اسلامی جہاد کا فلسفہ اور مغربی تہذیب کا تضاد

جہاد کا مقصد اور پس منظر

جہاد اسلام میں ایسا حکم ہے جو کلمہ حق کی سربلندی اور انسانی سوسائٹی پر آسمانی تعلیمات کی بالادستی کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ تصور اسلام سے پہلے بھی موجود تھا، اور قرآن کریم نے اس کے مختلف مراحل کا ذکر کیا ہے۔ بائبل میں بھی جہاد کا ذکر ملتا ہے۔ کتاب استثنا ۱۰:۲۰ میں یہ حکم درج ہے کہ جنگ سے پہلے صلح کی پیشکش کی جائے، اور اگر صلح نہ ہو تو جنگ کی جائے، اور فتح کی صورت میں شہر کے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور باقی مال و اسباب فاتحین کے لیے لے لیا جائے۔

نبی اکرم کی ہدایات

رسول اکرم نے جہاد کے لیے روانہ ہونے والے کمانڈروں کو یہ ہدایت دی کہ:

  • پہلے دشمن کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دو۔
  • اگر وہ اسلام قبول کریں تو وہ ہمارے بھائی بن جاتے ہیں۔
  • اگر وہ اسلام نہ قبول کریں تو جزیہ ادا کرکے اسلامی حکومت کی بالادستی قبول کریں۔
  • اس صورت میں انہیں جان و مال اور مذہبی آزادی دی جائے گی۔
  • اگر یہ دونوں شرائط قبول نہ کی جائیں تو پھر جنگ کا راستہ اختیار کیا جائے۔

جہاد کا مقصد

  • جہاد کا مقصد کسی پر زبردستی اسلام قبول کروانا نہیں ہے۔
  • اصل ہدف یہ ہے کہ انسانوں کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کریں لیکن انسانی معاشرے میں آسمانی تعلیمات کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔

بائبل اور اسلام میں فرق

  • بائبل کا حکم: مقامی آبادی کو باج گزار بنانا اور دشمن کے مردوں کو قتل کرنا۔
  • اسلام کا حکم: جزیہ کے عوض جان و مال کا تحفظ، مذہبی آزادی، اور شہری حقوق فراہم کرنا۔
  • غنیمت: بائبل میں شہر کے تمام مال کو غنیمت بنانا شامل ہے، جبکہ اسلام میں صرف میدان جنگ میں حاصل ہونے والی چیزوں کو غنیمت کہا جاتا ہے۔

یہ فرق واضح کرتا ہے کہ جہاد کا حکم اسلام کا کوئی امتیازی حکم نہیں بلکہ یہ سابقہ آسمانی مذاہب کے احکام کا تسلسل ہے، جسے اسلام نے بہتر اصولوں کے تحت نافذ کیا۔

مغرب اور جہاد کا اختلاف

مذہب سے بغاوت

  • یورپ نے مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دے کر معاشرتی امور سے الگ کر دیا۔
  • "مقدس جنگ” کا تصور ختم کر دیا گیا۔
  • لیکن انہوں نے نیشنلزم، تہذیب، اور کلچر کو مذہب کا متبادل بنا کر اس کے تحفظ کے لیے طاقت کا استعمال جائز قرار دیا۔

اقوام متحدہ کا کردار

  • اقوام متحدہ نے نیشنلزم کی بنیاد پر سرحدوں کی حفاظت کو تسلیم کیا اور دفاع کے لیے طاقت کے استعمال کی اجازت دی۔
  • سلامتی کونسل کو امن و امان کے لیے پابندیاں لگانے اور فوج کشی کا حق حاصل ہے۔
  • تاہم، سلامتی کونسل پر صرف پانچ ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کی اجارہ داری ہے۔

افغانستان اور عراق پر حملے

  • امریکہ نے اقوام متحدہ کی اجازت سے افغانستان اور عراق پر حملہ کیا۔
  • ان حملوں کا جواز: اقوام متحدہ کے نظام سے بغاوت اور جمہوریت و تہذیب کا تحفظ۔
  • چلکوٹ رپورٹ: عراق جنگ کو غیر ضروری اور ناقص بنیادوں پر مبنی قرار دیا گیا۔

مغرب کا دوہرا معیار

مغرب نے اسلام پر مذہب کے لیے طاقت کے استعمال کا الزام لگایا، لیکن خود نیشنلزم اور تہذیب کے تحفظ کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ افغانستان اور عراق پر حملے اس بات کی مثال ہیں کہ مغرب نے اخلاقی و قانونی جواز کے بغیر اپنی تہذیب کو مسلط کرنے کے لیے طاقت کا سہارا لیا۔

اسلام کا موقف

اسلام کا فلسفہ یہ ہے کہ آسمانی تعلیمات کو انسانی معاشرے میں عملی شکل دینے کے لیے ضرورت پڑنے پر طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مغرب نے اپنے عمل سے اس اسلامی فلسفے کو غیر ارادی طور پر تسلیم کر لیا ہے۔

جدید دور میں جہاد کا مفہوم

  • بعض مسلمان دانش وروں نے مغرب کو مطمئن کرنے کے لیے جہاد کے احکام کی ایسی تاویل کی کوشش کی جو مغربی نظریات سے قریب ہو۔
  • تاہم، مغرب کا دوہرا معیار اور اسلام کے فلسفے کی اخلاقی برتری واضح ہونے کے بعد ایسی معذرت خواہانہ رویے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

نتیجہ

اسلامی نظریہ جہاد اپنے اصول و ضوابط کے لحاظ سے مکمل اور اخلاقی برتری کا حامل ہے۔ مغرب کے یک طرفہ نظام اور تہذیبی غلبے کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات کا موقف واضح اور مضبوط ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1