو جہل نے کہا، محمد (ﷺ) میں تجھے جھوٹا نہیں سمجھتا، لیکن تیری تعلیم پر میرا دل نہیں ٹھہرتا۔ ( شفاء: ص ۵۹)
(۳) شب ہجرت کو کفار نے تو نبی کریم ﷺ کے قتل کا مشورہ اور اتفاق کیا اور نبیﷺ نے اپنے چچازاد بھائی علی ؓ کو اس کے لئے پیچھے چھوڑا کہ ان کی امانتوں کو ادا کر کے آنا۔

عفت و عظمت

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: ایام جاہلیت کی رسموں میں سے میں نے کبھی کسی میں بھی حصہ نہیں لیا۔ صرف دود فعہ ارادہ کیا کہ اللہ تعالی نے خود ہی بچالیا دس برس کی عمر تھی، میں نے اس چرواہے کو جس کے ساتھ میں بکریاں چراتا تھا، کہا: اگر تم میری بکریاں سنبھالے رکھو تو میں مکہ ( آبادی کے اندر) جائوں، جیسے اور نوجوان کہانیاں کہتے سنتے ہیں، میں بھی کہانیاں کہوں سنوں۔ اس ارادہ سے میں شہر کو آیا، پہلے ہی گھر پہنچا تھا کہ وہاں دف و مزامیر بج رہے تھے ، اس گھر میں بیاہ تھا، میں انہیں دیکھنے لگا، نیند نے غلبہ کیا، میں سو گیا، جب سورج نکلا تب آنکھ کھلی، ایک دفعہ پھر ایسی ہی نیت سے آیا تھا اسی طرح نیند آگئی اور وقت گذر گیا، ان دو واقعات کے سوا میں نے بھی مکروہات جاہلیت کا ارادہ بھی نہیں کیا۔ (شفاء: ص ۴۰)
عہد نبوت سے پہلے کا ذکر ہے زید بن عمرو بن نفیل نے نبی ﷺ کی دعوت کی ، دستر خواں پر گوشت بھی آیِا، نبی ﷺ نے فرمایا:
اني لا اكل مما تذبحون على انصابكم ولا اكل الاماذكر اسم الله علیہ۔
میں وہ گوشت نہیں کھاتا جو بتوں یا استھانوں کی قربانی کا ہو ، میں تو صرف وہی گوشت کھایا کرتا ہوں جس پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ ( بخاری عن عبد اللہ ، کتاب الصيد والذبائح)
نبی کریمﷺکی دعا یہ تھی:
يا رب جوع يوما وا شبع يوما فاما اليوم الذي اجوع فيه فاتضرع اليك وادعوك، واما اليوم الذي اشبع فيه فأحمدك فااثنى عليك
الہی ایک دن بھوکار ہوں، ایک دن کھانے کو ملے، بھوک میں تیرے سامنے گڑ گڑایا کروں تجھ سے مانگا کروں اور کھا کر تیری حمد و ثنا کیا کروں۔ (شفاه: ص ۶۲)
(۲) صدیقہ ؓ کہتی ہیں: ایک ایک مہینے -برابر ہمارے چولہے میں آگ روشن نہ ہوتی، نبی ﷺ کا کنبہ پانی اور کھجور پر گذران کرتا۔ (بخاری عن عائشہ )
(۳) سیدہ عائشہ ؓ ہیں: نبی کریم ﷺ نے مدینہ آکر تین دن تک برابر گیہوں کی روٹی کبھی نہیں کھائی۔ ( صحیح بخاری عن عائشه ی علما کتاب الاطعمه )
(۴) نبی ﷺ نے انتقال فرمایا تو اس وقت نبی کریمﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس بعوض غلہ جور ہن تھی ۔ ( صحیح بخاری عن عائشہ )
(۵) نبی کر یم ﷺ اس دنیا کی آخری شب میں تھے کہ عائشہ صدیقہ نے پڑوسن سے چراغ کے لئے تیل منگوایا تھا۔ ( صحیح بخار می عن عائشہ سی)
(۶) دعا فرمایا کرتے: الہی ! آل محمد (ﷺ) کو صرف اتنا دے جتنا پیٹ میں ڈال لیں۔ یہ یادر کھنا چاہئے کہ زہد کی یہ تمام صورتیں اختیاری تھیں، لاچاری کچھ نہ تھی اور اس زہد سے مقصود نبی ﷺ کا یہ نہ تھا کہ کسی حلال شے کے استعمال یا انتفاع میں کوئی روک پیدا کریں، ایسے خیال سے صرف ایک بار نبیﷺ نے شہد کا استعمال چھوڑ دیا تھا، اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ ایک بیوی نے شہد کی بو کو اپنے طبع کے خلاف بتایا تھا، اللہ عزوجل نے ﷺ سے فرمایا کہ یہاں تک کھینچ نہیں کرنی چاہئے۔ (التحریم: ۱)

صنف ضعیف (عورتوں کی اعانت اور انکی آسائش کا خیال)

ام المومنین صفیہ ؓ ایک سفر میں ساتھ تھیں وہ تمام جسم کو چادر سے ڈھانپ کر اونٹ کے پھلی نشست پر نبی ﷺ کے ساتھ سوار ہوا کرتی تھیں، جب وہ اونٹ پر سوار ہونے لگتیں :
یجلس عند بعید فيضع ركبته فتضم صفیه رجلها على ركبته حتی ترکب
تب نبی کریم ﷺ اپنا گھٹنہ آگے بڑھا دیتے، صفیہ ؓ اپنے پائوں نبی کریم ﷺ کے گھٹنے پر رکھ کر اونٹ پر چڑھ جایا کرتیں۔ ( صحیح بخاری باب مسافر بالجارية ، عن انسؓ)
(۲) ایک دفعہ ناقہ کا پائوں پھسلا، نبی ﷺ اور ام المومنین صفیہ ؓ دونوں گر پڑے ، ابو طلحہ ؓ دوڑے دوڑے رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے ، نبی ﷺ نے فرمایا ” عليك بالمراة ‘‘تم پہلے عورت کی خبر لو ۔ ( صحیح بخاری باب استقبال الغزاة، عن انس ؓ)
(۳) ایک سفر میں اونٹوں کے کجاووں عورتیں سوار تھیں ، ساربان جو اونٹوں کی مہار پکڑے جاتا تھا، حدی خوانی کرنے لگا، عدی ایسے آواز سے شعر پڑھنے کو کہتے ہیں جس سے اونٹ تیز چلنے لگتے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا: دیکھو کانچ کے شیشوں کو توڑ پھوڑ نہ دینا۔ ( صحیح مسلم)
اس ارشاد میں عورتوں کو کانچ کے آلات سے نبی ﷺ نے تشبیہ دی ہے، نفاست و نزاکت کے علاوہ وجہ تشبیہ عورتوں کا ضعف خلقت ہے، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ آرام اور آسائش کی مستحق ہیں۔

اسیران جنگ کی خبر گیری

اسیران جنگ کی خبر گیری مہمانوں کی طرح کی جاتی تھی، جنگ بدر میں جو قیدی مدینہ منورہ میں چند روز تک مسلمانوں کے پاس اسیر رہے، ان میں سے ایک کا بیان ہے: اللہ مسلمانوں پر رحم کرے، وہ اپنے اہل و عیال سے اچھا ہم کو کہلاتے تھے اور اپنے کہنے سے پہلے ہمارے آرام کی فکر کیا کرتے تھے۔ جب قیدی اسیر ہو کر آتے تو نبی ﷺ پہلے ان کے لباس کی فکر کیا کرتے تھے ۔ ( صحیح بخاری باب الكسوة للاساری، عن جابرؓ)

مردانہ ورزشیں

مردانہ ورزشوں کا شوق دلایا کرتے، رکانہ عرب کا شاہ زور پہلوان تھا، وہ اپنے پچھڑ جانے کو اسلام لانے کی شرط ٹہراتا تھا، نبی ﷺ نے اسے تین بار پچھاڑ دیا تھا۔ (شفاء : ص ۳۴)

تیرا فگی

نشانہ بازی کا لوگوں کو شوق دلایا کرتے ، نشانہ بازی کی مشق کے لئے لوگوں کو دو حصوں میں بانٹ دیا کرتے تھے ، ایک دفعہ فرمایا: تیر چلائو، میں اس پارٹی کی طرف ہوں گا، یہ سن کر دوسری پارٹی نے تیر چلانے سے ہاتھوں کو روک لیا، سبب پوچھا گیا، انہوں نے کہا: جب اس پارٹی میں رسول اللہ ﷺ شامل ہیں تو ہم اس کے مقابلہ میں کیونکر تیرانگی کر سکتے ہیں، ؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا، تیر چلائو! میں تم سب کے ساتھ ہوں ، ارمواوَ أَنَا مَعَكُمْ ( صحیح بخاری عن سلمة بن الاکوع باب التحريض على الرمی)

گھڑ دوڑ

گھوڑوں کی دوڑ نبی ﷺ کے حکم سے کرائی جاتی تھی، لمبی دوڑ ۵ یا ۴ میل کی اور ہلکی دوڑ ایک میل کی ہوتی تھی۔ ( صحیح بخاری عن ابن عمر فی اللہ باب السبق بین الحیل)

مردم شماری

نبیﷺ نے فرمایا:
اكتبوالى من تلفظ بالا سلام من الناس،
تمام کلمہ گو اشخاص کے نام میرے ملاحظہ کے لئے قلم بند کئے جائیں، اس حکم کی تعمیل ہوئی، اس وقت مسلمانوں کا شمار ڈیڑھ ہزار ہوا، اس تعداد پر مسلمانوں نے اللہ کا شکر ادا کیا، خوشی منائی، مسلمان کہتے تھے: اب ہم ڈیڑھ ہزار ہو گئے ہیں اب ہمیں کیا ڈر رہا ہے، ہم نے وہ زمانہ دیکھا ہے جب ہم میں سے کوئی اکیلا ہی نماز پڑھا کرتا تھا، اور ۔۔۔ اسے ہر طرف سے دشمنوں کا خوف لگارہتا تھا۔ ( صحیح بخاری کتاب الشہادة باب کتابتہ الامام الناس من حذیفہؓ)
افسوس ہے کہ اس روایت سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ یہ شمار کس سن میں ہوا تھا، صحیح بخاری کی دیگر روایات سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تیسری مردم (مسلم) شماری تھی، پہلی دفعہ کے شمار میں مسلمانوں کی تعداد ۵۰۰ دوسری میں ۴۰۰ اور ۷۰۰ کے درمیان تعداد تھی۔
(ماخوذ: رحمت للعالمین، جلد نمبر ۱)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!