اسی طرح نکاح شغار بھی حرام ہے
لفظ شغار باب شَاغَرَ يُشَاعِرُ (مفاعلة وفعال) سے مصدر ہے ۔ باب شغر (فتح) ”کتے کا ایک ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرنا“
(نصر ) ”جلا وطن کرنا ۔“
[المنجد: ص/ 436]
کسی کے ساتھ اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرنا کہ وہ بھی اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح اس سے کرے ، نکاح شغار کہلاتا ہے۔
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا شغار فى الإسلام
”نکاح شغار اسلام میں نہیں۔“
[مسلم: 1415]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشغار
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے ۔“
اور شغاریہ ہے کہ ایک آدمی اپنی بیٹی دوسرے آدمی سے اس شرط پر بیاہ دے کہ وہ اپنی بیٹی اس سے بیاہ دے دونوں کا کوئی مہر مقرر نہ ہو ۔
[بخاري: 5112 ، كتاب النكاح باب الشغار ، مسلم: 1415 ، موطا: 535/2 ، أحمد: 62/2 ، ابو داود: 2074 ، ترمذي: 1124 ، دارمي: 136/2 ، نسائي: 110/6 ، ابن ماجة: 1883 ، عبد الرزاق: 184/6 ، أبو يعلى: 5795 ، بيهقي: 99/7]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں شغار کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ ”کوئی آدمی کہے کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر اور میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کر دیتا ہوں یا (کہے کہ ) اپنی بہن کی شادی مجھ سے کروا دو میں اپنی بہن کی شادی تم سے کر دیتا ہوں۔
[أحمد: 439/2 ، مسلم: 1416 ، كتاب النكاح: باب تحريم نكاح الشغار وبطلانه ، نسائي: 112/6 ، ابن ماجة: 1884 ، بيهقي: 200/7]
یاد رہے کہ ہر ایسا نکاح شغار ہے جس میں ایک عورت کے بدلے دوسری عورت کے نکاح کی شرط ہو خواہ اس میں حق مہر ادا کیا جائے یا نہ کیا جائے جیسا کہ حضرت عباس بن عبد اللہ بن عباس نے عبد الرحمن بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور عبد الرحمن نے اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا۔ ان دونوں نے اس کا حق مہر بھی مقرر کیا تھا تو حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم کی طرف ایک مکتوب کے ذریعے ان دونوں کے درمیان جدائی کا حکم بھیج دیا اور راوی کہتا ہے کہ اس مکتوب میں یہ بھی تھا۔
وهذا الشغار الذى نهى عنه رسول الله
”یہی وہ نکاح شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا (حالانکہ اس میں حق مہر بھی ادا کیا گیا تھا) ۔“
[حسن: صحيح ابو داود: 1826 ، كتاب النكاح: باب فى الشغار ، ابو داود: 2075 ، أحمد: 94/4 ، بيهقى: 200/7]
(ابن عبدالبرؒ) علما نے اجماع کیا ہے کہ نکاح شغار جائز نہیں۔
[فتح البارى: 163/9]
(جمہور ، مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ ) یہ نکاح باطل ہے۔
(ابو حنیفہؒ) مہر مثل ادا کر دیا جائے تو یہ نکاح درست ہے (حالانکہ یہ گذشتہ صریح حدیث کی مخالفت ہے ) ۔
[فتح البارى: 204/10 ، نيل الأوطار: 221/4 ، الأم للشافعي: 174/5 ، بدائع الصنائع: 1430/3 ، المدونة: 152/2]
(ابن تیمیہؒ) نکاح شغار مسلمانوں کے اجماع کے ساتھ حرام ہے۔
[فتاوى النساء: ص/ 280]
(ابن بازؒ) نکاح شغار ہر صورت میں ممنوع ہے خواہ مہر دیا جائے یا نہ دیا جائے ۔
[فتاوي ابن باز مترجم: 168/1]