مذہبی مقامات کی حفاظت کی تاکید
قرآن پاک میں کسی قوم کے مذہبی مقامات پر بے وجہ حملہ کرنے کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی مسلمانوں کو اس عمل سے روکا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کرام اور بعد کے خلفاء نے بھی انہی اصولوں پر عمل کیا۔ اسلام میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو محض تعصب کی بنیاد پر مسمار کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر کبھی کچھ عبادت گاہیں منہدم کی گئیں تو اس کے پیچھے اہم وجوہات موجود تھیں۔
فقہی اصول اور مسجد کی تعمیر
فقہائے اسلام نے واضح کیا ہے کہ کسی ناجائز یا متنازعہ زمین پر مسجد تعمیر کرنا درست نہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں کہ ایسی زمین پر مسجد نہیں بن سکتی جس پر کسی کا حق ہو یا وہ ناجائز طور پر حاصل کی گئی ہو۔ اسی طرح کسی شخص کی وصیت، جسے اس کے ورثاء قبول نہ کریں، پر عمل کرتے ہوئے مسجد بنانا بھی جائز نہیں۔
(ماخذ: علامہ یوسف القرضاوی، اسلام مسلمان اور غیر مسلم، ص: ۴۸-۴۹)
غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے حقوق
امام ابو یوسف نے اپنی کتاب کتاب الخراج میں لکھا ہے کہ اگر غیر مسلم کسی نئے آباد شدہ مسلم علاقے میں سلطان کی اجازت کے بغیر اپنی عبادت گاہ تعمیر کریں، تو سلطان کو یہ اختیار ہے کہ چاہے تو اسے برقرار رکھے یا منہدم کر دے۔
(ماخذ: امام ابو یوسف، کتاب الخراج، ص: ۸۸)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ مسلمانوں کے نئے آباد کردہ شہروں میں غیر مسلموں کو عبادت گاہیں بنانے کی اجازت نہیں، لیکن پرانے شہروں میں معاہدوں کی پاسداری ضروری ہے۔
تاریخی شواہد
مسلمان حکمرانوں کے عہد میں کئی شہروں میں غیر مسلموں کی عبادت گاہیں تعمیر ہوئیں اور پرانی عبادت گاہوں کی مرمت بھی ہوئی۔ مثلاً قاہرہ اور عراق میں ایسے گرجے مسلمانوں کے دور میں تعمیر ہوئے۔ جزیہ کی وصولی کے ساتھ غیر مسلموں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی جاتی تھی۔
ہندوستان میں مندروں کی حفاظت
سلاطین ہند کا رواداری کا رویہ
سلاطین ہند نے غیر مسلموں کے مذہبی مقامات کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے لیے بڑی تعداد میں زمینیں وقف کیں۔ اورنگزیب نے بعض مندروں کے لیے گھی اور تیل فراہم کیا تاکہ وہ روشن رہ سکیں۔
(ماخذ: سعید احمد اکبر آبادی، نفسة المصدور اور ہندوستان کی شرعی حیثیت، ص: ۵۷)
متعصب مؤرخین کا رویہ
بعض مؤرخین نے مسلم حکمرانوں پر مذہبی تعصب اور مندروں کو مسمار کرنے کے الزامات لگائے ہیں، لیکن یہ حقیقت کے برعکس ہے۔ دراصل، مندر اس وقت مسمار کیے گئے جب وہ سازشوں کے مراکز یا بے حیائی کے اڈے بن گئے تھے۔
فیروز شاہ تغلق کے اقدامات
فیروز شاہ تغلق نے بعض نئے آباد شدہ شہروں میں ہندو مندروں کو مسمار کیا کیونکہ وہ معاشرتی خرابیوں اور اخلاقی بگاڑ کا مرکز بن چکے تھے۔ ان کا اقدام عوامی بھلائی اور اسلامی اصولوں کے مطابق تھا۔
(ماخذ: ایشور ٹوپا، ہندی مسلمان حکمرانوں کے سیاسی اصول، ص: ۸۹)
دیگر مسلمان حکمرانوں کی پالیسیاں
جہانگیر اور شاہجہان نے بعض مواقع پر مندروں کی تعمیر پر پابندی لگائی، لیکن مجموعی طور پر سلاطین ہند نے مندروں کی حفاظت کی۔ محمد بن قاسم نے سندھ میں مندروں کی مرمت کی اجازت دی اور عطیات بھی دیے۔
غیر مسلموں کی جانب سے مساجد کی تخریب
تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ مسلمانوں کی عملداری میں رہنے والے غیر مسلموں نے کئی مساجد کو مسمار کیا، لیکن مسلمان حکمرانوں نے عمومی طور پر ان کے مذہبی مقامات کی حفاظت کی۔
نتیجہ
اسلامی اصولوں کے مطابق مذہبی مقامات کو بلاوجہ نقصان پہنچانا یا ان کی بے حرمتی کرنا ممنوع ہے۔ مسلمان حکمرانوں نے بھی ان اصولوں کی پاسداری کی۔ اگر مندروں کو مسمار کیا گیا تو اس کے پیچھے اخلاقی یا سماجی وجوہات تھیں، نہ کہ تعصب۔ دوسری جانب غیر مسلموں کی جانب سے مساجد کی توڑ پھوڑ کے کئی واقعات بھی تاریخ میں موجود ہیں۔