تعارف
حال ہی میں غامدی صاحب نے نامحرم عورت کے ساتھ مصافحہ کے جواز کا فتویٰ دیا، جس پر مختلف حلقوں سے اعتراضات کیے گئے۔ جواباً غامدی مکتبہ فکر کے کچھ اہلِ علم نے اس فتویٰ کا دفاع دلائل کی بجائے لونڈیوں کے متعلق قدیم فقہی احکام کا حوالہ دے کر کیا، جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا۔ ملحدین نے بھی ان حوالوں کو اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کیا، جس کے باعث عوام میں الجھن پیدا ہوئی۔ اسی کنفیوژن کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مسئلے پر وضاحت پیش کی جا رہی ہے۔
تاریخی و علاقائی پس منظر کی اہمیت
جب کسی مسئلے کو اس کے اصل تاریخی اور معاشرتی سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا جائے تو الجھن پیدا ہونا لازمی ہے۔ پرانے دور کی بہت سی چیزیں جو اُس وقت فخر کی بات سمجھی جاتی تھیں، آج انہیں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی قوانین اُس زمانے کی ضروریات کے مطابق تھے، لیکن آج کے دور میں ان کا تذکرہ غیرمعمولی محسوس ہوتا ہے۔
معروضی تجزیہ کا تقاضا
کسی بھی مسئلے کی معنویت کو سمجھنے کے لیے اسے اُس دور کے دیگر معاشرتی اور قانونی نظام کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
موجودہ دور کے معیارات پر پرانے قوانین کو پرکھنا انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔
غلامی کا ارتقا اور جدید معاشرہ
آج کے مہذب معاشرے میں غلامی کا روایتی تصور ختم ہوچکا ہے، لیکن کچھ بدلتے ہوئے انداز کے ساتھ اب بھی اس کی جھلک موجود ہے۔ جیسے:
- قدیم دور میں لونڈی غلاموں کی قانونی حیثیت اور حقوق تھے۔
- آج ان کی جگہ "سیکس ورکر” یا "طوائف” جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
- سیکس ورکرز کا استحصال جدید معاشرے کا وہ پہلو ہے جسے اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔
سیکس ورکرز اور قدیم لونڈیوں کا موازنہ
- قدیم مسلم معاشرے میں لونڈیوں کے کھانے پینے، رہائش اور حقوق کا تحفظ موجود تھا۔
- جدید معاشرے میں سیکس ورکرز کو معمولی رقم کے لیے اپنی عزت نفس کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
- اگر سیکس ورکرز قدیم مسلم معاشرے کی لونڈیوں کے حالات دیکھیں تو شاید وہ ان حالات کو ترجیح دیں۔
جنگ اور غلامی: قدیم اور جدید نقطۂ نظر
قدیم مسلم معاشرہ
- قدیم مسلم تہذیب میں صرف جنگی قیدیوں کو غلام بنایا جا سکتا تھا، اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا گیا تھا۔
- لونڈیوں کی خرید و فروخت ایک قانونی عمل تھا، جس کے لیے فقہاء نے قوانین وضع کیے۔
جدید مہذب معاشرہ
- ویتنام، عراق اور افغانستان کی جنگوں میں مہذب قوموں کے کردار کو دیکھیں:
- ویتنام میں امریکی فوجیوں کے لیے تھائی لینڈ کو عیاشی کا مرکز بنایا گیا۔
- عراق اور افغانستان کی لڑکیوں کے ساتھ ریپ اور انسانی اسمگلنگ کی مثالیں عام ہیں۔
- گوانتاناموبے میں مرد قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا گیا۔
انسانی حقوق کے دعویداروں کی منافقت
- جان لاک جیسے فلسفی، جو لبرل ازم کے بانی سمجھے جاتے ہیں، غلامی کے حمایتی تھے۔
- امریکہ کی ترقی میں افریقی غلاموں کا کردار نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسلامی تہذیب اور لونڈی غلاموں کا نظام
فقہی احکام کی وضاحت
- فقہاء نے ہر مسئلے پر وضاحت پیش کی، چاہے وہ مسئلہ عملی ضرورت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔
- لونڈی غلاموں کے حوالے سے فقہاء نے حدود و قیود مقرر کیں، لیکن یہ قوانین اُس وقت کے حالات پر مبنی تھے۔
- آج کے دور میں ان فقہی احکام کی عملی حیثیت ختم ہوچکی ہے۔
اسلام کا تدریجی ارتقاء
- اسلام نے معاشرتی رجحانات کو تدریجاً تبدیل کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔
- غلامی اور لونڈیوں کا خاتمہ بھی اسی تدریجی عمل کا حصہ تھا۔
- چند لوگ اسلام کے ارتقائی مراحل کو بنیاد بنا کر غیرضروری تنازعات پیدا کر رہے ہیں۔
نتیجہ
آج کے دور میں نہ غلامی کے پرانے انداز موجود ہیں اور نہ ہی اسلام میں ان کی گنجائش ہے۔ اسلامی تہذیب نے اپنی ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے ان مسائل کو ختم کیا، لیکن چند لوگ فقہی احکام کو بنیاد بنا کر کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان احکام کو تاریخی اور معاشرتی تناظر میں سمجھا جائے اور موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی تعلیمات کو واضح کیا جائے۔