اسلام میں ریاکاری کی حقیقت اور اس کے انجام
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

اسلام میں ریاکاری

اسلام میں ریاکاری (یعنی نیکی کے کام کو دکھاوے اور شہرت کے لیے کرنا) کو ایک انتہائی ناپسندیدہ اور خطرناک گناہ قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے مختلف احادیث میں اس گناہ سے بچنے کی بار بار تاکید فرمائی ہے۔

➊ ریاکاری کو "شرکِ اصغر” قرار دیا گیا ہے

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ” فَسُئِلَ عَنْهُ، فَقَالَ: "الرِّيَاءُ”
(مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے، وہ "شرکِ اصغر” ہے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! شرکِ اصغر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ریاکاری (یعنی دکھاوا))
(مسند احمد: 23630، صحیح ابن حبان: 6330)

➋ قیامت کے دن ریاکاروں کا انجام

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَيْهِ…”
(قیامت کے دن سب سے پہلے جن لوگوں کا حساب ہوگا وہ یہ ہوں گے:)
شہید – جس نے اللہ کے لیے نہیں، بلکہ لوگوں کی تعریف حاصل کرنے کے لیے جہاد کیا تھا۔
عالم – جس نے شہرت کی خاطر علم حاصل کیا اور دوسروں کو سکھایا۔
سخی – جس نے محض دکھاوے کے لیے صدقہ کیا۔
اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: "تم نے یہ اعمال دنیا میں لوگوں کی واہ واہ کے لیے کیے تھے، اور وہ تمہیں مل گئی، اب میرے پاس تمہارے لیے کچھ نہیں۔”
پھر انہیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
(صحیح مسلم: 1905)

➌ اللہ تعالیٰ صرف خالص نیت والا عمل قبول کرتا ہے

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا، وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ”
(اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو صرف اسی کے لیے کیا گیا ہو اور جس میں محض اس کی رضا مقصود ہو۔)
(سنن نسائی: 3140)

➍ ریاکار کے لیے وعید

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ يُرَائِي يُرَائِي اللَّهُ بِهِ”
(جو شخص نیک اعمال کر کے لوگوں کو سناتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی برائی سب پر ظاہر کر دے گا، اور جو دکھاوا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن رسوا کرے گا۔)
(صحیح بخاری: 6499، صحیح مسلم: 2987)

➎ ریاکاری نیکیوں کو ضائع کر دیتی ہے

رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ اس گناہ کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ، قَالُوا: وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ؟ قَالَ: الرِّيَاءُ، يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ: إِذَا جَزَى النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ، اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاءُونَ فِي الدُّنْيَا، فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً؟”
(مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز کا ڈر ہے، وہ "شرکِ اصغر” یعنی ریاکاری ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ ان لوگوں کے پاس جنہیں تم دنیا میں دکھاوا کرتے تھے، اور دیکھو، کیا تمہیں ان سے کوئی بدلہ ملتا ہے؟)
(مسند احمد: 23630)

➏ ریاکاری منافقین کی علامت ہے

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"إِنَّ ٱلْمُنَٰفِقِينَ يُخَٰدِعُونَ ٱللَّهَ وَهُوَ خَٰدِعُهُمْ ۖ وَإِذَا قَامُوٓا۟ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ قَامُوا۟ كُسَالَىٰ يُرَآءُونَ ٱلنَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ ٱللَّهَ إِلَّا قَلِيلًۭا”
(بے شک منافق لوگ اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اللہ انہیں دھوکہ دے رہا ہے، اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، محض لوگوں کو دکھانے کے لیے۔ اور اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔)
(سورة النساء 4:142)

نتیجہ

ریاکاری نہ صرف ایک خطرناک گناہ ہے بلکہ ایسا عمل ہے جو انسان کی نیکیوں کو مکمل طور پر ضائع کر دیتا ہے۔ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو رسوائی اور سخت سزا کا سامنا ہوگا۔ لہٰذا، ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے کرے، نہ کہ دنیاوی تعریف اور شہرت کے لیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1