نماز میں تشہد کے بعد حسب منشاء کوئی بھی دعا پڑھی جاسکتی ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

استعاذہ کے بعد حسب منشاء کوئی بھی دعا پڑھی جاسکتی ہے

➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
ثم ليتخير من الدعاء ما أعجبه إليه فيدعو
[ بخاري: 831 ، كتاب الأذان: باب التشهد فى الآخرة ، ترمذي: 289 ، نسائي: 337/2 ، شرح معاني الآثار: 263/1 ، طبراني كبير: 9912]
”(تشہد کے بعد ) پھر اسے دعا کا انتخاب کرنا چاہیے کہ جو اسے سب سے زیادہ اچھی لگے وہ مانگے ۔“
➋ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ انہیں ایسی دعا سکھائیں جسے وہ نماز میں پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو:
اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِّنْ عِندِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنتَ الْغَفُورُ الرَّحِيم –
[بخاري: 834 ، 6326 ، كتاب الأذان: باب الدعاء قبل السلام ، مسلم: 2705 ، ترمذي: 3531 ، نسائي: 53/3 ، ابن ماجة: 3835 ، أحمد: 3/1 ، ابن خزيمة: 846]
➌ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں یہ دعا مذکور ہے :
اللهُمَّ اغْفِرُ لِي مَا قَدَّمُتُ وَمَا أَخْرُتْ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَتُتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنْ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَانتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ
[مسلم: 771 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب الدعاء فى صلاة الليل و قيامه ، أبو داود: 760 ، صفة صلاة النبى للألباني: ص/ 187]
یہاں علماء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ حسب منشا صرف اوعیہ ماثورہ ہی پڑھ سکتا ہے یا دنیا و آخرت کی جو بھی دعا چاہے پڑھ سکتا ہے؟
(جمہور) دنیا و آخرت کے معاملات کی کوئی بھی دعا ”جب تک کہ گناہ نہ“ ہو پڑھ سکتا ہے۔
(ابو حنیفہؒ) صرف قرآن و سنت میں موجود ماثور و مسنون دعائیں ہی پڑھی جاسکتی ہیں۔
[ نيل الأوطار: 113/2]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے کیونکہ حدیث کے یہ الفاظ ثم ليتخير من الدعا ما أعجبه اليه اور ایک دوسری حدیث میں ما أحب کے الفاظ اسی پر دلالت کرتے ہیں اور احناف کے موقف کو رد کرتے ہیں ۔
[سبل السلام: 444/1 ، نيل الأوطار: 113/2]

سلام پھیرنا واجب ہے

➊ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وتحليلها التسليم
” صرف نماز کو سلام کے ساتھ ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔“
[ حسن: صحيح أبو داود: 577 ، كتاب الصلاة: باب الإمام يحدث بعد ما يرفع رأسه من آخر ركعة ، أبو داود: 618 ، ترمذي: 3 ، ابن ماجة: 275]
امام شوکانیؒ رقمطراز ہیں کہ تحليلها میں اضافت حصر کا تقاضا کرتی ہے گویا اس کا معنی یہ ہے : لا تحليل لها غيره
یعنی سلام کے علاوہ کسی چیز سے نماز کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
[نيل الأوطار: 142/2]
یہ سلام کے وجوب کی واضح دلیل ہے۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر مداومت اختیار فرمائی جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ :
وكان يختم الصلاة بالتسليم
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کے ساتھ نماز ختم کرتے تھے ۔“
[مسلم: 498 ، كتاب الصلاة: باب ما يجمع صفة الصلاة وما يفتتح به، ابن ماجة: 296/1 ، دارمي: 310/1]
اس مسئلے میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔
(شافعیؒ ، احمدؒ ، جمہور صحابہ و تابعین) ایک طرف سلام واجب ہے اور دوسری طرف سنت ہے۔
(مالکؒ) محض ایک سلام ہی مسنون ہے۔
(احناف) نماز سے خارج ہونے کے لیے سلام واجب نہیں ہے بلکہ اگر نماز کے منافی کسی عمل یا حدث وغیرہ سے بھی نماز ختم کر دی جائے تو جائز ہے البتہ سلام پھیرنا سنت بہر حال ہے۔
[ المجموع: 462/3 ، الأم: 234/1 ، رد المختار: 162/2 ، الهداية: 53/1 ، المبسوط: 30/1]
(شوکانیؒ ) حدیث مسیئ الصلاۃ کی تاریخ کے بعد اگر وجوب ثابت ہو جائے (تو اسے قبول کیا جائے گا)۔
[السيل الجرار: 220/1 – 221 ]
سلام کو سنت کہنے والوں کے دلائل:
➊ حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام نماز مکمل کر کے بیٹھے :
فاأحدث قبل أن يسلم فقد تمت صلاحه ”اور سلام پھیرنے سے پہلے بے وضوء ہو جائے تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔“
[ ضعيف: ضعيف أبو داود: 122 ، ضعيف الجامع: 635 ، أبو داود: 617 ، كتاب الصلاة: باب الإمام يحدث بعد ما يرفع رأسه ، ترمذي: 408 ، شرح معاني الآثار: 274/1 ، دار قطني: 379/1 ، بيهقي: 17232 ، شرح السنة: 329/2 ، اس حديث كي سند ميں عبدالرحمن بن زياد بن انعم لا فريقي راوي هے كه جسے بعض اهل علم نے ضعيف كها هے ۔ نيل الأوطار: 143/2 ، امام نوويؒ رقمطراز هيں كه حفاظ كا اتفاق هے كه يه راوي ضعيف هے۔ المجموع: 462/3]
➋ مسیئ الصلاۃ کی حدیث میں سلام کا ذکر نہیں اس لیے یہ واجب نہیں۔
تاخير البيان عن وقت الحاجة لايحجوز .
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ مسیئ الصلاۃ کی حدیث اس کے مخالف نہیں ہے کیونکہ یہ (صحیح حدیث میں موجود ) زیادتی ہے جو کہ مقبول ہوتی ہے۔
[سبل السلام: 455/1]
(راجح) وجوب کا قول ہی راجح ہے۔
(ابن تیمیہؒ) جو شخص سلام سے پہلے بے وضوء ہو گیا اس کی نماز باطل ہے خواہ فرض ہو یا نفل۔
[مجموع الفتاوى: 613/22]
(نوویؒ) صحابہ و تابعین اور ان کے بعد آنے والوں میں سے جمہور علماء وجوب کے قائل ہیں۔
[شرح مسلم: 90/3]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) وجوب کے قائل ہیں۔
[ تحفة الأحوذى: 44/1]
(امیر صنعانیؒ) اس کے قائل ہیں۔
[سبل السلام: 455/1]
(ابن حزمؒ ) سلام فرض ہے اور اس کے بغیر نماز مکمل نہیں ہوتی ۔
[ المحلى بالآثار: 304/2]
(البانیؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[ التعليقات الرضية على الروضة الندية: 275/1 ، صفة صلاة النبى: ص/188]
◈ واضح رہے کہ تین سلاموں کے بارے میں کوئی قابل اعتبار چیز وارد نہیں ہے۔
[السيل الجرار: 221/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1