اللہ تعالیٰ نے دینِ حق کی حفاظت کے لیے کچھ خاص بندوں کا انتخاب کیا، جنہیں محدثین کہا جاتا ہے۔ ان کی عظمت و فضیلت کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ (م: 354ھ) یوں فرماتے ہیں:
"وَلَوْ لَمْ یَکُنِ الْإِسْنَادُ وَطَلَبُ ہٰذِہِ الطَّائِفَۃِ لَہ،؛ لَظَہَرَ فِي ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ مِنْ تَبْدِیلِ الدِّینِ مَا ظَہَرَ فِي سَائِرِ الْـأُمَمِ، وَذَاکَ أَنَّہ، لَمْ یَکُنْ أُمَّۃٌ لِّنَبِيٍّ قَطُّ حَفِظَتْ عَلَیْہِ الدِّینَ عَنِ التَّبْدِیلِ مَا حَفِظَتْ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃُ، حَتّٰی لَا یَتَہَیَّأَ أَنْ یُزَادَ فِي سُنَّۃٍ مِّنْ سُنَنِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلِفٌ وَّلَا وَاوٌ، کَمَا لَا یَتَہَیَّأُ زِیَادَۃُ مِثْلِہٖ فِي الْقُرْآنِ، فَحَفِظَتْ ہٰذِہِ الطَّائِفَۃُ السُّنَنَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ، وَکَثُرَتْ عِنَایَتُہُمْ بِأَمْرِ الدِّینِ، وَلَوْلَاہُمْ لَقَالَ مِنْ شَاءَ بِمَا شَاءَ.”
"اگر سند کا نظام نہ ہوتا اور محدثین کی یہ جماعت سند کو محفوظ نہ کرتی، تو اس امت میں بھی تحریف پیدا ہوجاتی جیسے دوسری امتوں میں ہوئی۔ کسی نبی کی امت نے اپنے دین کو تحریف سے اس قدر محفوظ نہیں کیا جتنا اس امت نے کیا، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں الف یا واؤ جیسی چھوٹی سی تبدیلی بھی ممکن نہ ہو سکی، جیسے قرآن میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکا۔ چنانچہ محدثین کے اس گروہ نے احادیث نبویہ کو محفوظ کیا اور دین کے معاملات میں خصوصی توجہ دی۔ اگر یہ محدثین نہ ہوتے تو ہر شخص جو چاہتا، وہی کہتا چلا جاتا۔”
(المجروحین: 25/1)
اسی گروہ میں ممتاز ترین ہستی امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ ہیں۔ ان کی مختصر سوانح حیات کا ذکر آگے کیا گیا ہے۔
نام و نسب اور کنیت:
کنیت: ابو بکر
نام: محمد بن اسحاق بن خزیمہ بن مغیرہ بن صالح بن بکر، نیشاپوری
ولادت:
آپ کی ولادت 223 ہجری میں ہوئی۔
علمی سفر:
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ، جو حدیث کے بڑے نقاد اور جلیل القدر فقیہ تھے، نے علم کی جستجو میں رے، بغداد، بصرہ، کوفہ، شام، جزیرہ، مصر، اور اوسط کا سفر کیا اور بڑے ائمہ حدیث سے فیض حاصل کیا۔
توصیف و توثیق:
امام ابو علی حسین بن علی بن یزید نیشاپوری (349-277ھ) فرماتے ہیں:
"کَانَ أَبُو نُعَیْمٍ الْجُرْجَانِيُّ أَحَدُ الْـأَئِمَّۃِ، مَا رَأَیْتُ بِخُرَاسَانَ بَعْدَ أَبِي بَکْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، یَعْنِي ابْنَ خُزَیْمَۃَ، مِثْلَہ، أَوْ أَفْضَلَ مِنْہُ.”
"ابو نعیم جرجانی ایک امام تھے۔ میں نے خراسان میں ابو بکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ کے بعد ان جیسا یا ان سے افضل کوئی محدث نہیں دیکھا۔”
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی: 182/12، وسندہ، صحیح)
حافظ محمد بن احمد بن عثمان ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ) فرماتے ہیں:
"یہ (ابو علی نیشاپوری) ایسا کہہ رہے ہیں، جنہوں نے امام نسائی رحمہ اللہ کو بھی دیکھا ہوا ہے۔”
(سیر أعلام النبلاء: 272/14)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (م: 354ھ) جو امام ابن خزیمہ کے شاگرد ہیں، فرماتے ہیں:
"وَمَا رَأَیْتُ عَلٰی أَدِیمِ الْـأَرْضِ مَنْ کَانَ یُحْسِنُ صَنَاعَۃَ السُّنَنِ، وَیَحْفَظُ الصِّحَاحَ بَأَلْفَاظِہَا، وَیَقُومُ بِزِیَادَۃِ کُلِّ لَفْظَۃٍ تُزَادُ فِي الْخَبَرِ ثِقَۃً، حَتّٰی کَأَنَّ السُّنَنَ کُلَّہَا نَصَبَ عَیْنَیْہِ إِلَّا مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَیْمَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فَقَطْ.”
"میں نے روئے زمین پر محمد بن اسحاق بن خزیمہ رحمہ اللہ کے سوا کسی کو نہیں دیکھا جو فن حدیث میں اتنا ماہر ہو، جسے تمام صحیح احادیث لفظ بہ لفظ یاد ہوں اور ہر اضافی لفظ کی تحقیق کا اہتمام کرے۔ گویا انہوں نے ساری احادیث کو یاد کرنا اپنا مقصدِ حیات بنایا تھا۔”
(کتاب المجروحین: 93/1)
امام عبد الرحمن بن ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ (327-240ھ) ان کی توثیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ثِقَۃٌ، صَدُوقٌ.”
"آپ ثقہ و صدوق امام تھے۔”
(الجرح والتعدیل: 196/7)
امام ابو نضر محمد بن محمد بن یوسف طوسی، فقیہ (م: 344ھ) فرماتے ہیں:
"إِمَامُ الْمُسْلِمِینَ فِي عَصْرِہٖ.”
"آپ اپنے زمانے میں مسلمانوں کے امام تھے۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 425/1)
امام ابو اسحاق، ابراہیم بن محمد بن یحییٰ نیشاپوری رحمہ اللہ (م: 352ھ) فرماتے ہیں:
"إِمَامُ الْمُسْلِمِینَ أَبُو بَکْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَیْمَۃَ.”
"امام المسلمین ابو بکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 219/4)
حافظ ابو یعلیٰ، خلیل بن عبد اللہ بن احمد خلیلی رحمہ اللہ (446-367ھ) فرماتے ہیں:
"اِتَّفَقَ فِي وَقْتِہٖ أَہْلُ الشَّرْقِ أَنَّہ، إِمَامُ الْـأَئِمَّۃِ، ۔۔۔، وَلَہ، مِنَ التَّصَانِیفِ مَا لَا یُعَدُّ فِي الْحَدِیثِ وَالْفِقْہِ.”
"آپ کے دور میں اہلِ علم نے متفقہ طور پر انہیں امام الائمہ تسلیم کیا۔۔۔ اور حدیث اور فقہ میں آپ کی بہت سی تصانیف ہیں۔”
(الإرشاد في معرفۃ الحدیث: 831/3، 832)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ) فرماتے ہیں:
"اَلْحَافِظُ، الْحُجَّۃُ، الْفَقِیہُ، شَیْخُ الْإِسْلَامِ، إِمَامُ الْـأَئِمَّۃِ، ۔۔۔، وَعَنٰی فِي حَدَاثَتِہٖ بِالْحَدِیثِ وَالْفِقْہِ، حَتّٰی صَارَ یُضْرَبُ بِہِ الْمَثَلُ فِي سِعَۃِ الْعِلْمِ وَالْإِتْقَانِ.”
"حافظ، حجہ، فقیہ، شیخ الاسلام، امام الائمہ۔۔۔ آپ نے جوانی ہی میں حدیث اور فقہ میں مہارت حاصل کرلی تھی، یہاں تک کہ علمی وسعت اور اتقان میں آپ کی مثال دی جاتی تھی۔”
(سیر أعلام النبلاء: 365/14)
مزید فرماتے ہیں:
"وَقَدْ کَانَ ہٰذَا الْإِمَامُ جِہْبِذًا، بَصِیْراً بِالرِّجَالِ.”
"امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ بہت بڑے عالم اور رجالِ حدیث کے بارے میں گہری بصیرت رکھتے تھے۔”
(سیر أعلام النبلاء: 373/14)
مشہور مفسر اور مؤرخ، حافظ ابو فدا اسماعیل بن عمر ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ) فرماتے ہیں:
"اَلْإِمَامُ أَبُو بَکْرِ بْنُ خُزَیْمَۃَ، الْمُلَقَّبُ بِإِمَامِ الْـأَئِمَّۃِ، ۔۔۔، وَہُوَ مِنَ الْمُجْتَہِدِینَ فِي دِینِ الْإِسْلَامِ.”
"امام ابو بکر بن خزیمہ، جنہیں امام الائمہ کا لقب دیا گیا۔ آپ دین اسلام کے ایک مجتہد تھے۔”
(البدایۃ والنہایۃ: 170/11)
امام ابو العباس بن سریج نے جب امام ابن خزیمہ کا ذکر کیا تو کہا:
"یُخْرِجُ النُّکَتَ مِنْ حَدِیثِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمِنْقَاشِ.”
"امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ بہت محنت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے نکات کا استخراج کرتے تھے۔”
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص: 83)
امام ابن جارود، امام ابن حبان، امام دارقطنی رحمہ اللہ، اور امام حاکم نے بھی آپ کی روایات کا ذکر کیا ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "ذِکْرُ مَنْ یُّعْتَمَدُ قَوْلُہ، فِي الْجَرْحِ وَالتَّعْدِیلِ” میں آپ کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو اجتہاد و فقہ میں غیرمعمولی مہارت عطا فرمائی۔ آپ حدیث کی صحت و ضعف کے بارے میں بھی گہری بصیرت رکھتے تھے، عللِ حدیث اور رواۃِ حدیث میں ماہر تھے اور آپ کا فہم و تدبر بے مثال تھا۔
امام حاکم رحمہ اللہ (405-321ھ) فرماتے ہیں:
"فَضَائِلُ ہٰذَا الْإِمَامِ مَجْمُوعَۃٌ عِنْدِي فِي أَوْرَاقٍ کَثِیرَۃٍ.”
"امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے فضائل میرے پاس بے شمار اوراق میں محفوظ ہیں۔”
(معرفۃ علوم الحدیث، ص: 83)
علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وَلِابْنِ خُزَیْمَۃَ عَظَمَۃٌ فِي النُّفُوسِ، وَجَلَالَۃٌ فِي الْقُلُوبِ، لِعِلْمِہٖ، وَدِینِہٖ، وَاتِّبَاعِہِ السُّنَّۃَ.”
"امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے علم، تقویٰ، اور اتباع سنت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت اور احترام موجود ہے۔”
(سیر أعلام النبلاء: 374/14)
علمی ورثہ:
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے متعدد اہم کتابیں تصنیف کیں، جن میں سے دو نمایاں کتابیں "صحیح ابن خزیمہ” اور "کتاب التوحید” ہیں، جو مطبوع ہیں۔ پہلی کتاب کا مکمل عنوان ہے:
اَلْمُسْنَدُ الصَّحِیحُ الْمُتَّصِلُ بِنَقْلِ الْعَدْلِ عَنِ الْعَدْلِ مِنْ غَیْرِ قَطْعٍ فِي السَّنَدِ وَلَا جَرْحٍ فِي النَّقَلَۃِ
(صحیح ابن خزیمہ: 3/1، 186/3، النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر: 291/1)
صحیح ابن خزیمہ اسلامی فقہ کا ایک عظیم الشان شاہکار ہے۔ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ (463-392ھ) اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
شَرَطَ فِیہِ عَلٰی نَفْسِہٖ إِخْرَاجَ مَا اتَّصَلَ سَنَدُہ، بِنَقْلِ الْعَدْلِ عَنِ الْعَدْلِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.
"امام صاحب نے اپنے اوپر لازم کیا تھا کہ اس کتاب میں صرف وہ احادیث نقل کریں گے، جن کی سند عادل راویوں پر مشتمل ہو اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہوں۔”
(الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع: 185/2)
"کتاب التوحید” بھی اہل سنت کے عقیدے پر مشتمل ایک مدلل اور جامع کتاب ہے۔
شیوخ عظام:
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے اساتذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان میں سے چند مشہور اساتذہ کے اسماء درج ذیل ہیں:
◈ احمد بن سنان واسطی
◈ عباس بن عبد العظیم عنبری
◈ ابو زرعہ عبید اللہ بن عبد الکریم رازی
◈ عمرو بن فلاس
◈ ابو حاتم محمد بن ادریس رازی
◈ ابوبکر محمد بن اسحاق صاغانی
◈ موسیٰ بن خاقان بغدادی
◈ یعقوب بن سفیان فارسی
◈ یعقوب بن ابراہیم دورقی
◈ علی بن خشرم مروزی
◈ علی بن سعید نسوی
◈ علی بن مسلم طوسی
◈ علی بن سہل رملی
◈ علی بن عبد الرحمن بن مغیرہ مصری
◈ محمد بن بشار بندار وغیرہ
تلامذہ کرام:
بے شمار طلباء نے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ سے علم حاصل کیا۔ ان میں چند مشہور شاگرد یہ ہیں:
◈ ابو ولید حسان بن محمد فقیہ
◈ ابو احمد حسین بن علی بن محمد تیمی، المعروف بہ حُسَینک نیشاپوری
◈ ابو علی حسین بن محمد نیشاپوری
◈ ابو احمد عبد اللہ بن احمد جرجانی
◈ ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری
◈ ابو الحسن محمد بن حسین آبری
◈ ابو حاتم محمد بن حبان تمیمی سجستانی
◈ ابو احمد محمد بن محمد حاکم کرابیسی نیشاپوری
◈ مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری
◈ ابو حامد بن شرقی وغیرہ
اقوالِ زرّیں:
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے چند اقوال درج ذیل ہیں:
➊ لَیْسَ لِأَحَدٍ مَّعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْلٌ إِذَا صَحَّ الْخَبَرُ عَنْہُ.
"جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ثابت ہو جائے، تو اس کے مقابلے میں کسی کے لیے کچھ کہنا جائز نہیں۔” (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص: 84، وفي نسخۃ، ص: 105، الفقیہ والمتفقّہ للخطیب: 536/1، وسندہ، صحیحٌ)
➋ أَنَا عَبْدٌ لِّأَخْبَارِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.
"میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا غلام ہوں۔”
(الفقیہ والمتفقّہ للخطیب البغدادي: 289/1، وسندہ، حسنٌ)
عقیدہئ سلف صالحین:
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ سلف صالحین کے عقیدے پر قائم تھے۔ یہاں ان کے عقیدے کے چند پہلو بیان کیے گئے ہیں:
استواء علی العرش:
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مَنْ لَّمْ یُقِرَّ بِأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی عَلٰی عَرْشِہٖ، قَدِ اسْتَوٰی فَوْقَ سَبْعِ سَمَاوَاتِہٖ، فَہُوَ کَافِرٌ بِرَبِّہٖ، یُسْتَتَابُ، فَإِنْ تَابَ، وَإِلَّا ضُرِبَتْ عُنُقُہ،، وَأُلْقِيَ عَلٰی بَعْضِ الْمَزَابِلِ، حَیْثُ لَا یَتَأَذَّی الْمُسْلِمُونَ، وَالْمُعَاہَدُونَ بِنَتَنِ رِیحِ جِیفَتِہٖ، وَکَانَ مَالُہ، فَیْئًا لَّا یَرِثُہ، أَحَدٌ مِّنَ الْمُسْلِمِینَ، إِذِ الْمُسْلِمُ لَا یَرِثُ الْکَافِرَ، کَمَا قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.
"جو شخص اللہ تعالیٰ کے سات آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ہونے کا اقرار نہ کرے، وہ اپنے ربّ کے ساتھ کفر کرتا ہے۔ اسے توبہ کا کہا جائے گا، اگر توبہ کر لے تو بہتر ہے، ورنہ (اسلامی حکومت کی طرف سے) اسے قتل کر کے اس کی لاش کسی ایسی جگہ پر پھینک دی جائے جہاں اس کی بدبو سے مسلمان اور ذمی افراد کو تکلیف نہ ہو۔ اس کا مال فَے بن جائے گا، اور کوئی مسلمان اس کا وارث نہیں بن سکتا، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مسلمان کافر کا وارث نہیں بن سکتا۔” (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص: 84، وفي نسخۃ، ص: 105، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مَنْ أَقَرَّ بِذٰلِکَ تَصْدِیْقاً لِّکِتَابِ اللّٰہِ، وَلِأَحَادِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَآمَنَ بِہٖ مُفَوِّضًا مَّعْنَاہُ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ، وَلَمْ یَخُضْ فِي التَّأْوِیْلِ وَلاَ عَمَّقَ، فَہُوَ الْمُسْلِمُ الْمُتَّبِعُ، وَمَنْ أَنْکَرَ ذٰلِکَ، فَلَمْ یَدْرِ بِثُبُوْتِ ذٰلِکَ فِي الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، فَہُوَ مُقَصِّرٌ، وَاللّٰہُ یَعْفُو عَنْہُ، إِذْ لَمْ یُوجِبِ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ حِفظَ مَا وَرَدَ فِي ذٰلِکَ، وَمَنْ أَنکَرَ ذٰلِکَ بَعْدَ الْعِلْمِ، وَقَفَا غَیْرَ سَبِیْلِ السَّلَفِ الصَّالِحِ، وَتَمَعْقَلَ عَلَی النَّصِّ، فَأَمْرُہ، إِلَی اللّٰہِ، نَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الضَّلاَلِ وَالْہَوٰی، وَکَلاَمُ ابْنِ خُزَیْمَۃَ ہٰذَا – وَإِنْ کَانَ حَقّاً- فَہُوَ فَجٌّ، لاَ تَحْتَمِلُہ، نُفُوْسُ کَثِیْرٍ مِّنْ مُتَأَخِّرِي الْعُلَمَاءِ.
"جو شخص کتاب اللہ اور سنت رسول کی تصدیق کرتے ہوئے استواء علی العرش کے عقیدے کا اقرار کرتا ہے، اس کے معنیٰ (کیفیت) کو اللہ اور اس کے رسول کے سپرد کرتا ہے اور اس کی تاویل میں زیادہ غور و فکر نہیں کرتا، وہی سچا مسلمان ہے۔ جو اس عقیدے کا انکار کرے اور کتاب و سنت میں موجود دلائل سے بے خبر ہو، تو وہ گناہ گار ہے، لیکن اللہ اسے معاف کر دے گا، کیونکہ اللہ نے ہر مسلمان پر ان دلائل کو یاد کرنا فرض نہیں کیا۔ لیکن جو علم حاصل کرنے کے بعد اس کا انکار کرے، سلف صالحین کے راستے سے ہٹ کر چلے اور نص کو عقل کے تابع کر دے، تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ ہم گمراہی اور نفس پرستی سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا یہ قول برحق ہے، لیکن اکثر متاخرین علماء کے لیے اس کو سمجھنا مشکل ہے۔”
(سیر أعلام النبلاء: 373/14، 374)
صفات باری تعالیٰ:
صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَنَحْنُ وَجَمِیعُ عُلَمَائِنَا مِنْ أَہْلِ الْحِجَازِ، وَتِہَامَۃَ، وَالْیَمَنِ، وَالْعِرَاقِ، وَالشَّامِ، وَمِصْرَ، مَذْہَبُنَا أَنَّا نُثْبِتُ لِلّٰہِ جَلَّ وَعَلَا مَا أَثْبَتَہ، لِنَفْسِہٖ، نُقِرُّ بِذٰلِکَ بِأَلْسِنَتِنَا وَنُطَبِّقُ بِذٰلِکَ بِقُلُوبِنَا، مِنْ غَیْرِ أَنْ نُّشَبِّہَ وَجْہَ خَالِقِنَا بِوَجْہِ أَحَدٍ مِّنَ الْمَخْلُوقِینَ، وَعَزَّ رَبُّنَا عَنْ أَنْ نُّشَبِہَہ، بِالْمَخْلُوقِینَ، وَجَلَّ رَبُّنَا عَنْ مَّقَالَۃِ الْمُعَطِّلِینَ، وَعَزَّ أَنْ یَّکُونَ عَدَمًا کَمَا قَالَہُ الْمُبْطِلُونَ، لِأَنَّ مَا لَا صِفَۃَ لَہ، عَدَمٌ، تَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یَقُولُ الْجَہْمِیُّونَ الَّذِینَ یُنْکِرُونَ صِفَاتِ خَالِقِنَا، الَّذِي وَصَفَ بِہَا نَفْسَہ، فِي مُحْکَمِ تَنْزِیلِہٖ، وَعَلٰی لِسَانِ نَبِیِّہٖ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.
"ہم اور حجاز، تہامہ، یمن، عراق، شام اور مصر کے تمام علماء کا یہ مذہب ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے وہ تمام صفات ثابت کرتے ہیں جو اس نے خود اپنے لیے ثابت کی ہیں۔ ہم ان صفات کا زبان سے اقرار کرتے ہیں اور دل سے ان کی تصدیق کرتے ہیں، اور اللہ کے چہرے کو کسی مخلوق کے چہرے سے تشبیہ نہیں دیتے۔ ہمارا رب اس سے بلند ہے کہ اسے مخلوق سے تشبیہ دی جائے۔ وہ معطلہ کی باتوں سے بھی پاک ہے، کیونکہ جو چیز صفات سے خالی ہو، وہ معدوم ہی ہے۔ اللہ ان جہمیہ کی باتوں سے بلند ہے جو ہمارے خالق کی صفات کا انکار کرتے ہیں، جن صفات کو اللہ نے اپنی محکم کتاب میں اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان کیا ہے۔”
(کتاب التوحید وإثبات صفات الربّ: 26/1)
وفات حسرت آیات:
علم و فقہ، ورع و تقویٰ، اور اتباع سنت کی یہ عظیم شخصیت 311 ہجری میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئی۔
فجزاہ اللّٰہ عن الإسلام خیرًا.
خلاصہ:
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا شمار اسلام کے ممتاز محدثین اور فقہاء میں ہوتا ہے، جنہوں نے دین کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے حدیث اور فقہ میں گہرے مطالعے اور تحقیق کے ذریعے متعدد کتب تصنیف کیں، جن میں "صحیح ابن خزیمہ” اور "کتاب التوحید” شامل ہیں۔ ان کی کتابیں احادیث کی صحت پر مضبوط تحقیق اور اسلامی عقائد کی تفصیل پر مشتمل ہیں۔ امام ابن خزیمہ نے اللہ تعالیٰ کی صفات پر سلف صالحین کے عقیدے کی پیروی کی اور استواء علی العرش کے عقیدے کا دفاع کیا۔ ان کی تعلیمات اور علمی کاوشوں سے کئی شاگردوں نے استفادہ کیا، جو ان کے علم کی روشنی کو آگے لے کر چلے۔ امام ابن خزیمہ 311 ہجری میں وفات پا گئے، مگر ان کا علمی ورثہ آج بھی امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہے۔