ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ صفحہ نمبر 108
سوال
((اللهم اجرني من النار)) کی تحقیق مطلوب ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دعائے ((اللهم اجرني من النار)) جس سند کے ساتھ مروی ہے، آپ نے وہ ذکر کی ہے اور واقعی یہ سنن ابی داود میں موجود ہے۔ لیکن اس سے قبل جو حدیث سنن ابی داود میں اس دعا کے متعلق آئی ہے، وہ آپ نے درج نہیں کی۔ اس کی سند یوں ہے:
((حدثنا اسحاق بن ابارهيم ابوالنضر الدمشقي نامحمد بن شعيب اخبرني ابو سعيد الفلسطيني عبدالرحمن بن حسان عن الحارث بن مسلم انه اخبره عن ابيه مسلم بن الحارث التميمي عن رسول الله صلي الله عليه وسلم الحديث))
وضاحتِ سند
- صحیح نام مسلم بن الحارث ہے، اور ان کے فرزند کا نام حارث ہے۔
- کتب الرجال سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ:
- امام بخاری
- امام ابوحاتم الرازی
- امام ابوزرعہ الرازی
- امام ترمذی
- ابن قانع رحمہم اللہ
- اور دیگر ائمہ حدیث نے اسی روایت کو ترجیح دی ہے، نہ کہ مسلم بن الحارث بن مسلم عن ابیہ کو۔
- امام دارقطنی نے جسے "مجہول” کہا ہے، وہ مسلم بن الحارث بن مسلم ہے، نہ کہ حارث بن مسلم ابن الحارث التمیمی۔
- امام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب الجرح والتعدیل میں اس حارث بن مسلم بن الحارث کے متعلق اپنے والد ابوحاتم الرازی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
- "حارث بن مسلم تابعی ہے”۔
- لیکن اس پر کوئی جرح نہیں کی، نہ ہی اسے "مجہول” کہا۔
- اور کسی اور امام نے بھی اسے "مجہول” قرار نہیں دیا۔
مزید دلائل
- چونکہ امام ابوحاتم الرازی جیسے متشدد محدث نے اسے تابعی قرار دیا ہے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کم از کم "معروف راوی” ہیں۔
- اسی حارث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب التاریخ الکبیر میں بھی ذکر کیا ہے۔
- اس میں بھی یہی ترجیح دی گئی ہے کہ الحارث بن مسلم بن الحارث ہی راجح ہے۔
- اور امام بخاری نے بھی ان پر کوئی جرح وارد نہیں کی۔
حکمِ سند
- لہٰذا، احقر العباد (راقم الحروف) کے نزدیک یہ سند کم از کم حسن ہونی چاہیے۔
- اسی وجہ سے امام نسائی کی کتاب عمل الیوم واللیلة کے محقق و محشی نے بھی لکھا ہے کہ:
"یہ حدیث ان شاءاللہ حسن ہے۔”
- مزید تحقیق فی الحال ہمارے علم میں نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب