اقامت کے بعد سنتیں پڑھنے کا حکم
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : ایک شخص فجر کی سنتیں پڑھ رہا ہے کہ اقامت کہہ دی جاتی ہے وہ سنتیں پوری کرے یا پھر سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہو جائے ؟
جواب : جب فرض نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو فرض کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی۔ اگر سنتیں پڑھ رہا ہے تو اسے توڑ ڈالے اور فرض جماعت میں شامل ہو جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
إِذَا اُقِيْمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ اِلَّا الْمَكْتُوْبَةَ [مسلم، كتاب صلاة المسافرين : باب كراهة الشروع فى نافلة بعد شروع المؤذن 710، ترمذي 421، أبوداؤد 1266، نسائي 866، 867، ابن ماجه 1151، أحمد 231/2، بيهقي 482/2، ابن خزيمة 1123]
”جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں۔“
عبداللہ بن مالک بن لجینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راي رجلا وقد اقيمت الصلاة يصلي ركعتين فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم لاث به الناس فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : الصبح اربعا ؟ الصبح اربعا ؟ [ بخاري كتاب الاذان : باب اذا أقيمت الصلاة فلا صلاة الا مكتوبة 663، مسلم 711 ]
” بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا، حالانکہ نماز کے لئے اقامت کہی جا چکی تھی کہ وہ دو رکعت پڑھ رہا تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اسے لوگوں نے گھیر لیا۔ تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا: ”کیا صبح کی چار رکعات پڑھتا ہے ؟ کیا صبح کی چار رکعات پڑھتا ہے ؟“
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ لِصَلَاۃِ الْغَدَاۃِ وَاِذَا رَجُلٌ یُّصَلِّیْ رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتُصَلِّیْ الصُّبْحَ اَرْبَعًا [ كشف الأستار518، 251/1، ابن حبان 2469، أحمد 238/1، ابن خزيمة 1124، طبراني كبير 11227،
مستدرك حاكم 307/1، بيهقي 482/2 ]

اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہما نے صحیح کہا ہے۔
”بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوئے تو ایک آدمی فجر کی دو رکعت پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تو صبح کی چار رکعت پڑھتا ہے۔ “
بعض لوگ صبح کی نماز کے وقت بالخصوص سنتیں پڑھتے رہتے ہیں، یہ بات درست ہے کہ صبح کی سنتوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے لیکن انہیں فرض سے پہلے ادا کرنے کا بتایا گیا ہے، لہٰذا نماز کے لیے وقت پر بیدار ہو کر فرض سے قبل پڑھ لینی چاہیے۔ اگر فرض جماعت کھڑی ہو تو پھر کوئی بھی نماز فرض کے علاوہ نہیں ہوتی۔ خواہ فجر کی سنتیں ہوں یا کسی اور نماز کی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسجد کے ایک کونے میں سنت پڑھ لے پھر فرض جماعت میں شریک ہو جائے، ایسے لوگ اس حدیث پر غور کریں۔
عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
دخل رجل المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم فى صلاة الغداء فصلي ركعتين فى جانب المسجد ثم دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يا فلان ! باي الصلاتين اعتددت ؟ ابصلاتك وحدك ام بصلاتك معنا ؟ [ مسلم، كتاب صلاةالمسافرين : باب كراهة الشروع فى نافلة بعد شروع المؤذن فى اقامة الصلاة712، ابوداؤد1265، ابن ماجه 1152، احمد5/ 82، نسائي مع السنن الكبريٰ 851، ابن خزيمة 1125، أبوعوانة 30/2، ابن حبان 2191، بيهقي 482/2 ]
”ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں تھے، اس نے مسجد کے ایک کونے میں دو رکعت نماز پڑھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا : ”اے فلاں ! تم نے دو نمازوں میں سے کون سی شمار کی ہے ؟ کیا وہ نماز جو تو نے اکیلے ادا کی یا وہ نماز جو ہمارے ساتھ ادا کی ہے ؟“
اس صحیح حدیث سے واضح ہو گیا کہ فرض جماعت کے ہوتے ہوئے مسجد کے کونے میں بھی نفل نماز یعنی سنت وغیرہ نہیں
پڑھ سکتے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:
اُقِيْمَتِ الصَّلَاةُ فَقُمْتُ اُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ فَجَذَبَنِيْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَتُصَلِّي الصُّبْحَ اَرْبَعًا ؟ [ مستدرك حاكم 1195، أبوداؤد طيالسي 2736، ابن حبان 221/6 ]
”نماز کے لیے اقامت کہی گئی، میں دو رکعتیں پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھینچ لیا اور کہا: ”کیا تم صبح کی چار رکعت پڑھتے ہو“۔
علامہ غلام رسول سعیدی صحیح مسلم کی شرح میں رقمطراز ہیں :
”امام شافعی رحمہ اللہ اقامت کے وقت مطلق سنتیں پڑھنے سے منع کرتے تھے۔ بظاہر اس حدیث سے امام شافعی کی تائید ہوتی ہے کیونکہ فجر کی سنتوں کی تاکید بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے اقامتِ فجر کے وقت سنتیں پڑھنے پر ناراضی کا اظہار فرمایا ہے۔ اس لیے اتباعِ حدیث کا تقاضا ہے کہ اقامتِ فجر کے وقت سنتیں پڑھنا شروع نہ کرے، کیونکہ جن کے حکم سے سنتیں پڑھی جاتی ہیں وہ خود منع فرما رہے ہیں“۔
علامہ وشقانی لکھتے ہیں :
”حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس شخص کو مارتے تھے جو اقامت فجر کے وقت سنتیں پڑھتا تھا۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے۔ یہ انتہائی غلط طریقہ مروج ہے کہ مسجد میں فجر کی جماعت کھڑی ہوتی ہے اور لوگ جماعت کی صفوں سے متصل کھڑے ہو کر سنتیں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ امام با آواز بلند قرآن پڑھ رہا ہے جس کا سننا فرض ہے اور سنتوں میں مشغول شخص اس فرض کو ترک کر رہا ہے۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ سنتوں میں مشغول شخص بظاہر فرض اور جماعت سے اعراض کر رہا ہے اور تیسری خرابی یہ ہے اس کا یہ عمل اس باب کی احادیث کی مخالفت کو مستلزم ہے۔ “ [شرح صحيح مسلم2/ 420۔ 421، مطبوعه فريد بك سٹال، اردو بازار لاهور ]
علامہ غلام رسول سعیدی بریلوی کی اس توضیح سے معلوم ہوا کہ فرض نماز کے ہوتے ہوئے جو لوگ سنتوں میں مشغول رہتے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی مخالفت کرتے ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک پٹائی کے لائق ہیں اور سنت ادا کر کے فرض سے اعراض کر رہے ہیں۔ لہٰذا ہر نمازی کو چاہیے کہ نماز کے لیے بڑی مستعدی کے ساتھ حاضر ہو اور سنتیں اس کے وقت پر اداکرے، جب فرض جماعت کے لئے اقامت ہو تو نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو جائے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی نماز توڑ دی تھی اور انہیں کھینچ کر جماعت میں شامل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ صحیح عمل کی توفیق بخشے۔ آمين !

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!