اہل جاہلیت، اللہ کی نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا :
يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّـهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ [16-النحل:83]
” اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں پھر ان کا انکار کر دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر ہی کافر ہیں۔“
اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں اپنے بندوں کو عطا کی ہیں، ان آیتوں میں انکا ذکر فرمایا ہے :
وَاللَّـهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَى حِينٍ ٭ وَاللَّـهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ كَذَلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ ٭ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِينُ [16-النحل:80]
”اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں میں سکونت کی جگہ بنا دی ہے اور اسی نے تمہارے لیے چوپایوں کی کھالوں کے گھر بنا دیے ہیں، جنہیں تم ہلکا پھلکا پاتے ہو اپنے کوچ کے دن اور اپنے ٹھہرنے کے دن بھی، اور ان کی اون اور روؤں اور بالوں سے بھی اس نے بہت سے سامان اور ایک وقت مقرره تک کے لیے فائده کی چیزیں بنائیں۔ اللہ ہی نے تمہارے لیے اپنی پیدا کرده چیزوں میں سے سائے بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لیے پہاڑوں میں غار بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لیے کرتے بنائے ہیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسے کرتے بھی جو تمہیں لڑائی کے وقت کام آئیں۔ وه اسی طرح اپنی پوری پوری نعمتیں دے رہا ہے کہ تم حکم بردار بن جاؤ۔ پھر بھی اگر یہ منھ موڑے رہیں تو آپ پر صرف کھول کر تبلیﻎ کر دینا ہی ہے۔ “
فرمایا يعرفون نعمة الله یعنی یہ کافر جو اسلام اور نعمت الہیٰ سے اعراض و انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ ان سے واقف نہیں ہیں۔ یہ خوب جانتے ہیں کہ یہ سب نعمتیں اللہ کی ہیں، لیکن یہ عملاً ان کا اس طرح انکار کرتے ہیں کہ منعم حقیقی اللہ رب العلمین کے بجائے دوسروں کی بندگی کر کے ان نعمتوں کا یہ عملی انکار کرتے ہیں۔
ابن جریر وغیرہ نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ اہل جاہلیت کا انکار یہ تھا کہ وہ ان نعمتوں کو اللہ کی طرف سے اقرار کرنے کے بجائے کہتے تھے کہ ہم نے باپ دادا سے وراثت میں پایا ہے۔ اور عون ابن عبداللہ کی روایت ہے کہ وہ کہتے تھے کہ اگر فلاں نہ ہوتا تو مجھے ایسا اور ایسا ہو جاتا، اگر فلاں نہ ہوتا تو میں یہ چیز حاصل ہی نہیں کر پاتا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ ان نعمتوں کا اس طرح انکار کرتے تھے کہ انھیں اللہ کے بجائے اسباب کی طرف منسوب کرتے تھے کچھ اور لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ان کا انکار یہ تھا کہ یہ نعمتیں ان کے معبودوں کی سفارش سے ملی ہیں اور کچھ کے نزدیک نعمت سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی نبوت پر معجزات کے ذریعہ انہیں یقین تھا لیکن عناد اور تکبر کے سبب وہ انکار کرتے تھے۔ واكثرهم الكافرون یعنی ان نعمتوں کا اعتراف نہ کر کے وہ دل سے انکار کرتے تھے۔ اکثر اس لیے کہا کہ انکار کے مختلف اسباب تھے، عقل کی کمی، عدم ہدایت، دلائل پر غور و فکر کا فقدان، غیر مکلف ہونا اور اس لئے بھی کہ بعض کی نسبت کل کی طرف کر دی گئی ہے۔
اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ بیان فرمایا ہے :
أَفَبِهَـذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ ٭ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ [56-الواقعة:81]
” پس کیا تم ایسی بات کو سرسری (اور معمولی) سمجھ رہے ہو؟ اور اپنے حصے میں یہی لیتے ہو کہ جھٹلاتے پھرو۔ “
اہل جاہلیت کو خطاب ہے کہ تم کہتے ہو کہ ہمیں فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نصیب ہوئی۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بارش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کچھ لوگ شکر گزار ہوئے اور کچھ ناشکر ہوئے کچھ نے کہا: یہ رحمت اللہ نے اتاری ہے اور کچھ نے کہا: ”فلاں ستارہ نے سچ کر دکھایا“ اسی موقع پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ مطلب یہ کی نعمتوں کو غیر منعم حقیقی کی طرف منسوب کرنا ان کا انکار کرنا ہے۔ اور ستاروں کی بابت اہل عرب کا مذہب ہم نے اور جگہوں پر بھی بہت مفصل بیان کر دیا ہے، جہاں ان کے شعرا کے وہ اشعار بھی نقل کر دئیے ہیں جو ان کے اس مذہب کی وضاحت کرتے ہیں۔