اسلامی انقلاب فلسفے مذہب اور دین کا تقابلی جائزہ

فلسفے کا دائرہ

فلسفہ ہمیشہ فکر اور نظریہ کی دنیا تک محدود رہتا ہے۔
فلسفی واقعات سے نتائج اخذ کرتا ہے لیکن ان واقعات کو بدلنے کی جدوجہد نہیں کرتا۔
عملی زندگی، تاریخ کے نشیب و فراز، اور اجتماعی مسائل سے فلسفی کا براہ راست واسطہ نہیں ہوتا۔

مذہب (مروجہ محدود معنوں میں)

مذہب عقائد کے ساتھ فرد کو اخلاقی تعلیم دیتا ہے، لیکن اس کا راستہ تمدنی اور اجتماعی نظام سے الگ رہتا ہے۔
یہ نہ تو سماجی ڈھانچے میں جامع تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے، نہ سیاسی نظام کو چیلنج کرتا ہے۔

مذہب کا پیغام وعظ و نصیحت پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں:

  • مخاطب کے حالات کی پروا نہیں کی جاتی۔
  • معاشرتی یا سیاسی قوتوں کے اثرات پر غور نہیں کیا جاتا۔
  • بدی کے وسیع دائرے کو چیلنج کرنے کا کوئی منصوبہ شامل نہیں ہوتا۔

مذہب جزوی نیکی کو فروغ دیتا ہے، مگر اجتماعی اصلاح کا کوئی وسیع نظریہ پیش نہیں کرتا۔

دینِ اسلام اور نبی کریم ﷺ کا کردار

فلسفے اور مذہب سے مختلف انداز

نبی اکرم ﷺ نہ فلسفی تھے اور نہ محض واعظ۔ آپؐ کا مشن زندگی کے ہر شعبے میں مکمل تبدیلی لانا تھا۔
آپؐ نے انفرادی، اجتماعی، سیاسی اور تمدنی نظام پر یکساں توجہ دی۔
موجودہ نظام کو چلانے والی قوتوں اور قیادت کو پہچانا، ان کی اصلاح کی کوشش کی، اور ضرورت پڑنے پر انہیں چیلنج کیا۔

قیادت اور جدوجہد

آپؐ نے ہر واقعے اور حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔
اپنی حکمت عملی میں قائدانہ بصیرت اور سیاسی شعور کو استعمال کیا۔
ہر اقدام کے لیے مناسب وقت کا انتظار کیا اور صبر سے کام لیا۔

ضرورت کے مطابق اقدامات کیے، جیسے:

  • دعوت دینا، تنقید کرنا، اور چیلنج کرنا۔
  • جنگی ضرورت پڑنے پر جنگ کرنا اور صلح کا موقع آنے پر صلح کرنا۔
  • مخالفین کے پروپیگنڈے کا توڑ اور عوامی رائے عامہ کی تشکیل۔
  • شعرا اور خطیبوں کے ذریعے مخالفین کے حملوں کا جواب۔

تنظیم اور تربیت

آپؐ نے باصلاحیت اور سلیم الفطرت افراد کو تلاش کیا اور انہیں تنظیم کا حصہ بنایا۔
ان افراد کی تربیت کی اور انہیں زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بنایا۔

آپؐ کے ساتھی:

  • بہادر، باحوصلہ، اور بصیرت مند تھے۔
  • خوددار، متحرک، اور عملی میدان میں سرگرم تھے۔
  • زاہد اور صوفی بننے کے بجائے مضبوط قیادت کے تحت منظم قوت بنے۔

نتیجہ

نبی کریم ﷺ کی قیادت میں یہ افراد ناقابلِ شکست قوت بنے۔
چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود اسلامی دعوت نے پورے عرب میں ایک تہلکہ مچا دیا۔
مکّہ میں 40 افراد پر مشتمل جماعت نے پورے شہر کو اپنے پیغام کا مرکز بنا دیا۔
مدینہ میں، چند سو افراد کی اقلیت نے اسلامی ریاست کی بنیاد رکھ دی، جو تاریخ میں انقلاب کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔

فرق: مذہب اور دینِ اسلام

مذہب محدود دائرے میں انفرادی اصلاح تک محدود رہتا ہے، جبکہ دینِ اسلام اجتماعی نظام کو بدلنے کی تحریک ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی دعوت ایک ہمہ گیر تبدیلی کا منصوبہ تھا، جو ہر شعبہ زندگی پر محیط تھا۔
دینِ اسلام، قرآن اور سیرتِ طیبہ کے ذریعے انفرادی تزکیہ کے ساتھ تمدنی انقلاب کی بنیاد رکھتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے