جھوٹ کی حرمت اور اصلاح کے مقصد سے جھوٹ بولنے کی گنجائش
سوال:
کیا کسی بھی وقت جھوٹ بولنا مباح (جائز) ہے؟
الجواب :
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:
ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ جھوٹ بولنے کی حرمت (ناجائز ہونے) کی بنیادی وجہ لوگوں کے درمیان فساد اور خیانت پیدا ہونا ہے۔
لیکن اگر کسی موقع پر جھوٹ بولنے میں مصلحتِ راجحہ (یعنی غالب بھلائی) ہو، یا سراسر بھلائی ہی بھلائی ہو، تو ایسی صورت میں جھوٹ بولنا جائز ہے، ان شاء اللہ۔
احادیث کی روشنی میں جھوٹ کے جواز کی مخصوص صورتیں
➊ اصلاح کی نیت سے جھوٹ بولنے والا جھوٹا نہیں
صحیح بخاری و صحیح مسلم کی حدیث میں اس بات کا ثبوت موجود ہے۔
جیسے کہ مشکوٰۃ (جلد 2، صفحہ 412) میں ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
"وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ، فَيَقُولُ خَيْرًا أَوْ يَنْمِي خَيْرًا””
لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنے والا جھوٹا نہیں ہے، کیونکہ وہ خیر کی بات کہتا ہے اور خیر کی بات لے جاتا ہے۔”
➋ تین مخصوص مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت
مسند احمد (جلد 6، صفحہ 459) اور جامع ترمذی (جلد 2، صفحہ 183) میں اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
"وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جھوٹ صرف تین مواقع کے سوا حلال نہیں ہے:
◈ مرد کا اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لیے جھوٹ بولنا۔
◈ جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا۔
◈ لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا۔”
➌ امام احمدؒ کی روایت
مسند احمد (جلد 6، صفحہ 404) میں ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
"وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تین مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے:
◈ جنگ کے وقت۔
◈ لوگوں کے درمیان اصلاح (صلح) کے لیے۔
◈ مرد کا اپنی بیوی سے جھوٹ بولنا۔”
➍ میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں جھوٹ
ایک اور روایت میں یوں ذکر ہے:
"مرد کا اپنی بیوی سے بات کرتے وقت اور عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ بات کرتے وقت جھوٹ بولنا۔”
(الصحیحہ، جلد 2، صفحہ 74)
نتیجہ
ان تمام احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اصلاح کے مقصد سے، یا زوجین کے تعلقات بہتر بنانے کی نیت سے، یا جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ایسے شخص کو جھوٹا نہیں کہا جائے گا جو خیر کی بات کہے یا لوگوں کے درمیان صلح کی کوشش کرے۔
ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب۔