الکحل کا استعمال اور شراب کی نجاست کا حکم
سوال
الکحل اور کلونیا کے وہ مائعات جو طباعت، پینٹنگ اور لیبارٹری ٹیسٹوں میں استعمال ہوتے ہیں، کیا ان کا استعمال جائز ہے؟ نیز، کیا خمر (شراب) نجس ہے؟
الجواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سوال کے جواب میں شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کی رہنمائی کو پیش خدمت کیا جاتا ہے جو انہوں نے فتاویٰ (جلد 4، صفحہ 254) میں بیان فرمائی ہے۔
الکحل کی حقیقت اور اس کا استعمال
الکحل عام طور پر لکڑی یا بعض پودوں کی جڑوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
اس میں ایک خاص مادہ "تالٹا” پایا جاتا ہے جو ترش پھلوں کے چھلکوں میں وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔
یہ مادہ مشاہدے میں آیا ہے کہ آگ پکڑنے والا اور تیزی سے بخارات بننے والا مائع ہے۔
اگر اسے تنہا استعمال کیا جائے تو یہ زہر قاتل اور بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔
جب اسے دیگر اشیاء کے ساتھ مناسب مقدار میں ملایا جاتا ہے تو نشہ آور اثر پیدا کرتا ہے۔
شرعی حکم:
الکحل بذات خود مشروب اور نشہ آور طور پر استعمال نہیں کیا جاتا، مگر جب اسے دیگر چیزوں میں شامل کیا جائے اور وہ نشہ پیدا کرے، تو وہ آمیزہ "خمر” (شراب) کہلائے گا۔ اور خمر کا حکم کتاب، سنت اور اجماع کی روشنی میں حرام ہے۔
کیا خمر نجس ہے یا نہیں؟
یہ مسئلہ علماء کے مابین اختلافی ہے:
جمہور علماء:
خمر کو نجس العین مانتے ہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی رائے:
خمر نجس العین نہیں بلکہ معنوی نجاست رکھتی ہے، یعنی اس میں نجاست کا پہلو سکر (نشہ) کی وجہ سے ہے نہ کہ ظاہری نجاست کی وجہ سے۔
دلائل ابن عثیمین رحمہ اللہ:
➊ اصل اشیاء کی طہارت:
کسی چیز کے نجس ہونے کی دلیل نہ ہو تو وہ پاک شمار ہوگی۔
ہر حرام چیز نجس نہیں ہوتی، مثال کے طور پر زہر حرام ہے لیکن نجس نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ﴾
… سورة المائدة
اس آیت میں رجس کو عملِ شیطان قرار دیا گیا ہے، جو کہ عملی ناپاکی ہے، ذاتی ناپاکی نہیں۔
➋ شراب کو مدینہ کی گلیوں میں بہا دینا:
جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو صحابہ نے اسے مدینہ کی گلیوں میں بہا دیا۔
اگر یہ نجس العین ہوتی تو ایسے بہانا حرام ہوتا، جیسا کہ پیشاب بہانے کی ممانعت ہے۔
➌ برتنوں کو دھونے کا حکم نہ دینا:
جب گھریلو گدھوں کا گوشت حرام ہوا تو نبی ﷺ نے برتن دھونے کا حکم دیا۔
لیکن شراب حرام ہونے کے باوجود برتن دھونے کا حکم نہیں دیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ نجس العین نہیں۔
شرعی استعمال کی حد بندی
اگر کپڑوں یا برتنوں پر شراب لگ جائے تو ان کا دھونا ضروری نہیں۔
ہر استعمال حرام نہیں، بلکہ پینا یا وہ استعمال جو مفاسد کا سبب بنے، حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاجتَنِبوهُ
(المائدہ: 90)
اس اجتناب کا سبب آیت نمبر 91 میں بیان کیا:
إِنَّما يُريدُ الشَّيطـٰنُ أَن يوقِعَ بَينَكُمُ العَدٰوَةَ وَالبَغضاءَ فِى الخَمرِ وَالمَيسِرِ وَيَصُدَّكُم عَن ذِكرِ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلوٰةِ
یعنی اجتناب کا سبب وہ مفاسد ہیں جو پینے سے پیدا ہوتے ہیں، دوسرے استعمالات میں یہ مفاسد نہیں پائے جاتے۔
الکحل کے جائز استعمالات
جب الکحل میں نشے کے مفاسد نہ ہوں اور کوئی منفعت ہو، تو اس کے ان استعمالات سے منع کرنے کی کوئی شرعی بنیاد نہیں۔
اگر ضرورت ہو اور حرمت کا احتمال کمزور ہو، تو یہ احتمال زائل ہو جاتا ہے۔
طباعت، پینٹنگ، اور لیبارٹری کے مخصوص استعمالات جائز ہیں ان شاء اللہ۔
شرعی اصول:
اللہ تعالیٰ نے زمین میں موجود ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا فرمائی ہے۔
جب تک کتاب و سنت میں کوئی ممانعت نہ ہو، ہم بندوں کو ان اشیاء کے استعمال سے نہیں روک سکتے۔
ایک اعتراض اور اس کا جواب:
اعتراض:
"جب شراب حرام ہوئی تو اسے ضائع کیوں کیا گیا؟”
جواب:
یہ درست ہے کہ شراب بہا دی گئی۔
لیکن یہ عمل تیزی سے حکم پر عمل کرنے کا نتیجہ تھا۔
اس وقت شراب کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہا تھا، اس لیے بہا دیا گیا۔
اختتامی بات:
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی اس تحقیق میں بڑی گہرائی اور بصیرت ہے، اور یہ مسئلہ مزید تفصیل سے مسئلہ نمبر 148 میں زیر بحث لایا جائے گا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب