الحاد کے شبہات اور اسلام کی حقانیت کا جواب

انسان کی عقل و فہم اور الحاد کے سوالات

انسان کے وجود میں ایک خاص صلاحیت رکھی گئی ہے، جسے ہم حیرت، شک، اور سوال کرنے کی اہلیت کہتے ہیں۔ سات ارب سے زیادہ کی انسانی آبادی میں، ہر شخص اپنے الگ سوچنے کے انداز کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عقل و فہم کی بنیاد پر کس شخص کو بہتر سمجھا جائے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ سوالات ایک ایسے شخص کے سامنے رکھے جائیں جو سوالات کو محض عقل کی مشق سمجھتا ہو، تو کبھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔

الحاد کے سوالات: ایک مثال

ملحدین اکثر ایسے سوالات اٹھاتے ہیں جو بظاہر گہرے لگتے ہیں لیکن درحقیقت بے بنیاد ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر:

  • آنکھوں کی جگہ: ملحد سوال اٹھا سکتا ہے کہ اللہ نے آنکھیں آگے کیوں دی ہیں، ایک آگے اور ایک پیچھے کیوں نہیں؟
  • گردن کا وجود: گردن صرف کھانے کے لیے کیوں دی گئی؟ آنکھیں دونوں طرف ہوتیں تو گردن کی حرکت کی ضرورت نہ رہتی۔
  • دو منہ کیوں نہیں؟ ملحدین یہ سوال بھی کر سکتے ہیں کہ انسان کے دو منہ کیوں نہیں ہیں تاکہ دونوں جانب سے کھا سکتا۔

یہ سوالات گہرے ہونے کے بجائے محض تخیل کے کھیل ہیں۔ اگر انسان کو ان خصوصیات کے ساتھ تخلیق کیا جاتا تو اس کا جسمانی ڈھانچہ عجیب و غریب اور غیر متوازن ہوتا۔

انسانی جسم کا فطری نظام

انسان کی آنکھیں 180 ڈگری کا وژن فراہم کرتی ہیں، اور گردن کا مڑنا اردگرد کے ماحول کو دیکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ انسانی جسم کا نظام مثلاً دل، گردے، اور دیگر اعضاء سامنے کی طرف رکھے گئے تاکہ اندرونی تبدیلیوں کو محسوس کیا جا سکے۔ جیسے پیٹ کا درد یا دل کا درد۔

ہندو دیومالائی تصورات کا موازنہ

ہندو مت کے دیوتا کی مورتیوں میں چار ہاتھ یا چھ منہ دکھائے جاتے ہیں، لیکن کیا یہ واقعی ایک کامل تخلیق ہے؟ اللہ کی تخلیق میں نہایت خوبصورتی اور توازن ہے، جو کسی مصنوعی تصور سے کہیں زیادہ مکمل ہے۔

الحاد اور ارتقاء کے اعتراضات

ارتقاء اور جینیاتی تبدیلیاں

ملحدین کا دعویٰ ہے کہ انسان مختلف مراحل سے گزر کر موجودہ شکل میں آیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ:

  • انسان اتنی پیچیدہ ساخت کے ساتھ اتفاقاً کیسے بن گیا؟
  • اگر انسان ماحول کی تبدیلیوں کے تحت مکمل ہوتا تو سانس کیوں پھولتی؟ آنکھ سورج کو براہ راست کیوں نہ دیکھ سکتی؟

جنس کی تخلیق

ملحدین عورت اور مرد کی تخلیق کو ارتقاء کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، لیکن اگر صرف مرد ہی پیدا ہوتے اور بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے تو جنگوں میں حاملہ مرد قتل کیے جاتے اور نسل کا خاتمہ ہو جاتا۔

الحاد اور مذہب کا موازنہ

مذہب کی نتیجہ خیزی

الحاد سوالات کے ذریعے کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچتا، جبکہ مذہب عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ مثلاً:

  • اسلام وضاحت کرتا ہے کہ انسان آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا۔
  • اللہ نے کائنات کی تخلیق 50 ہزار سال پہلے کا منصوبہ بنایا۔
  • آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا اور ان سے حوا کو تخلیق کیا گیا۔

الحاد کی کمزوریاں

ملحدین یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ اتنی منظم کائنات کسی خالق کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی۔ وہ اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لیے سوالات کا لامتناہی سلسلہ شروع کرتے ہیں لیکن ان کے پاس ان سوالات کا کوئی واضح جواب نہیں ہوتا۔

جدید الحاد کے طریقے

اعتراضات کی نوعیت

آج کے الحاد نے دیگر مذاہب کے اعتراضات کو جمع کر کے ایک منظم شکل دی ہے۔ ان کا مقصد اسلام اور دیگر مذاہب کو نشانہ بنانا ہوتا ہے، مثلاً:

  • داعش اور طالبان جیسے گروہوں کو بنیاد بنا کر اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا۔
  • تعلیمی نصاب میں اسلامی شخصیات کو نکال کر مغربی شخصیات کو شامل کرنا۔

سوشل میڈیا اور نوجوان نسل

الحاد سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے نوجوان نسل کو گمراہ کرتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ دین سے دور ہو کر الحاد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔

الحاد کی علمی کمزوریاں

فلسفے کے مسائل

فلسفہ، جو عقل و دانش کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے، کسی بھی چیز کو مکمل طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ مثال کے طور پر:

  • قرآن کے الفاظ "وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ ٱللَّهُ ۖ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلْمَـٰكِرِينَ” پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اللہ مکر کرتا ہے۔
  • حالانکہ، اصولِ تفسیر کے مطابق، یہاں "مکر” سے مراد حکمت عملی اور تدبیر ہے۔

عملی مثالیں

ملحدین دین کے پیروکاروں کی بداعمالیوں کو مذہب کے خلاف بطور دلیل پیش کرتے ہیں، جبکہ یہ بات انفرادی کردار پر مبنی ہوتی ہے، نہ کہ مذہب پر۔

نتیجہ: الحاد یا مذہب؟

  • اسلام اور دیگر مذاہب نے دنیا کو واضح رہنمائی فراہم کی ہے، جبکہ الحاد انسان کو کسی بھی نتیجے پر پہنچانے میں ناکام رہا ہے۔
  • الحاد کا مقصد شک و شبہات پیدا کرنا ہے، جبکہ اسلام ایمان اور عقل کے ذریعے یقین عطا کرتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے