امامت سے متعلق 10 شرعی احکام و مسائل

اماموں پر وبال

صحیح امامت پر اجر اور خطا پر وبال

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اگر اماموں نے نماز اچھی طرح (ارکان کی تعدیل اور سنتوں کی رعایت کے ساتھ) پڑھائی تو تمہارے لیے بھی ثواب ہے اور ان کے لیے بھی ثواب ہے اور اگر نماز پڑھانے میں خطا کی (یعنی رکوع و سجود کی عدم طمانیت، اور قومے جلسے کے فقدان سے نماز پڑھائی) تو تمہارے (مقتدیوں) کے لیے ثواب ہے اور ان کے لیے وبال ہے۔‘‘
(بخاری، الاذان باب اذا لم یتم الامام واتم من خلفہ، ۴۹۶.)

بے وضو یا جنبی امام کی نماز کا حکم

امام بغوی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی امام بے وضو یا بحالت جنابت نماز پڑھا دیتا ہے تو مقتدیوں کی نماز صحیح اور امام پر نماز کا اعادہ ہے خواہ اس نے یہ فعل ارادتاً کیا ہو یا لاعلمی کی بنا پر۔‘‘

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فجر کی نماز پڑھائی، نماز کے بعد اپنے کپڑوں میں احتلام کا نشان پایا۔ انہوں نے کپڑوں سے منی کو دھویا، غسل کیا اور نماز دوبارہ ادا کی۔
(الموطاء، کتاب الطہارہ، باب اعادہ الجنب الصلاۃ، ۳۱۱.)

انہوں نے مقتدیوں کو نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا۔

انفرادی مقتدی کی غلطی پر سجدہ سہو نہیں

اگر کوئی مقتدی انفرادی طور پر جماعت کے دوران غلطی کرے تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں۔

امام کی ذمہ داری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’امام مقتدیوں کا ضامن ہے اور موذن ان کا امین ہے۔ اے اللہ ہمارے اماموں کو ہدایت دے اور اذان دینے والوں کو معاف فرما دے۔‘‘
(ابو داؤد، الصلاۃ مایجب علی المؤذن من تعاھد الوقت، ۷۱۵.)

سیدنا سھل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کی احتیاط

آپ نوجوانوں کو نماز پڑھانے کے لیے آگے کرتے تھے۔ جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو فرمایا:

’’امام ضامن ہوتا ہے۔ اگر وہ درست نماز پڑھائے تو اس کے لیے اجر ہے اور مقتدیوں کے لیے بھی۔ اگر وہ نماز صحیح نہ پڑھائے تو مقتدیوں کے لیے اجر ہے اور اس پر گناہ ہے۔‘‘
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، ما یجب علی الامام، ۱۸۹.)

زبردستی امام بننے کی ممانعت

ناپسندیدہ امام کی نماز رد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’تین آدمیوں کی نماز قبول نہیں ہوتی:
➊ وہ غلام جو اپنے مالک سے بھاگ گیا ہو جب تک واپس نہ آجائے۔
➋ وہ عورت جس کا خاوند ناراض ہو لیکن وہ رات بھر سوتی رہے۔
➌ وہ آدمی جو لوگوں کی امامت کرائے جبکہ لوگ ناپسند کرتے ہوں۔‘‘
(ترمذی: الصلاۃ، باب: ما جاء فی من أم قوماء وہم لہ کارہون: ۰۶۳.)

ناپسندیدہ امام کی نماز اللہ تک نہیں پہنچتی

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’تین قسم کے لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی نہ ہی وہ آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے اور نہ ان کے سر سے اوپر جاتی ہے:
➊ وہ شخص جو کسی قوم کی امامت کراتا ہے جبکہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں۔
➋ وہ شخص جس نے کسی کی نماز جنازہ پڑھائی حالانکہ اسے نماز پڑھانے کا نہیں کہا گیا تھا۔
➌ وہ عورت جسے رات کے وقت اس کے شوہر نے بلایا لیکن اس نے انکار کیا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی، ۰۵۶.)

فاسق امام کو امامت سے ہٹانا

اگر کسی کے پاس مسجد میں امام مقرر کرنے کا اختیار ہو، تو اس پر لازم ہے کہ فاسق کو امامت سے ہٹا دے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم

ایک صحابی اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے قبلہ کی طرف تھوکا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو جب وہ نماز سے فارغ ہوئے فرمایا:

’’یہ تمہاری امامت نہ کرے۔‘‘

بعد میں جب اس صحابی نے امامت کی کوشش کی تو لوگوں نے اسے روک دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنائی۔

انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:

’’ہاں! تم نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: فی کراہیۃ البزاق فی المسجد: ۲۸۴.)

فاسق و فاجر کے پیچھے نماز کا حکم

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا فتویٰ

جب سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو محصور کر دیا گیا تو ان سے پوچھا گیا:

"فتنہ پرور لوگ ہمیں نماز پڑھاتے ہیں، ہم کیا کریں؟”

تو آپ نے فرمایا:

’’نماز لوگوں کے اعمال میں سب سے اچھا عمل ہے۔ جب لوگ اچھا کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی میں شامل نہ ہو۔‘‘
(بخاری، الآذان، باب امامۃ المفتون والمبتدع، ۵۹۶.)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی وضاحت

فضیلۃ الشیخ مفتی محمد الصالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہو، دین پر زیادہ عمل کرنے والا ہو، اس کے پیچھے اس انسان کی نسبت نماز افضل ہے جو دین میں سستی کرنے والا ہو۔‘‘

اہلِ بدعت کی دو اقسام ہیں:

➊ وہ جن کی بدعتیں کفر تک پہنچا دیتی ہیں۔

➋ وہ جن کی بدعتیں کفر تک نہیں پہنچتیں۔

پہلی قسم کے اہلِ بدعت کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ وہ کافر ہیں، اور ان کی نماز اللہ کے ہاں قبول نہیں۔ لہٰذا وہ مسلمانوں کے امام بھی نہیں بن سکتے۔

دوسری قسم کے اہلِ بدعت کے پیچھے نماز کے جواز میں علماء کرام کا اختلاف ہے:

راجح قول یہ ہے کہ ان کے پیچھے نماز جائز ہے، سوائے اس کے کہ ان کے پیچھے نماز چھوڑنے میں کوئی مصلحت ہو۔

مثلاً: اگر ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنے سے انہیں تنبیہ ہو اور وہ اپنے فسق و فجور سے باز آ جائیں، تو اس مصلحت کے تحت بہتر ہے کہ ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔
(فتاوی اسلامیہ، اول، ۹۸۳.)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1