اللہ کے نام "الستار” سے متعلق 7 شرعی رہنما اصول
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص ،ج1ص، 207

السؤال:

کیا "الستّار” اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک ہے؟ بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں کہ یہ اسم اسماء حسنیٰ میں نہیں آیا اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نام توقیفی ہیں، اس لیے اپنی طرف سے کوئی نام شامل نہیں کیا جا سکتا۔
(سوال از نادر شاہ، طالب علم نبوی)

الجواب:

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کے نام توقیفی ہیں

آپ کا یہ مؤقف بالکل درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء توقیفی ہیں، یعنی انسان اپنی طرف سے کوئی نیا نام اللہ تعالیٰ کے لیے اختیار نہیں کر سکتا۔

حدیث میں وارد "الستّار” کا ذکر

سنن النسائی (1/26) حدیث نمبر 939 میں بسند صحیح سیدنا یعلی بن اُمیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کھلے میدان میں نہاتے ہوئے دیکھا، تو آپ منبر پر تشریف لائے اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا:

"إِنَّ اللَّهَ حَلِيمٌ، حَيِيٌّ، سِتِّيرٌ، يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسِّتْرَ، فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْتَتِرْ”

یعنی "اللہ تعالیٰ بردبار، شرم و حیا والا اور پردہ پوش ہے، وہ حیا اور پردہ داری کو پسند کرتا ہے، جب تم میں سے کوئی غسل کرے تو پردہ کرے۔”

(احمد 4/224، ابوداؤد 2/201 حدیث نمبر 4012، المشکاة 1/49 حدیث نمبر 447، الإرواء 7/397 حدیث نمبر 2335، بیہقی 1/198)

الستیر اور الستار کے مابین تعلق

حدیث میں الستیر آیا ہے۔

علماء کے مطابق "الستّیر” اور "الستّار” دونوں کا مفہوم ایک جیسا ہے، اور اللہ تعالیٰ پر ان دونوں ناموں کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔

وہ اسماء حسنیٰ جو مشہور حدیث ترمذی میں نہیں آئے

درج ذیل اسماء بھی اللہ تعالیٰ کے لیے وارد ہوئے ہیں، اگرچہ یہ ترمذی کی مشہور حدیث میں مذکور نہیں:

«اَلْحَیِیُّ، السِّتِّیْرُ، الْحَنَّانُ، الْمَنَّانُ، الْمُسْتَعَانُ، العَلّام، المُحْسِن، الجَمِیل، المَوْلی، النَّصِیر، السَّیِّد، المُسَعِّر، الطَّیِّب، الوَتْر، الكَرِیم، الأَكْرَم، الشَّافِی، الأَعْلَی، المُبِین، العَالِم، غَافِر الذَّنْب، قَابِل التَّوْب، شَدِید العِقَاب، ذِي الطَّوْل، الجَوَاد، اللَّطِیف، الرَّفِیق، أَهْل التَّقْوَی، أَهْل المَغْفِرَة، خَیْر الحَافِظِین، خَیْر الرَّاحِمِین، نِعْمَ المَوْلَی، نِعْمَ النَّصِیر، نِعْمَ المَاهِدُون، الظَّاهِر، المُبَارَك، فَعَّالٌ لِمَا یُرِید، ذُو العَرْشِ المَجِید، القَرِیب، القَائِم، الأَعَزّ، السُّبُّوح، القَاهِر، الغَالِب، الكَافِي، الصَّالِح، مُقَلِّب القُلُوب»

بعض دیگر احادیث میں اسماء حسنیٰ کا ذکر

اللہ تعالیٰ محسن ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"جب تم فیصلہ کرو تو عدل سے کام لو اور قتل کرتے وقت بھی احسان سے، کیونکہ اللہ محسن ہے اور احسان کو پسند فرماتا ہے۔”
(ابن ابی عاصم، الدیات، ص: 52، ابن عدی، الکامل 6/2145، الصحیحہ 1/761، حدیث 479، احمد 5/154، 177)

اللہ تعالیٰ جواد اور ماجد ہے
حدیث ابوذر میں ہے:

"اگر تمام انسان و جن، زندہ و مردہ، سب مجھ سے مانگیں اور میں سب کو عطا کر دوں، تو میرے خزانوں سے اتنا ہی کم ہو گا جیسے سوئی سمندر میں ڈالی جائے اور نکالی جائے۔”
"میں جواد ہوں، ماجد ہوں، میرا دینا بھی کلام ہے، میرا عذاب بھی کلام ہے۔”
(ابن ماجہ 2/1422 حدیث 4257، المشکاة 1/205 حدیث 2326، 2350)

اللہ تعالیٰ طیب ہے اور طیب کو پسند کرتا ہے
حدیث میں ہے:

"اللہ طیب ہے، طیب کو پسند کرتا ہے، صاف ہے، صفائی کو پسند کرتا ہے، کریم ہے، کرم کو پسند کرتا ہے، سخی ہے، سخاوت کو پسند کرتا ہے…”
(مسند احمد، ترمذی، مسلم، المشکاة 2/431، ترمذی حدیث 3186، مسلم 2/322)

اللہ تعالیٰ رفیق (نرم) ہے
حدیث مسلم 651 میں ہے:

"اللہ رفیق ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے۔”

اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے
حدیث مسلم اور دیگر کتب حدیث میں وارد ہوا:

"اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔”

ابن ماجہ حدیث 3859 میں دعا کا ذکر
"اے اللہ! میں تیرے ان ناموں کے ساتھ تجھ سے سوال کرتا ہوں جو طیب، طاہر، مبارک اور تجھے محبوب ہیں…”

تاہم اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔

کیا "الستّار” بطور نام رکھنا درست ہے؟

تحقیقِ ثانی کے مطابق، اگرچہ "ستّار” کے معنی میں اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال درست ہے، لیکن:

"الستّار” کو بطور اسم استعمال کرنا (جیسے دعا میں یا "عبدالستار” نام رکھنا) درست نہیں۔

کیونکہ قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے "الستّار” نام نص قطعی سے ثابت نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے نام توقیفی ہیں، اس لیے صرف وہی نام استعمال کیے جائیں گے جو نصوص سے ثابت ہوں۔

فتاویٰ (8/441) مسئلہ نمبر 1832 میں اس مسئلہ کی وضاحت موجود ہے۔

خلاصہ:

"الستّیر” حدیث سے ثابت ہے، اور اس کا مفہوم "الستّار” سے مشابہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کے لیے "ستّار” کا اطلاق معنوی طور پر درست ہے، لیکن بطور اسم یا دعا میں استعمال یا "عبدالستار” نام رکھنا درست نہیں کیونکہ اسماء اللہ توقیفی ہیں۔

مکمل احتیاط یہی ہے کہ صرف وہی نام استعمال کیے جائیں جو قرآن یا صحیح حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوں۔

ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1