مؤمنوں کا اجماعی واتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں :
قلت : مقالۃ السّلف وأئمّۃ السّنّۃ، بل والصّحابۃ واللہ ورسولہ والمؤ منون أنّ اللہ عزّ وجلّ فی لسّماء، وأنّ اللہ علی العرش، وأن ّ اللہ فوق سماواتہ ، وأنّہ ینزل الی السّماء الدّنیا، وحجّتھم علی ذلک النّصوس والآثار۔ ومقالۃ الجھمیّۃ: أنّ اللہ تبارک فی جمعح الأ مکنۃ، تعالی اللہ عن قولھم، بل ھو معنا أینما کنّا بعلمۃ ، وقال متأ خّری المتکلّین: أنّ اللہ تعالیٰ لیس فی السّماء ولا علی العرش والا فی الأض ، والا داخل العالم ، ولا خارج العالم، ولا بائن عن خلقہ، ولا متّصل بھم ، وقالوا جمیح ھذہ الأشیاء صفات الأجسام، واللہ تعالیٰ منزّ ہ عن الجسم ، قال لھم أھل السّنّۃ والأثر نحن لا نخوض فی ذلک، ونقول ماذکر نا اتّباعا للنّصو ص ، وان زعمتم ۔۔۔ ولا نقول بقو لکم ، فانّ ھذہ السّلوب نعوت المعدوم ، تعالی اللہ جلّ جلالہ عن العدم، بل ھو موجود متمیّز عن خلقہ موصوف بما وصف بہ نفسہ من أنّہ فوق العرش بلا کیف۔
” میں کہتا ہوں کہ سلف صالحین اور ائمہ سنت، بلکہ صحابہ کرام ، اللہ تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور تمام مؤمنوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بلندی میں ، اپنے عرش پر اور اپنے آسما نوں کے اوپر ہے، وہ آسمانِ دنیا کی طرف نزول بھی فرماتا ہے، ان کی اس بارے میں دلیل (قرانی) نصوص اور (حدیثی) آثار ہیں ۔
جہمیوں کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہر جگہ ہے، ان کے اس قول سے اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے، دراصل ہم جہاں بھی ہوتے ہیں ، وہ ہمارے ساتھ اپنے علم کے اعتبار سے ہوتاہے ۔
متأخرین متکلمین نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ آسمان کے اوپر ہے ، نہ عرش پر، نہ زمین میں ، نہ کائنا ت میں داخل ، نہ کائنات سے خارج ، نہ اپنی مخلوق سے جدا اور نہ مخلوق سے متصل ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ ساری کی ساری صفات ایک جسم کی ہیں اور اللہ تعالیٰ جسم سے منزہ ہے، اہل سنت والا ثر ( والجماعت) نےان سے کہا ہے کہ ہم اس بارے میں میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاتے اور جو ہم بیان کرچکے ہیں ، نصوص کی اتباع میں ہمارا وہی قول ہے۔۔۔ یہ تو کوئی وجود نہ رکھنے والی چیز کا انداز ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ عدم سے بہت بلند ہے، وہ تو موجود اور اپنی مخلوق سے ممتاز ہے، ان تمام صفات سے موصوف ہے، جن کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو موصوف کیا ہے، یعنی کہ بلاکیف عرش کے اوپر ہے، "(مختصر العلو للذھبی: ص۱۴۷-۱۴۶)۔
اب ہم انتہائی اختصار کے ساتھ وہ احادیثِ صحیح ذکر کرتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کے عر ش پر بلند ہونے واضح طور پر دلالت کرتی ہیں :
مضمون کے اہم نکات:
حدیث نمبر 1:
عن معاویۃ بن الحکم السّلمیّ قال: کانت لی جاریۃ ترعیٰ غنما لی قبل أحد والجوابیّ ۃ، فاطلعت ذات یوم ، فاذا الذّنب قد ذھب بشاۃ عن غنمھا ، وأنار جل من بنی آدم ، آسف کما یأسفون، لکّنی صککتھا صکّۃ، فأتیت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ، فعظّم ذلک علیّ قلت : یارسول اللہ ! أفلا أعتقھا؟ قال: ائتنی بھا فأتیتہ بھا ، فقال لھا: أین اللہ ؟ قالت : فی السّماء ، قال : من أنا ؟ قالت: أنت رسول اللہ ، قال أعتقھا ، فانّھا مؤمنۃ۔
” سید نا معاویہ بن حکم سلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی ، جو احد اور جوابیہ مقام کی طرف میری بکریا ں چراتی تھی، ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک بھیڑ یا اس کے ریوڑ سے ایک بکری لے گیا، میں آدم زاد تھا، دوسروں کی طرح مجھے بھی افسوس ہوا، میں نے اسے ایک تھپڑ رسید کردیا، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ نے اس کام کو میرے لیے برا جانا، میں نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول! کیا میں اسے آزادنہ کردوں ؟ آپ نے فرمایا، اسے میرے پاس لاؤ ، میں اسے لے آیا ، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا ، اللہ کہا ں ہے؟ اس نے جواب دیا ، آسمانوں کے اوپر ، آپ نے فرما یا، میں کون ہوں ؟ اس نے جواباً عرض کیا ، آپ اللہ کے رسول ہیں ، آپ نے فرما یا، اس ےآزاد کردو کہ یہ مؤمنہ ہے۔”
(صحیح مسلم : ۲۰۴-۲۰۳/۱، ح۵۳۷)
یہ حدیث نصِ صریح ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، امام ابو الحسن الاشعری ؒ (م ۳۲۴ھ) اس حدیث سے ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وھذا ید لّ علی أنّ اللہ تعالیٰ علی عرشہ فوق السّماء۔ ”
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر ہے۔ ”
( الا بانۃ فی أصلول الد یانۃ لأبی الحسن الا شعری : ص ۱۰۹)
امام ابن عبد البر ؒ(م ۴۶۳ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
معانی ھذا الحدیث واضعۃ یستخنی عن الکلام فیھا، وأمّا قولہ: ۥین اللہ ؟ فقالت: فی السّماء، فعلی ٰ ھذا أھل الحقّ۔
"اس حدیث کا مفہوم واضح ہے، جس پر کلام کرنے کی ضرورت نہیں ، رہا رسول اللہ ﷺ کا سوال کہ اللہ کہاں ہے؟اور اس لونڈی کا جواب کہ آسمانوں کے اوپر ہے، اہل حق اسی پر ہیں ۔” ( التمھید لابن عبد لبر : ۸۰/۲۲)۔
نیز اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
وأمّا قولہ فی ھذاالحدیث للجاریۃ : أین اللہ ؟ فعلی ذلک جماعۃ أھل الحدیث ورواتہ المتفقّھون فیہ وسائر نقلتہ ، کلّھم یقول ماقال اللہ تعالیٰ فی کتابہ: ( الرحمن علی العرش استوٰی)( طٰہٰ: ۵) وأنّ اللہ عزّ وجلّ فی السّماء وعلمہ فی کلّ مکان۔
” اس حدیث میں لونڈی کو جو فرمانِ رسولﷺ ہے کہ اللہ کہا ں ہے؟ تو اسی پہ اہل سنت والجماعت ہیں جو کہ اہل حدیث، حدیث میں فقاہت حاصل کرنے والے راوی اور تمام ناقلین ہیں ، وہ صرف وہی بات کہتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمائی ہے: ( الرحمن علی العرش استوی) ( طٰہٰ: ۵) ، اللہ تعالی آسمانوں کے اوپر ہے اوراس کا علم ہر جگہ ہے۔ ( الاسنذ کار لابن عبد لبر: ۳۳۷/۷)
فقی حدیث رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم دلیل علی انّ الرّجل اذا لم یعلم أنّ اللہ عزّ وجل فی السّما ء دون الأ رض، فلیس بمؤمن، ولو کان عبدا، فاعتق لم یجز فی رقبۃ مؤمنۃ، اذ لا یعلم انّ اللہ فی السّماء، الا تری انّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم أمارۃ ایمانھا معر فتھا انّ اللہ فی السّماء، وفی قول رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم تکذیب لقول من یقول : ھو فی کلّ مکان، لا یوصف ب” أین” ، لانّ شیئا، لا یخلو منہ مکان یستحیل ان یقال: أین ھو؟ ولا یقال: این لمن ھو فی مکان، یخلو منہ مکان۔
ولو کان الا مر علی مایدّ عی ھؤ لاء الزّ ائعۃ ، لأ نکر علیھا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم قولھا وعلمھا ، ولکنھا علمت بہ، فسدّ قھا رسول اللہ وشھد لھا بالا یمان بذلک ، ولو کان فی الأرض کما ھو فی السّما ء لم یتمکّ ایمانھا حتی تعرفہ فی الارض کما عرفتہ فی السّماء۔
” رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب تک آدمی یہ نہ جان لے کہ اللہ زمین میں نہیں ، بلکہ آسمانوں کے اوپر ہے، وہ مؤ من نہیں ہوسکتا، اگر ایسا شخص غلام ہو اور آزاد کرایا جائے تو مؤ من گردن کی آزادی میں کام نہیں دے گا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کو آسمانوں کے اوپر نہیں مانتا، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ آپ ﷺ نے اس (لونڈی) کے ایمان کی نشانی ہی اس کی اس معرفتِ الہیٰ کو قرار دیا ہے کہ اللہ آسمانوں پر ہے ، آپ ﷺ کے سوال کہ اللہ کہا ہے؟ اس میں ان لوگوں کی بات کی تکذیب ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ ہے، کیونکہ جو چیز ہر جگہ موجود ہو، اسے ‘کہاں’ سے موصوف نہیں کیا جاسکتا، جس چیز سے کوئی جگہ خا لی نہ ہو، اسکے بارے میں یہ پوچھنا محال ہے کہ وہ کہاں ہے ؟ کہا ں کا سوال اسی چیز کے بارے میں کیا جائے گا، جو ایک جگہ میں ہو اور دوسری جگہ میں نہ ہو۔
اگر بات اسی طرح ہوتی ، جس طرح یہ گمراہ لوگ دعوی کرتے ہیں تو اللہ کے رسولﷺ اس لونڈی کی بات کو غلط قرار دیتے اور اس کو سکھاتے ، لیکن اس نے اس حقیقت کو جان لیا تو اللہ کے رسول ﷺ نے اسکی تصدیق کی اور اس وجہ سے آپ نے اس کے ایمان کی گوائی بھی دی، اگر اللہ تعالیٰ آسمانوں کی طرح زمین میں بھی ہوتاتو لونڈی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہونا تھا جب تک وہ اسے زمین میں بھی نہ جان لیتی ، جیسا کہ اس نےاسے آسمانوں پر جانا تھا۔” ( الرد علی الجھعۃ للدارمی: ص ۴۶-۴۷)
نیز لکھتے ہیں :
فقول رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم : انّھا مؤ منۃ دلیل علی انّھا لو لم تؤ من بانّ اللہ فی السّما ء لم تک نمؤ منۃ، وأنہ لایجوز فی الرّقبۃ المؤ مۃ الّا من یحد اللہ أنّہ فی السّما ء ، کما قال اللہ ورسولہ۔ ”
پس اللہ کے رسول ﷺ کا اسے مؤ منہ قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کو آسمانوں کے اوپر تسلیم نہیں کرتی تو وہ مؤ منہ نہ ہوتی، نیز یہ کہ مؤ من گردن کی آزادی میں وہی غلام یا لونڈی کام دے سکے گی جو اللہ ورسول کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کو آسمانوں کے اوپر تسلیم کرتے۔”
( نقض الامام عثمان بن سعید الدارمی علی بشر المریسی: ۲۲۶/۱)
مزید لکھتے ہیں :
فھذہ الآ ی کلّھا تنبئک عن اللہ انّہ فی موضع، وأنّہ السّما ء دون الاض ، وأنّہ علی العرش دون ماسواہ من الموضع، قد عرف ذلک من قرأالقرآن وامن بہ وصدّق اللہ بمافیہ، فلم تحکم علی اللہ تعالیٰ أیّھا العبد الضّعیف بما ھو مکذّبک فی کتابہ ، ویکذْبکہ الرّسول صلّی اللہ علیہ وسلّم ؟ أولم یبلغک حدیث النّبیّ صلّی اللہ علیہ وسلّم أنّ ہ قال : للأ مۃالسّوداء : این اللہ ؟ فقالت: فی السّماء، قال: أعتقھا، فانّھا مؤ منۃ، فھذا بنبّئک أنّہ فی السّماء دون الأرض، فکیف تترک ماقال اللہ تعالیٰ ورسولہ وتختار علیھما ذلک قول بشر والثّلجیّ ونظر ائھما من الجھمیّۃ۔
” یہ تمام آیات اللہ تعالیٰ کے بارے میں آپ کو بتاتی ہیں کہ وہ ایک جگہ میں ہے اور وہ جگہ آسمانوں کے اوپر ہے نہ کہ زمین کے اوپر ، نیز وہ عرش پر ہے، نہ کہ کسی اور جگہ پر، یہ بات ہر شخص کو معلوم ہوجاتی ہے ، جو قرآن پڑھتاہے، اس پر ایمان لاتا ہے اور اس میں موجود اللہ تعالیٰ کے فرامین کی تصدیق کرتا ہے، اے کمزور انسان ! تو اللہ تعالیٰ پر کیسےوہ حکم لگا تا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اور اس کا رسول اپنے فرامین میں غلط قرار دیتا ہے یا تجھ کو وہ حدیث نہیں پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سیاہ لونڈی سے سوال کیا، اللہ کہا ں ہے؟ تو اس نے جواب دیا ، آسمانوں کے اوپر ، آپ ﷺ نے فرما یا، اس کو آزاد کردو، یہ مؤمنہ ہے، یہ حدیث بھی تجھ کو بتاتی ہے کہ اللہ تعالی ٰ آسمانوں کے اوپر ہے، زمین میں نہیں ، چنانچہ تو کیسے اللہ ورسول کے فرما نکو چھوڑ کر اس بارے میں بشر (مریسی) اور ثلجی جیسےجہمی لوگوں کی بات کو اس پر تر جیح دیتا ہے؟ ” ( النقض علی بشر المریسی : ص ۱۴۶-۱۴۵۱)
حافظ ذہبی ؒ اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں :
وھکذا رأینا فی کلّ من یسال : أین اللہ ؟ یبادر بفطرتہ وقول : فی السّماء ، فیالخبر مسأ لتان: احد اھما: شر عیّۃ قول المسلم : این اللہ ؟ وثانیھما: قول المسئول : فی السّماء، فمن أنکر حاتین المسألتین فانّما ینکر علی المصطفٰی صلّی اللہ علیہ وسلّم۔
” ہماری رائے بھی ہر شخص کے بارے میں یہی ہے( کہ وہ مسلمان ہے) ، جس سے پوچھا جائے ، اللہ کہا ں ہے؟ اور وہ اپنی فطرت کے مطابق جلدی سے یہ کہہ دے کہ آسمانوں میں ہے، اس حدیث میں دو مسئلے ہیں ، ایک تو یہ کہ مسلمان کے لیے یہ پوچھنا مشروع ہے کہ اللہ کہا ں ہے؟ دوسرا یہ کہ جس سے سوال کیا جائے ، اس کا یہ کہنا بھی مشروع ہے کہ وہ آسمانوں کے اوپر ہے۔ جو شخص ان دو باتوں کاانکار کرے گا، وہ مصطفٰے ﷺ کی بات کا انکار کرے گا۔” ( العلو للذھبی : ص ۲۶)
حدیث نمبر۲:
عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ أنّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم قال: یتعا قبون فیکم ملائکۃ باللّیل وملائکۃ بانّھار، ویجتمعون فی سلاۃ الفجر سلاۃ العصر ، چمکّ یعرج الّذین باتو ا فیکم ، فیسألھم، وھو أعلم بھم : کیف تر کتم عبادی ؟ یقوللون : تر کنا ھم وھم یصلّون ، وأتینا ھم وھم یصلوّن۔
” سید نا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا ، تم میں رات اور دن کے فرشتے آتے اور جاتے رہتے ہیں ، فجر اور عصر کی نماز میں وہ اکٹھے ہو جاتے ہیں ، پھر رات کو تمہارے ساتھ رہنے والے فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ باوجود بہتر جاننے کے ان سے پوچھتا ہے، تم میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں ، ہم ان کے پاس گئے تھے تو وہ نماز میں مشغول تھے اور جب ان کو چھوڑ کرآئے ہیں تو اس وقت بھی وہ نماز ادا کررہے تھے۔”
( صحیح بخاری : ۷۴۲۹، صحیح مسلم: ۶۳۲)
حدیث نمبر ۳:
عن عبد اللہ بن عمر و أنّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم قال: الرّاحمون یر حمھم الرّحمان، ارحمو امن فی الأرض یر حمکم من فی السّماء۔
” سید نا عبد اللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا ، رحمٰن رحم کرنے والوں پر ہی رحم فرما تا ہے، تم اہل زمین پر رحم کرو، جو آسمانوں پر ہے ، وہ تم پر رحم فرمائے گا۔”
( مسند الھمید ی: ۵۹۱، مسند الامام احمد : ۱۶۰/۶، سنن الترمذی : ۱۹۲۴، سنن أبی داؤد : ۴۹۴۱، وسندۂ حسن”)
اس حدیث کو امام ترمذی ؒ نے ” حسن صحیح ” اور امام حاکم ؒ ( ۱۵۹/۴) نے ” صحیح ” کہا ہے،اس کا راوی ابو قابوس ” حسن الحدیث” ہے، امام تر مزی اور امام ابنِ حبان ؒ وغیر ہما نے اس کی تو ثیق کر رکھی ہے۔
حدیث نمبر ۴:
عن جابر بن عبد اللہ أنّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم قال فی خطبتہ یوعر فات: ؓتم تسألون عنّی،فماأنتم قائلون؟ قالوا: نشھد أنّک قد بلّغت وأدّیت ونصحت ، فقال : باصبعۃ السّبّابۃ یر فعھا الی السّماء و ینکتھا الی النّاس ؛ اللّٰھم اشھد، اللّٰھم اشھد ، ثلاث مرّات۔۔۔۔۔۔ "
” سید نا جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ کے دن اپنے خطبئہ ( حجتہ الوداع) میں فرما یا، تم سے ( روزِ قیامت) میرے بارے میں پوچھا جائے گا، تم کیا کہوگے؟ صحابہ کرام نے جواب دیا، ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے (دین) پہنچا دیا ،(اللہ کی امانت کو) ادا کردیا اور خیر خوائی کی، آپ ﷺ نے اپنی شہادت والی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین دفعہ فرما یا، اے اللہ گواہ ہوجا، اے اللہ گواہ ہوجا۔۔۔۔۔” (صحیح مسلم : ۱۲۱۸)
حدیث نمبر ۵:
عن أنس مالک قال : کانت زینت بنت جحش تقول : انّ اللہ أنکحنی فی السّماء۔ ”
سید نا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین سیدہ زینب بنت حجشؓ کہا کرتی تھیں ، میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کے اوپر کیا ہے۔”
(صحیح بخاری : ۷۴۲۱)
حدیث نمبر ۶:
عن أبی سعید الخدریّ قال : قال أنّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ألا تا منو نی وأنا امین من فی السّماء؟ یأتینی خبر السّماء صباومساءً۔۔۔۔۔
"سید نا ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرما یا ، کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے حالانکہ میں اس ذات کاامین ہوں ، جو آسمانوں کے اوپر ہے، میرے پاس صبح وشام آسمانوں کی خبر آتی ہے۔
"( صحیح بخاری: ۴۳۵۱، صحیح مسلم:۱۰۶۴)
حدیث نمبر ۷:
عن أبی ھریرۃ قال: قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم: والّذی نفسی بیدہ !مامن رجل ید عو امر أتہ الی فراشھا، فتأبی علیہ ، الّا کان الّذی فی السّما ء ساخطا علیھا، حتّی یر ضی عنھا۔
” سید نا ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کوئی آدمی ایسا نہیں ، جو اپنی بیوی کو اس کے بستر کی طرف بلائے اور وہ انکار کردے، مگر وہ جو آسمانوں کے اوپر ہے، اس( عورت) سے ناراض ہوجاتا ہے، تاآنکہ خاوند اس سے راضی ہوجائے۔”
( صحیح مسلم:۱۴۳۶)
حدیث نمبر ۸:
عن أنس قال : أصابنا ونحن مع رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ، قال: فحسر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ثوبہ ، حتّی أصابہ من المطر، فقلنا : یارسول اللہ !لم صنعت ھذا؟ قال: لأنّہ حدیث عھد بر بّہ عزّوجلّ۔
” سید نا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے، اس دوران ہمیں بارش نے آن لیا، آپﷺ نے اپنے کپڑے کو ہٹایا، حتی کہ آپ ﷺ کو بارش کا پانی لگ گیا، ہم نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ فرمایا، کیونکہ یہ بارش اپنے رب عزوجل سے نئی نئی(ابھی) آئی ہے ۔” (صحیح مسلم : ۸۹۸)
حدیث نمبر ۹:
عن أبی ھریۃ عن النّبیّ اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم قال: المیّتّ تحضرہ الملائکۃ، فاذا کان الرّجل صالحا، قالوا: اخرجی أیتھا النّفس الطّیّۃ کانت فی الجسد الطّیّب ، اخرجی حمیدۃ، وأبشری بروح وریحان وربّ غیر غضبان، فلا یزال یقال لھا حتّی تخرج ، ثمّ یعرج بھا الی السّماء ، فیفتح لھا، فیقال: من ھذا؟ فیقولون : فلان، فیقال: مر حبا بالنّفس الطّیّۃ، کانت فی الجسدالطّیّب، ادخلی حمیدۃ، وأبشری بروح وریحان وربّ غیر غضبان، فلا یزال یقال لھا ذلک، حتّی ینتھی بھا الی السّما ء الّتی فیھا اللہ عزّوجلّ۔۔۔
” سید نا ابوہریر ہؓ نبئ کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں ، اگر وہ نیک ہو تو وہ کہتے ہیں ، اے پاک جان جو کہ پاک جسم میں تھی! قابل تعریف حالت میں نکل ، تیرے لیے خوشگوار و خشبو دار ہوا کے جھونکوں اور راضی ومہربان رب کی خوشخبری ہے، اسے مسلسل یہی بات کہی جاتی ہے، حتی کہ وہ جسم سے نکل جاتی ہے، پھر اسے آسمان کی طرف چڑھا یا جاتا ہے، آسمان کے دروازوں کو کھولاجاتا ہے، پوچھا جاتا ہے، یہ کون ہے؟ فر شتے بتاتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے، کہا جاتا ہے، پاک جان جو کہ پاک جسم میں تھی، اسے خوش آمدید ! تو قابل تعر یف حالت میں داخل ہو جا، تیرے لیے خوشگوار وخوشبو دار ہو ا اور مہربان رب کی خوشخبر ی ہے، اسے مسلسل یہی کہا جاتا ہے، حتی کہ اس آسمان تک پہنچادیا جاتا ہے، جس کے اوپر اللہ عزوجل کی ذات ہے۔”
( مسند الا مام احمد : ۳۶۴/۲، سنن ابن ماجہ : ۴۲۶۲، وسندۂ حسن”)
حدیث نمبر ۱۰:
عن عامر سعد عن أبیہ قال: انّ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ حکم علی بنی قریظۃ أن یقتل منھم کلّ من جرت علیہ الموسیٰ ، وأن تقسم أموالھم وزراریھم، فذک ر ذلک برسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ، فقال: لقد حکم الیوم فیھم بحکم اللہ الّذی حکم بہ من فوق السّماوات۔
” عامر بن سعد اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، سعد بن معاذ ؓ نے بنی قریظہ کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا ہر بالغ مرد قتل کردیا جائے اور ان کے مال واولاد کو (مسلمانوں میں ) تقسیم کر دیا جائے ، یہ فیصلہ رسول اللہ ﷺ کو بتا یا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا، سعد نے اس اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے، جس نے آسمانوں کے اوپر یہ فیصلہ کیا تھا۔”
(السنن الکبری للنسائی (تحفۃ الأشراف ۲۹۳/۳)، فضائل الصحابۃ للنسائی: ۱۱۹ ، المسندر ک للحاکم ۱۲۴/۲، الا سماء والصفات للبیھقی: ۱۶۲-۱۶۱/۲، وسندۂ حسن”)
حافظ ذہبی ؒ نے اس حدیث کو” صحیح ” قرار دیا ہے، (مختصر المسندر ک للذھبی : ۱۲۴/۲)
تلک عشرۃ کاملۃ یہ پوری دس صحیح احادیث ہیں !
ایک تبصرہ
ماشاءاللہ اللہ تعالیٰ خیر و برکت سے نوازے آپ کی اس ایپ کی وجہ سے آج میری بڑی معاونت ہوئی ہے الحمدللہ ۔جزاک اللہ