اذان سن کر مسجد نہ جانے والوں کیلئے 5 سخت تنبیہیں

نابینا کو مسجد میں آنے کا حکم

سیدنا عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا واقعہ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی، سیدنا عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے اپنی معذوری کا ذکر کرتے ہوئے عرض کیا کہ چونکہ وہ نابینا ہیں اور انہیں مسجد تک لانے والا کوئی نہیں ہے، اس لیے انہیں اجازت دی جائے کہ وہ اپنے گھر پر ہی نماز ادا کر لیا کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی طور پر انہیں اجازت مرحمت فرما دی۔ لیکن جب وہ واپس جانے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ بلایا اور دریافت فرمایا:
"اذان سنتے ہو؟”
انہوں نے جواب دیا:”جی ہاں!”
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تو پھر نماز میں حاضر ہو۔”
(مسلم، المساجد باب یجب اتیان المسجد علی من سمع النداء: ۳۵۶)

غور کا مقام

یہ واقعہ اُن بینا لوگوں کے لیے باعثِ عبرت ہے جو اذان سن کر بھی مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے نہیں جاتے۔ جب ایک نابینا شخص کو گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہ دی گئی، تو بینا افراد کے لیے کیا عذر باقی رہتا ہے؟

نماز باجماعت نہ پڑھنے پر وعید

اذان سن کر جماعت میں شرکت نہ کرنے کا انجام

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص اذان سن کر مسجد میں جماعت کے لیے بغیر کسی عذر کے نہ پہنچے (اور گھر میں نماز پڑھ لے) تو اس سے نماز قبول نہیں کی جاتی۔”
(ابن ماجہ، المساجد، باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعۃ: ۳۹۷)

جماعت چھوڑنے پر شیطان کا تسلط

سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس بستی یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے، پس جماعت کو لازم پکڑو۔”
(ابو داود، الصلاۃ، باب فی التشدید فی ترک الجماعۃ، ۷۴۵)
اسے امام حاکم ۱/۶۴۲، ابن خزیمہ، ابن حبان، ذہبی اور امام نووی نے صحیح قرار دیا ہے۔

جماعت ترک کرنے والوں کے گھروں کو جلانے کا ارادہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ میں نے ارادہ کیا کہ میں لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں، پھر اذان کہلواؤں اور کسی شخص کو امامت کے لیے مقرر کروں، پھر ان لوگوں کے گھروں کو جلا دوں جو نماز (جماعت) میں حاضر نہیں ہوتے۔”
(بخاری، الاذان باب وجوب صلاۃ الجماعۃ: ۴۴۶، ومسلم: ۱۵۶)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1