الکافی کی روشنی میں شیعہ عقائد کا منصفانہ جائزہ
تحریر: فضیلۃ الشیخ أبوبکرجابر الجزائری
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

مقدمہ

الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ نبینا محمد وآلہ وصحبہ وبعد!

 

میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اس حقیقت سے روشناس کراؤں جس کا میں ایک عرصے تک شکار رہا۔ درحقیقت، میں آلِ بیت شیعوں سے ناواقف تھا اور نہیں جانتا تھا کہ شیعوں میں بھی کچھ افراد خود کو آلِ بیت کہلاتے ہیں۔ مجھے یہ گمان تھا کہ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو نبی کریم ﷺ کی محبت میں غلو سے کام لیتی ہے اور اسی غلو کے نتیجے میں اہل سنت والجماعت سے اختلاف کرتی ہے۔ اس اختلاف کی شدت یہاں تک ہے کہ وہ اہلِ سنت کو فاسق و فاجر قرار دیتے ہیں، جو کہ بے حد تکلیف دہ بات ہے۔ ایک بھائی، دوسرے کلمہ گو بھائی پر فاسق ہونے کا حکم لگا دے یا اسے ایسے لوگوں میں شمار کرے جن کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں! ایسے معاملات دراصل دین سے خروج کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔

البتہ، میری یہ کیفیت زیادہ عرصہ نہ رہی۔ کچھ دینی بھائیوں نے مشورہ دیا کہ میں اس فرقے کی بنیادی کتب کا مطالعہ کروں تاکہ حتمی فیصلہ تک پہنچ سکوں۔ اتفاق سے میرے ہاتھ کلینی کی کتاب "الکافیآ گئی، جو شیعوں کے نزدیک مرجع اور سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس مطالعے کے بعد مجھے کئی علمی حقائق معلوم ہوئے اور میں نے اُن دوستوں سے معذرت کرلی جو میرے نرم گوشے پر معترض تھے اور اسے کم فہمی سمجھتے تھے۔ میں پہلے یہ سمجھتا تھا کہ شاید اہلِ سنت والجماعت، شیعوں کے ساتھ ناسمجھی میں ظلم و زیادتی کر رہے ہیں۔ لیکن تحقیق کے بعد یہ واضح ہوا کہ شیعہ حضرات واقعی غلطی پر ہیں۔

یہاں پر، میں شیعہ مسلک کے نزدیک اہم ترین کتاب "الکافی" کے کچھ حوالے اور اُن سے نکلنے والے نتائج پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہی وہ کتاب ہے جسے شیعہ حضرات اپنے مذہب کی بنیاد گردانتے ہیں۔ میری شیعہ بھائیوں سے گذارش ہے کہ اس کتاب کا کھلے ذہن اور اخلاص کے ساتھ مطالعہ کریں، اگر اس کے بعد بھی وہ اپنے مذہب کو درست سمجھتے ہیں، تو کم از کم انہیں حقیقت سے آگاہ رہنا چاہیے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو حق کے لیے کھول دے تاکہ وہ اس مذہب کے فاسد اعتقادات سے تائب ہوکر اہل سنت والجماعت کے حق ہونے کا اعتراف کریں۔ میری درخواست ہے کہ اس مذہبِ فاسد سے براءت اختیار کرکے قرآن و سنت کی شاہراہِ ہدایت کو اپنالیں۔

اسی طرح، میں اہلِ سنت کے ہر فرد کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تعصّب، تقلیدِ جامد، خواہشات یا ذاتی مفاد کی خاطر واضح حق کو بھی رد نہ کریں۔ ایسی ہٹ دھرمی انسان کو نفاق، شرور اور فتنے کے گرداب میں دھکیل دیتی ہے۔ یہ شخص پھر معاشرے کے لیے ناسور بن جاتا ہے: سنّت کے بجائے بدعت کی طرف بلاتا ہے، صراطِ مستقیم کے بجائے کج روی اختیار کرکے ایک نئے باطل مذہب کی بنیاد ڈال دیتا ہے۔

فی الحال، میں شیعہ حضرات سے مخاطب ہوکر کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کے مذہب کے چند نمایاں اعتقادات اور رسم و رواج جو آپ کے معاشرے اور ماحول میں رائج ہیں، حقیقت میں خطرناک جرائم کا مجموعہ ہیں۔ ان رسوم و عقائد کو مختلف عنوانات سے خوبصورت بنا کر پیش کیا گیا ہے، تاکہ اسلام کے نام پر عوام الناس کو دینِ حق سے دور کیا جاسکے۔ یہاں میں آپ کی بنیادی کتاب "الکافی" سے اخذ شدہ سات اہم عقائد یا بدیہی حقائق پیش کروں گا۔ آپ ان کا بغور مطالعہ کریں اور خود فیصلہ کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو راہِ حق کی بصیرت عطا فرمائے اور اسے بطورِ دین اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (اِنَّہٗ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ وَلَا قَادِرَ سِوَاہُ)

1. قرآنِ کریم سے بے نیازی کا عقیدہ

شیعہ حضرات کا دعویٰ ہے کہ آلِ بیت رسول ﷺ سابقہ کتبِ الٰہیہ، یعنی تورات و انجیل وغیرہ رکھنے کی وجہ سے قرآنِ کریم سے مستغنی ہوسکتے ہیں۔ یہ بات شیعوں کی بنیادی کتاب "الکافی" میں "کتاب الحجۃ” کے صفحہ ۲۰۷ پر مذکور ہے۔ وہاں ایک باب ہے:

باب انّ الائمۃ علیھم السلام عندھم جمیع الکتب التی نزلت من اللہ عزوجل وانّھم یعرفون کلّھا علی اختلاف السنتھا

اس باب میں ابو عبد اللہ (جعفر صادقؓ) سے دو روایات نقل کی گئی ہیں کہ وہ تورات، انجیل اور زبور کو سریانی زبان میں پڑھا کرتے تھے۔ یہاں سے ایک ایسا عقیدہ اخذ کیا گیا ہے کہ آلِ بیت اور ان کے پیروکار پرانے آسمانی صحائف کے علم کی بنا پر قرآن مجید سے مستغنی ہوسکتے ہیں۔

تنقیدی جائزہ

  • یہ ایک گہری سازش ہے کہ شیعوں کو قرآنِ کریم کے دامن سے الگ کردیا جائے تاکہ ان کا اسلام سے حقیقی تعلق باقی نہ رہے۔
  • کوئی شخص کبھی بھی قرآنِ کریم سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی نے یہ دعویٰ کیا تو وہ ملت اسلام سے خارج شمار ہوگا۔
  • قرآن کریم مسلمانوں میں اتحاد، اخوت اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اگر کوئی منسوخ شدہ اور تحریف شدہ کتابوں کی طرف متوجہ ہوجائے اور قرآن سے بے رغبتی اختیار کرے، تو یہ واضح کفر ہے۔
  • حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں جب تورات کا ایک ورق دیکھا گیا تو نبی کریم ﷺ نے ناراضی ظاہر فرمائی کہ جب میں تمہارے پاس کتابِ خدا (یعنی قرآن) لے آیا ہوں تو پھر سابقہ صحائف کا مطالعہ کیوں؟
  • یہ واضح ہے کہ یہ عقیدہ آلِ بیت کے حق میں نہیں بلکہ ان کے خلاف ایک ڈھونگ ہے۔ ایسی نسبتیں آلِ بیت سے نہیں ہوسکتیں کیونکہ وہ پاکیزہ لوگ تھے۔
  • بے نیازیِ قرآن کا عقیدہ ارتداد اور اہل اسلام سے علیحدگی کے مترادف ہے۔

2. کسی بھی صحابی کے جامعِ قرآن اور حافظِ قرآن نہ ہونے کا عقیدہ

کتاب الکافی کے "کتاب الحجۃ” صفحہ ۲۶ پر ایک روایت میں حضرت جابرؓ کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ:

میں نے حضرت جعفرؓ کو یہ فرماتے سنا کہ اگر کوئی کہے کہ اس نے مکمل قرآن یاد کیا ہے تو وہ جھوٹا ہے، کیونکہ حضرت علیؓ اور ان کے بعد آنے والے ائمہ کے سوا کسی نے پورا قرآن جمع نہیں کیا۔

تنقیدی جائزہ

  1. اس سے صحابہ کرامؓ پر بدترین بہتان لگایا گیا ہے کہ انہوں نے مکمل قرآن جمع نہیں کیا۔ حالانکہ حضرت عثمانؓ، ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ اور عبد اللہ بن مسعودؓ سمیت سینکڑوں صحابہ رضی اللہ عنہم نے قرآن حفظ بھی کیا اور جمع بھی کیا۔
  2. صحابہؓ کو جھوٹا کہنا اور ان کی عدالت کو مشکوک بنانا دراصل پورے دین پر حملہ ہے، کیونکہ دین کا بڑا حصہ انہی اصحابِ رسولؐ کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔
  3. اس سے یہ بھی نتیجہ نکلا کہ شیعہ کے نزدیک تمام مسلمان (اہلِ سنت) ضلالت پر ہیں، کیونکہ گویا ان کے پاس ناقص قرآن ہے۔
  4. قرآنِ کریم کی مکمل حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لی ہے:

    اِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَ اِنّا لَہٗ لَحٰفِظونَ (الحجر:9)
    ایسا عقیدہ رکھنا اس وعدۂ الٰہی کی تکذیب ہے اور تکذیبِ الٰہی کھلا کفر ہے۔

  5. شیعہ کا دعویٰ یہ بھی بن جاتا ہے کہ وہ اکیلے مکمل اور درست قرآن رکھتے ہیں۔ لیکن اگر ان سے کوئی پوچھے تو وہ ایک آیت یا سورة بھی ایسی نہیں دکھا سکتے جو بقیہ امت کے پاس نہ ہو۔

3. انبیاء کے معجزات آلِ بیت کے ساتھ مخصوص ہونے کا عقیدہ

کتاب "الکافی” میں (کتاب الحجۃ، ص:۲۲۷) ابو بصیر کی روایت نقل ہے کہ امیر المؤمنین علیؓ رات کے اندھیرے میں نکلے تو آپؓ حضرت آدم علیہ السلام کی قمیص پہنے ہوئے تھے، سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی آپؓ کی انگلی میں تھی اور عصائے موسیٰ آپؓ کے ہاتھ میں تھا۔ ایک اور روایت میں مذکور ہے کہ امام جعفرؓ نے فرمایا کہ میرے پاس موسیٰ علیہ السلام کی الواح اور عصا موجود ہے، اور ہم انبیاء کے وارث ہیں۔

تنقیدی جائزہ

  • اس طرح کے عقائد شیعہ حلقوں میں معجزاتِ انبیاء کو ائمہ کے پاس ثابت کرتے ہیں۔
  • حضرت علیؓ کا اپنا واضح ارشاد ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد ہمارے پاس کوئی ایسی خاص چیز نہیں ہے سوائے ان چند احکامات کے جو تلوار کے میان میں لکھے ہوئے تھے۔
  • اگر واقعی آلِ بیت کے پاس یہ تمام معجزاتی سامان تھا تو تاریخ میں متعدد مواقع پر انہوں نے اسے کیوں استعمال نہ کیا؟ خصوصاً جب شیعوں کو سخت آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔
  • واضح نظر آتا ہے کہ ایسی روایات کے ذریعے فرقہ وارانہ بنیادوں پر اسلام میں دراڑ ڈالنے کی کوشش ہے۔

4. اہلِ بیت کا تمام نبوی علوم سے بہرہ مند ہونے کا عقیدہ

الکافی میں (کتاب الحجۃ، ص:۱۳۸) ابو بصیر سے مروی ہے کہ امام جعفر علیہ السلام نے بتایا:

  • رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو علم کے ہزار باب سکھائے، جن میں سے ہر باب مزید ہزار ابواب پر مشتمل ہے۔
  • ایک صحیفہ (جامعہ) ہے جس کی طول 70 ہاتھ ہے اور وہ نبی کریم ﷺ کے املاء سے حضرت علیؓ نے لکھا ہے۔ اس میں حلال و حرام کے تمام تفصیلی احکامات موجود ہیں۔
  • ہمارے پاس "علمِ جفر” ہے جس میں تمام انبیاء، اولیاء اور علماء بنی اسرائیل کے علوم ہیں۔
  • ہمارے پاس "مصحفِ فاطمہؓ” بھی ہے جو تمہارے قرآن سے تین گنا بڑا ہے اور اس میں سے ایک حرف بھی قرآنِ کریم سے نہیں ملتا۔
  • ہمارے پاس ماضی اور مستقبل قیامت تک کا سارا علم ہے۔

نتائج :

  1. اس عقیدے سے قرآن کریم سے بے نیازی ثابت ہوتی ہے، جو صریحاً کفر ہے۔
  2. عوام الناس اور پوری امت کو ان علوم سے محروم رکھ کر نبی کریم ﷺ کی طرف خیانت منسوب کی جاتی ہے۔
  3. یہ حضرت علیؓ کے اُس بیان کی تکذیب ہے جس میں آپؓ نے فرمایا کہ آپؓ کے پاس شریعت کا کوئی مخفی حصہ یا مخصوص علم نہیں۔
  4. حضرت فاطمہؓ پر بھی تہمت کہ وہ (نعوذ باللہ) ایسا “مصحف” رکھتی تھیں جو قرآن کے بالمقابل تین گنا بڑا تھا اور اسے عام امت سے چھپایا گیا۔
  5. یہ تصور کہ صرف شیعانِ آلِ بیت کے پاس اصل علوم ہیں، باقی ساری امت گمراہ ہے، سراسر خلافِ اسلام ہے۔
  6. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

    مَن یَبتَغِ غَیرَ الإِسلَامِ دِینًا فَلَن یُقبَلَ مِنهُ (آل عمران:85)
    اسلام سے باہر کوئی بھی راستہ اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں۔

5. شیعہ کی قربانی کا عقیدہ

کتاب "الکافی” (کتاب الحجۃ، ص:۲۶۰) میں منقول ہے کہ ابو الحسن الکاظم (ساتویں امام شیعہ اثنا عشریہ) نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ ایک بار شیعوں پر غضب ناک ہوا تو اللہ نے مجھے اختیار دیا کہ یا تو تم رہو اور شیعہ قربان ہوجائیں، یا تم قربانی دے کر شیعوں کو بچالو۔ میں نے اپنی جان دے کر شیعوں کو بچانا پسند کیا۔

تنقیدی جائزہ

  • یہ عقیدہ عام فہم عقل میں بھی نہیں آتا کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ نے نبی کی طرح کسی امام کو وحی کے ذریعے آپشن دیا ہو۔
  • حضرت موسیٰ کاظمؒ نہ نبی تھے نہ رسول۔ ان کے بارے میں ایسا عقیدہ درحقیقت نبوت کے تسلسل کا شائبہ دیتا ہے، جو عقیدہ ختمِ نبوت کے سراسر خلاف ہے۔
  • اس عقیدے میں عیسائیوں کے کفارہ کے تصور سے مشابہت پائی جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انسانوں کے گناہوں کا کفارہ دیا۔ یہاں بھی کہا جارہا ہے کہ موسیٰ کاظمؒ نے اپنی قوم کا کفارہ بن کر خود کو قربان کردیا۔
  • یہ واضح کفر کے مترادف عقیدہ ہے، کیونکہ یہ توحید اور ختمِ نبوت کے منافی ہے۔

6. امام کی معصومیت کا عقیدہ

الکافی (کتاب الحجۃ، ص:۲۲۹) میں دو روایات ہیں:

  1. ایک روایت میں مفضل ابو عبد اللہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا بندہ بھی ہے جس کی اطاعت اللہ نے فرض کی ہو مگر اس پر وحی نہ آتی ہو؟ امام کا جواب تھا:

    ایسا ہونا ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کی اطاعت واجب کرے اور اس پر آسمان کی خبریں (وحی) نہ آئیں۔

    اس بیان سے ائمہ کو منصبِ نبوت کے برابر قرار دیا جارہا ہے کہ ان پر بھی وحی آتی ہے۔

  2. دوسری روایت میں کہا گیا:

    الائمۃ بمنزلۃ الانبیاء او بمنزلۃ رسول اللہ ﷺ الا فی موضوع النساء۔
    (یعنی ائمہ انبیاء کی طرح یا رسول اللہ ﷺ کی طرح ہیں، صرف مسئلہ نکاح میں فرق ہے۔)

تنقیدی جائزہ

  • یہ عقیدہ رکھنا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی وحی جاری ہے اور ائمہ اسی طرح معصوم ہیں، سراسر کفرِ بواح ہے۔
  • ایسی روایات کا مقصد شیعوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے بالکل الگ کرکے ایک الگ دین کی بنیاد پر کھڑا کرنا معلوم ہوتا ہے۔
  • جب ائمہ کو نبی کے برابر اور معصوم کہا گیا تو پھر چار سے زیادہ نکاح وغیرہ کے بعض فضائل اور احکام میں وہی مقام ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔
  • اس طرح کے عقائد شیعوں کو اسلامی دھارے سے عملاً الگ کردیتے ہیں۔

7. صحابہ کرام کے ارتداد کا عقیدہ

شیعہ کا یہ عقیدہ مشہور و معروف ہے کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد صرف تین یا چار صحابہ (مثلاً سلمانؓ، مقدادؓ، ابوذرؓ اور عمارؓ وغیرہ) کے سوا سب کے سب نعوذباللہ مرتد ہوگئے۔ شیخین (ابوبکرؓ و عمرؓ) کے بارے میں تو متعدد شیعہ کتب میں تکفیر کے فتاویٰ موجود ہیں۔ مثلاً:

  • الکافی (ص:۲۰) پر حضرت ابوجعفرؓ کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ ابوبکرؓ و عمرؓ مرتد ہوگئے تھے اور بغیر توبہ مر گئے۔ ان پر اور اُن کی مدد کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو۔
  • الکافی (ص:۱۰۷) میں ہے کہ وہ دونوں (ابوبکرؓ و عمرؓ) منافق اور کافر تھے۔ ان پر اللہ اور ملائکہ اور تمام مخلوق کی لعنت ہو۔

تنقیدی جائزہ

  • صحابہ کرامؓ وہ پاکیزہ ہستیاں ہیں جن کی شان میں قرآنِ کریم نے بارہا رضائے الٰہی کا اعلان کیا۔
  • انہیں مرتد اور کافر کہنا دراصل اسلام کی جڑ پر کلہاڑی چلانا ہے۔
  • یہی اصحابِ رسولؐ تھے جنہوں نے اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔
  • درحقیقت یہ الزامات اسلام کو ختم کرنے اور صحابہ کے ذریعے مضبوط ہونے والی دین کی عمارت ڈھانے کی سازش ہے۔
  • معلوم ہوتا ہے کہ یہ یہودی اور مجوسی سازشوں کا نتیجہ ہے، جسے عبد اللہ بن سبا یہودی نے ہوا دی اور اسی کی بدولت شیعہ مسلک وجود میں آیا۔

نتیجہ

  • اسی عقیدے پر شیعہ مذہب کی بنیادیں کھڑی ہیں کہ وہ ایک مکمل الگ دین رکھتے ہیں جس میں امامت و ولایت کے مخصوص تصورات ہیں۔
  • امامت کا تعلق نبوت کی طرح وحی اور معصومیت سے جوڑ کر اہلِ سنت سے بالکل الگ شناخت بنائی گئی۔
  • اگر واقعتاً کوئی اسلام پر قائم ہے تو وہ اہلِ سنت والجماعت ہیں جنہوں نے صحابہؓ و آلِ بیتؓ سب سے محبت و وفا کی روایت کو قائم رکھا۔
  • شیعہ حضرات اگر حقیقت میں طالبِ حق ہیں تو انہیں ان باطل عقائد سے توبہ کرکے اہلِ سنت کے دامن میں آنا چاہیے۔

اختتامی نصیحت

اے شیعہ حضرات! آپ کے سامنے یہ تمام حقائق آپ کی مستند ترین کتاب "الکافی" ہی سے پیش کیے گئے ہیں۔ آپ اگر ان عقائد کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ کتنا شدید انحراف ہے۔ میری آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ:

  • اپنے اور اپنے اہل و عیال کے ایمان کی حفاظت کی فکر کریں۔
  • کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ ﷺ سے جڑ جائیں۔
  • ان انتہاپسندانہ نظریات اور خطرناک اعتقادات سے کنارہ کشی اختیار کریں۔

اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور حق کو پہچاننے کے بعد اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم وحدتِ امت کو نقصان پہنچانے کے بجائے اللہ کی کتاب اور نبی کریم ﷺ کی سنت کے گرد متحد ہوں۔

وسلامٌ عَلَی المرسلین، والحمد للہ ربّ العالمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1