ادائیگی نماز کے لئے لباس کا حکم
فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال :

ایک عورت نماز پڑھنے کے لئے ایسا کپڑا زیب تن کرتی ہے جو کہ مردوں کا شعار ہے۔ کیا ایسے لباس میں اس کی نماز جائز ہے؟ اور کیا یہ عمل مردوں سے مشابہت کے ضمن میں آتا ہے؟

جواب :

ایسا کپڑا جو کہ مردوں کا شعار ہو عورت کے لئے ہر حالت میں اس کا پہننا حرام ہے، چاہے وہ نماز کی حالت میں پہنے یا عام حالات میں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور عورتوں پر لعنت فرمائی ہے، لہٰذا کسی بھی عورت کے لئے مردوں کا مخصوس لباس پہننا جائز نہیں اور نہ کسی مرد کے لئے عورتوں کا مخصوص لباس پہننا جائز ہے۔
لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ خصوصیت کا مفہوم کیا ہے؟ خصوصیت صرف رنگ میں نہیں، بلکہ رنگ اور صفت دونوں کے مجموے کا نام ہے۔ لہٰذا عورت کے لئے سفید رنگ کا لباس زیب تن کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کی تراش خراش (بناوٹ) مردوں کے لباس جیسی نہ ہو۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ مردوں کے ساتھ مخصوس لباس عورتوں پر حرام ہے تو ایسے لباس میں بعض اہل علم کے نزدیک عورت کی نماز درست نہیں ہے، یہ علماء وہ ہیں جو ستر میں اس امر کی شرط لگاتے ہیں کہ وہ ساتر مباح بھی ہو۔
دراصل یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض علماء پردہ کرنے والے (ساتر) لباس میں اس کے جائز ہونے کی شرط لگاتے ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے ایسا نہیں سمجھتے۔ اس کے جائز ہونے کی شرط لگانے والے علماء کی دلیل یہ ہے کہ واجب الستر اعضاء کا چھپانا شرائط نماز میں سے ہے اور ضروری ہے کہ ساتر لباس وہ ہو جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہو اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت نہ دی ہو تو وہ شرعاً ساتر نہیں ہو گا۔
اور جو علماء گناہ کے باوجود اس لباس میں نماز کے صحیح ہونے کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ ستر تو بہرحال حاصل ہو چکا ہے۔ (لہٰذا اس میں نماز درست ہو گی) جبکہ گناہ اس معاملے سے خارج ہے جو کہ نماز کے ساتھ مخصوص نہیں۔ بہرحال حرام لباس زیب تن کر کے نماز پڑھنے والا اس خطرے سے دوچار رہے گا کہ کہیں اس کی نماز رد نہ کر دی جائے اور وہ شرف قبولیت سے محروم رہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے