اعتکاف
عبید اللہ طاہر حفظ اللہ

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
✿ «وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ» [البقرة: 187]
”اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔“
اس سے یہ معلوم ہوا کہ اعتکاف مسجد ہی میں کیا جا سکتا ہے۔
اعتکاف کسی بھی مسجد میں کیا جا سکتا ہے، البتہ ایسی مسجد میں اعتکاف کرنا بہتر ہے جہاں جمعہ اور جماعت کے ساتھ نماز قائم ہوتی ہو تاکہ بار بار وہاں سے نکلنا نہ پڑے۔
اعتکاف کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ نفلی عبادتوں میں لگا رہے، اپنے آپ کو نماز، تلاوت قرآن، حمد، تسبیح، تکبیر، استغفار، اذکار، درود و سلام اور دعاؤں میں مشغول رکھے۔ اسی طرح علمی کتابوں کا مطالعہ، تفسیر و حدیث اور فقہ کی کتابوں کا مذاکره، انبیاء اور نیک لوگوں کی سیرتوں کا مطالعہ بھی کر سکتا ہے۔ اور اعتکاف کے دوران بے مقصد اور بے فائدہ قول و عمل سے اجتناب کرے۔

شب قدر کی تلاش میں پورے ماہ رمضان کا اعتکاف
❀ «عن ابي سلمة، قال: انطلقت إلى ابي سعيد الخدري، فقلت: الا تخرج بنا إلى النخل نتحدث، فخرج، فقال: قلت: حدثني ما سمعت من النبى صلى الله عليه وسلم فى ليلة القدر، قال:” اعتكف رسول الله صلى الله عليه وسلم عشر الاول من رمضان واعتكفنا معه، فاتاه جبريل، فقال: إن الذى تطلب امامك فاعتكف العشر الاوسط فاعتكفنا معه، فاتاه جبريل، فقال: إن الذى تطلب امامك، فقام النبى صلى الله عليه وسلم خطيبا صبيحة عشرين من رمضان، فقال: من كان اعتكف مع النبى صلى الله عليه وسلم فليرجع فإني اريت ليلة القدر وإني نسيتها وإنها فى العشر الاواخر فى وتر، وإني رايت كاني اسجد فى طين وماء وكان سقف المسجد جريد النخل وما نرى فى السماء شيئا، فجاءت قزعة فامطرنا فصلى بنا النبى صلى الله عليه وسلم حتى رايت اثر الطين والماء على جبهة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وارنبته تصديق رؤياه. »
ابوسلمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں (ایک روز) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ اور ان سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ فلاں نخلستان کی طرف کیوں نہیں چلتے تاکہ ہم کچھ باتیں کریں؟ پس وہ نکلے، ابوسلمہ کہتے ہیں میں نے کہا کہ مجھ سے بیان کیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے شب قدر کے بارے میں کیا سنا ہے؟ وہ بولے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا، اور ہم لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اعتکاف کیا، اس عرصے میں حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا کہ جس کی آپ کو تلاش ہے (یعنی شب قدر) وہ آگے ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیانی عشرے میں اعتکاف فرمایا، اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اعتکاف کیا، پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ جس کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے، پس بیسویں رمضان کی صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے ہوئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ (اب تک) اعتکاف کیا ہے وہ لوٹے، (یعنی اعتکاف ختم نہ کرے)، کیونکہ مجھے شب قدر دکھائی گئی، پھر بھلا دی گئی، اور وہ آخر عشرے کی طاق رات ہے، اور میں نے خواب میں یہ دیکھا کہ گویا میں مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں۔“ اس وقت تک مسجد کی چھت کھجور کی شاخ سے بنی تھی، اور اس وقت ہم آسمان میں کوئی چیز (یعنی بادل) نہیں دیکھ رہے تھے، کہ اتنے میں بادل کا ایک ٹکڑا آیا، اور ہم پر پانی برسا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، یہاں تک کہ میں نے مٹی اور پانی کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کی تصدیق تھی۔ [صحيح بخاري 813]

رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف
❀ «عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الأواخر من رمضان.»
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري 2025، صحيح 171]

❀ «عن عائشة رضي الله عنها، قالت: إن النبى صلى الله عليه وسلم، كان يعتكف العشر الأواخر من رمضان حتى توفاه الله، ثم اعتكف أزواجه من بعده. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔ [صحيح بخاري 2026، صحيح مسلم 1172: 5]

زیادہ ثواب کی خاطر بیس دن کا اعتکاف
❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، قال: كان النبى صلى الله عليه وسلم يعتكف فى كل رمضان عشرة أيام، فلما كان العام الذى قبض فيه اعتكف عشرين يوما »
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے، لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن اعتکاف فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري 2044]

رمضان کے اعتکاف کی قضاء
❀ « عن عائشة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر:” ان يعتكف العشر الاواخر من رمضان، فاستاذنته عائشة فاذن لها، وسالت حفصة عائشة ان تستاذن لها، ففعلت، فلما رات ذلك زينب ابنة جحش امرت ببناء فبني لها، قالت: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى انصرف إلى بنائه فبصر بالابنية، فقال: ما هذا؟ قالوا: بناء عائشة، وحفصة، وزينب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” آلبر اردن بهذا، ما انا بمعتكف فرجع، فلما افطر، اعتكف عشرا من شوال”. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا تذکرہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اعتکاف کی اجازت چاہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، پھر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے درخواست کی کہ ان کے لیے بھی اجازت چاہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے لیے بھی اجازت چاہی، (تو انہیں بھی اجازت مل گئی)، حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہما نے جب یہ ماجرا دیکھا تو انہوں نے بھی ایک خیمہ لگانے کا حکم دیا، چنانچہ ان کے لیے بھی خیمہ نصب کر دیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اپنے خیمے کی طرف چلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر چند خیموں پر پڑی تو دریافت کیا کہ یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا: حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہم کے خیے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس کے ذریعے انہوں نے نیکی کا ارادہ کیا ہے ؟ میں اعتکاف میں نہیں رہوں گا۔“ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ گئے۔ پھر جب روزے ختم ہوئے تو شوال میں دس دن اعتکاف کیا۔ [صحيح بخاري 2045، صحيح مسلم 72 11: 6]
نوٹ: حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اگر کوئی نفلی اعتکاف میں ہو اور پھر اسے ترک کر دے تو قضا واجب ہے، یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ اگر کوئی کام شروع کر دیتے تو اس کی تکمیل فرماتے۔ ہاں قضا کرنا مستحب ضرور ہے۔ البتہ اگر کسی نے اعتکاف کی نذر مانی ہو یا اسے اپنے اوپر واجب کر لیا ہو اور پھر اسے مکمل نہ کرے تو اس پر قضا واجب ہے۔

اعتکاف کی قضاء اگلے سال کے اعتکاف کے ساتھ ملا کر
❀«عن أبى بن كعب رضي الله عنه: أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشر الأواخر من رمضان، فلم يعتكفت عاما، فلما كان فى العام المقبل اعتكف عشرين ليلة.
وفي رواية ابن ماجه زيادة: فسافر عاما. (أي: فسافر عاما فلم يعتكف.)
»
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا کرتے تھے، ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف نہیں کر سکے، تو اگلے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ [سنن ابوداود 2463، سنن ابن ماجه 1770، صحيح]
اور امام ترمذی نے اسے حضرت انس سے روایت کیا ہے۔ [سنن ترمذي 803، صحيح]
امام ابن ماجہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر چلے گئے، یعنی سفر پر جانے کی وجہ سے اعتکاف نہیں کر سکے۔

اعتکاف میں داخل ہونے کا وقت
❀ « عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا أراد أن يعتكف صلى الفجر، ثم دخل معتكفه. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو نماز فجر پڑھ کر اعتکاف کی جگہ میں چلے جاتے۔ [صحيح بخاري 2041، صحيح مسلم 72 11: 2]
الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔
نوٹ: جمہور اہل علم کے نزدیک جو رمضان کے آخری دس دن کے اعتکاف کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے 20 رمضان کو سورج ڈوبنے سے پہلے اعتکاف میں داخل ہو جانا چاہیے۔ اور یہاں مذکور حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف کے لیے جو جگہ مخصوص ہوتی تھی وہاں نماز فجر پڑھ کر جاتے، جبکہ مسجد میں اعتکاف کے لیے رات کے شروع میں ہی آ جاتے۔
اسی طرح جس نے رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا ہے تو مہینہ ختم ہونے کے بعد سورج ڈوبنے پر وہ نکلے ہو گا۔ بعض اہل علم کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ وہ آخری دن سورج ڈوبنے کے بعد بھی مسجد میں ٹھہرا رہے، اور عید کی نماز کے لیے وہیں سے جائے، لیکن اگر وہ سورج ڈوبنے کے بعد ہی اعتکاف سے نکل آتا ہے تو بھی کافی ہے۔

اعتکاف کے لیے مسجد میں جگہ مخصوص کرنا
«عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشر الأواخر من رمضان، قال نافع رحمه الله: وقد أراني عبد الله رضي الله عنه: المكان الذى كان يعتكف فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم من المسجد. »
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دس اعتکاف کیا کرتے تھے۔ نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں رہا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم1171: 2]

❀ «عن عبيد الله بن عمر رضي الله عنهما، عن النبى صلى الله عليه وسلم : أنه كان إذا اعتكف طرح له فراشه، أو وضع له سريره وراء أسطوانة التوبة . »
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے تو توبہ کے ستون کے پاس آپ کا بستر ڈال دیا جاتا، یا چارپائی بچھا دی جاتی۔ [صحيح ابن خزيمه 2236، حسن]
نوٹ: اسے توبہ کا ستون اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک صحابی حضرت ابولبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ نے گناہ سرزد ہونے کے بعد اپنے آپ کو اس سے باندھ لیا تھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔

❀ « عن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتكف العشر الأول من رمضان، ثم اعتكف العشر الأوسط، فى قبة تركية على سدتها حصير.»
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانی عشرے میں اعتکاف فرمایا، ایک ترکی خیمے میں جس کے دروازے پر چٹائی کا ایک ٹکڑا لٹکا دیا گیا تھا۔ [صحيح مسلم 1167: 215]

خواتین کے اعتکاف کی جگہ
«عن عائشة رضي الله عنها قالت،” ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشر الاواخر من رمضان حتى توفاه الله”، ثم اعتكف ازواجه من بعده. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔ [صحيح بخاري 2026، صحيح مسلم 117: 5]

«عن عائشة رضي الله عنها، قالت: إن كنت لادخل البيت للحاجة، والمريض فيه، فما أسأل عنه إلا وأنا مارة »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ضرورت کے تحت میں گھر میں داخل ہوتی، گھر میں کوئی مریض ہوتا تو میں بس راستے سے گزرتے ہوئے اس کا حال چال لے لیتی۔ [صحيح مسلم 297: 7]
نوٹ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف کرتی تھیں۔
اہل علم کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ عورت کہاں اعتکاف کرے : جمہور اہل علم کے نزدیک وہ مسجد ہی میں اعتکاف کر سکتی ہے، اپنے گھر کسی مخصوص جگہ پر نہیں۔ جبکہ احناف کے نزدیک وہ اپنے گھر کی مسجد (یعنی وہ جگہ جو اس نے نماز کے لیے خاص کر رکھی ہو) میں اعتکاف کر سکتی ہے، اور یہی اس کے لیے بہتر ہے، اور اگر مسجد میں اعتکاف کرتی ہے تو کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ یہی رائے زیادہ مناسب ہے، کیونکہ آج کے دور میں عورتوں کے مسجد میں اعتکاف کرنے میں بہت خطرات اور فتنوں کا اندیشہ ہے۔

مستحاضہ کا اعتکاف
❀«عن عائشة رضي الله عنها، قالت:” اعتكفت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم امراة من ازواجه مستحاضة، فكانت ترى الحمرة والصفرة، فربما وضعنا الطست تحتها وهى تصلي”. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی ایک بیوی نے استحاضہ کی حالت میں اعتکاف کیا، اور وہ سرخی اور زردی دیکھتی تھیں، اکثر ہم لوگ ان کے نیچے ایک طشت رکھ دیتے تھے اور وہ نماز پڑھتی تھیں۔ [صحيح بخاري 2037]

کیا اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے؟
❀ «عن عائشة رضي الله عنها أن النبى صلى الله عليه وسلم ترك الإعتكاف فى شهر رمضان، حتى اعتكف فى العشر الأولي من شوال. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں اعتکاف چھوڑ دیا، پھر شوال کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا۔ [صحيح بخاري 2033، صحيح مسلم 172 : 6]
الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔
نوٹ: اس میں اعتکاف کے ساتھ روزہ رکھنے کا تذکرہ نہیں ہے، اگر آپ نے روزہ رکھا ہو تو یہ بات بھی لوگوں کے درمیان مشہور ہوئی۔

❀«عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، أن عمر سأل النبى صلى الله عليه وسلم، قال: كنت نذرت فى الجاهلية أن أعتكف ليلة فى المسجد الحرام، قال: فاؤف بنذرك.»
❀ «وفي رواية عند البخاري: أوف نذرك، فاعتكف ليلة.»
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ان سے عرض کیا: میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو۔“ [صحيح بخاري 2032، صحيح مسلم 1656]
امام بخاری کے یہاں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: ”اپنی نذر پوری کرو، اور ایک رات اعتکاف کرو۔“ [2042]
نوٹ: اس روایت میں رات کے اعتکاف کا تذکرہ ہے، اور رات میں روزہ رکھا نہیں جاتا، اس سے معلوم ہوا کہ اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں ہے۔
رہی وہ روایتیں جن میں اعتکاف کے ساتھ روزے کا تذکرہ ہے تو وہ ضعیف ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکہیے : الجامع الكامل فى الحديث الصحيح الشامل [865/4 -867]
اس طرح یہ معلوم ہوا کہ اعتکاف کے ساتھ روزہ رکھنا شرط نہیں ہے، کیونکہ اعتکاف اور روزہ دو الگ الگ عبادتیں ہیں۔

معتکف کا ضروریات کے تحت مسجد سے نکلنا
❀ «عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النب صلى الله عليه وسلم، إذا اعتكف، يدني إلى رأسه فارجله، وكان لا يدخل البيت إلا لحاجة الإنسان.»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں اپنا سر میرے قریب کر دیتے اور میں اس میں کنگھی کر دیتی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں انسانی ضرورت ہی کے لیے داخل ہوا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم 6:297]

«عن عائشة رضي الله عنها، قالت: إن كنت لادخل البيت للحاجة، والمريض فيه، فما أسأل عنه إلا وأنا مارة، وإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدخل على رأسه وهو فى المسجد فأرجله، وكان لا يدخل البيت إلا لحاجة، إذا كان معتكفا . »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ضرورت کے تحت میں گھر میں داخل ہوتی، گھر میں کوئی مریض ہوتا تو میں بس راستے سے گزرتے ہوئے اس کا حال چال لے لیتی۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں ہوتے تو مسجد میں سے اپنا سر میرے قریب کر دیتے اور میں اس میں کنگھی کر دیتی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ضرورت ہی کے لیے داخل ہوا کرتے تھے۔“ [صحيح بخاري 2029، صحيح مسلم 7:297 ]
الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔ پہلا ٹکٹرا صحیح بخاری میں نہیں ہے۔
نوٹ: ان احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معتکف صرف اپنی ضروریات کے لیے ہی مسجد سے نکل سکتا ہے۔
رہی وہ حدیث جس میں معتکف کے لیے جنازے میں شرکت اور مریض کی عیادت کے لیے نکلنے کی اجازت ہے تو وہ موضوع ہے، اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ اسے ابن ماجہ (1777) نے روایت کیا ہے۔

معتکف کی زیارت کرنا
«عن على بن الحسين رضي الله عنه:” ان صفية رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم اخبرته، انها جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوره فى اعتكافه فى المسجد فى العشر الاواخر من رمضان، فتحدثت عنده ساعة، ثم قامت تنقلب، فقام النبى صلى الله عليه وسلم معها يقلبها، حتى إذا بلغت باب المسجد، عند باب ام سلمة مر رجلان من الانصار، فسلما على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لهما النبى صلى الله عليه وسلم: على رسلكما، إنما هي صفية بنت حيي، فقالا: سبحان الله يا رسول الله، وكبر عليهما، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: إن الشيطان يبلغ من الإنسان مبلغ الدم، وإني خشيت ان يقذف فى قلوبكما شيئا”.»
علی بن حسین فرماتے ہیں کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بتایا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ملاقات کی غرض سے آئیں، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھوڑی دیر گفتگو کی، پھر چلنے کو کھڑی ہوئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تاکہ ان کو پہنچا دیں، یہاں تک کہ جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے پاس مسجد کے دروازے تک پہنچیں، تو دو انصاری صحابی گزرے، ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرمایا: ”ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی (میری بیوی) ہیں۔“ دونوں نے کہا: سبحان اللہ یا رسول اللہ ! (یعنی کیا آپ کے متعلق کوئی بدگمانی ہو سکتی ہے!) ان دونوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا شاق گزرا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان خون کی طرح انسان کے جسم میں پھرتا ہے، اور مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں بد گمانی نہ پیدا کر دے۔“ [صحيح بخاري 2035، صحيح مسلم 75 21]

معتکف کا اپنی صفائی اور آرائش کا خیال رکھنا
❀« عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان النبى صلى الله عليه وسلم إلى رأسه وهو مجاور فى المسجد، فأرجله وأنا حائض. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہوتے، اور میری طرف اپنا سر کر دیتے تو میں اس میں کنگھی کر دیتی، اور اس وقت میں حیض کی حالت میں ہوتی۔ [صحيح بخاري 2028، صحيح مسلم 8:297۔]

❀«عن عائشة رضي الله عنها، قالت: وكان صلى الله عليه وسلم يخرج رأسه من المسجد وهو معتكف، فاغسله وأنا حائض.»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہوتے، اور مسجد سے اپنا سر نکالتے اور میں اسے دھل دیتی، اور اس وقت میں حیض کی حالت میں ہوتی۔ [صحيح بخاري 2031، صحيح مسلم 10:297۔]

اعتکاف میں بلند آواز سے تلاوت کی کراہیت
❀ « عن البياضي رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج على الناس وهم يصلون، وقد علت أصواتهم بالقراءة، فقال: إن المصلي يناجي ربه، فلينظر بما يناجيه به، ولا يجهر بعضكم على بعض بالقرآن.»
بیاضی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس آئے، لوگ نماز پڑھ رہے تھے، اور قراءت میں ان کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نمازی اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، لہٰذا وہ دیکھے کہ وہ کیا سرگوشی کر رہا ہے، اور قرآن پڑھنے میں ایک دوسرے پر آواز بلند نہ کریں۔“ [موطا امام مالك، كتاب الصلاة، 31]
نوٹ: بعض روایتوں میں یہ صراحت ہے کہ یہ رمضان میں اعتکاف کی حالت کا واقعہ ہے، جیسے:
❀ «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتكف العشر من رمضان، وقال: إن أحدكم إذا كان فى الصلاة، فإنما يناجي ربه، فلا ترفعوا أصواتكم بالقرآن »
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف کیا، اور فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کر رہا ہوتا ہے، لہٰذا قرآن پڑھنے میں تم اپنی آوازوں کو بلند نہ کرو۔“ [السنن الكبري للنسائي 3349، صحيح]

❀ «عن ابي سعيد، قال: اعتكف رسول الله صلى الله عليه وسلم فى المسجد فسمعهم يجهرون بالقراءة فكشف الستر، وقال:” الا إن كلكم مناج ربه فلا يؤذين بعضكم بعضا، ولا يرفع بعضكم على بعض فى القراءة، او قال: فى الصلاة”. »
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اعتکاف کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ لوگ بلند آواز سے قراءت کر رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹایا اور فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے سرگوشی کر رہا ہے، لہٰذا ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچاؤ، اور قراءت میں ایک دوسرے پر آواز بلند نہ کرو“، یا کہا: ”نماز میں ایک دوسرے پر آواز بلند نہ کرو۔“ [سنن ابوداود 1332، صحيح]

❀ «عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، أن النبى صلى الله عليه وسلم اعتكف و خطب الناس فقال: أما إن أحدكم إذا قام فى الصلاة، فإنه يناجي ربه، فليعلم أحدكم ما يناجي ربه، ولا يجهر بعضكم على بعض بالقراءة فى الصلاة.»
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کیا، اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”جب تم میں کا کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کر رہا ہوتا ہے، لہٰذا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب سے کیا سرگوشی کر رہا ہے، اور نماز میں تم میں کے بعض دوسروں پر قراءت کو بند نہ کریں۔“ [مسند احمد 4928، صحيح]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے