احیاء العلوم کی صداقت اور من گھڑت روایات کا جائزہ
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

امام غزالی کی احیاء العلوم کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر اور عمر نے مطالعہ کیا اور کتاب کے مندرجات کی تصدیق کی
یافعی رحمہ اللہ نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ مشہور فقیہ امام ابو الحسن علی حرزہم احیاء العلوم پر نکتہ چینی کیا کرتے تھے، با اثر اور صاحب صلاحیت عام تھے، ایک دن احیاء العلوم کے تمام نے جمع کرنے کا حکم دیا ارادہ یہ تھا کہ جتنے نسخے مل جائیں گے انہیں جمعہ کے دن جامع مسجد کے صحن میں آگ دے دی جائے گی، لیکن جمعہ کی شب میں انہوں نے عجیب و غریب خواب دیکھا، انہوں نے دیکھا کہ وہ جامع مسجد میں ہیں وہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر اور حضرت عمر بھی موجود ہیں، امام غزالی رحمہ اللہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں جب ابن حرزہم پر ان کی نگاہ پڑی تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ میرا مخالف ہے اگر میری کتاب ایسی ہی ہے جیا کہ یہ شخص سمجھتا ہے تو میں اللہ کی راہ میں توبہ و استغفار کروں گا، اور اگر میں نے اس میں وہ سب کچھ لکھا ہے جو مجھے آپ کی برکت اور اتباع سنت کے طفیل میں حاصل ہوا ہے تو اس شخص سے میرا حق مجھے دلائیے، امام غزالی کا یہ دعوی سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ”احیاء العلوم“ ہاتھ میں لی اور شروع سے آخر تک ایک ایک صفحہ دیکھا پھر فرمایا: بخدا یہ تو بہت عمدہ چیز ہے، پھر حضرت ابو بکر صدیق نے کتاب اٹھائی، پوری کتاب پر ایک نظر ڈالی اور عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو پیغمبر بنا کر بھیجا، یہ تو بڑی عمدہ کتاب ہے، آخر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کتاب ہاتھ میں لی، اس پر ایک نظر ڈالی اور کچھ تعریفی جملے کہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ فقیہ علی بن حرزہم کی پشت نگی کی جائے اور اس پر وہ حد جاری کی جائے جو مفتری پر جاری کی جاتی ہے، آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی اور کوڑے لگائے گئے، جب پانچ کوڑے لگ چکے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سفارش کی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! شاید انہوں نے اس کتاب کو آپ کی سنت کے خلاف سمجھا ہو امام غزالی نے حضرت ابو رضی اللہ عنہ ان کی سفارش منظور کر لی، جب ابن حرزہم بیدار ہوئے تو کوڑے کے نشانات ان کے جسم پر تھے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بلا کر یہ نشانات دکھلائے، پورا واقعہ بیان کیا اور غزالی کی مخالفت سے توبہ کی لیکن ایک مدت تک کوڑوں کی تکلیف باقی رہی، رات کی آہ وزاری کے بعد ایک دن خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں آپ نے ان کے جسم پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ تکلیف دور ہو گئی، اس دن سے احیاء العلوم کا مطالعہ شروع کر دیا، پھر اس فن میں اس قدر انہماک ہوا کہ علم ظاہر کے ساتھ ساتھ علم باطن میں بھی آپ کو زبردست شہرت حاصل ہوئی، یافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ واقعہ ایک مسلسل سند کے ساتھ پہنچا ہے، اس سند کی آخری کڑی شیخ المشائخ ابو الحسن شاذلی ہیں، شیخ موصوف ابن حرزہم کے معاصر تھے وہ فرماتے تھے کہ جب ابن حرزہم کا انتقال ہوا اور انہیں غسل دیا جانے لگا تو کوڑوں کے نشانات موجود تھے۔

دوسرا واقعہ:
حافظ ابن عساکر بھی امام غزالی کے معاصرین میں سے ہیں، ان دونوں حضرات کی ملاقات بھی ثابت ہے، فرماتے ہیں کہ مجھے شیخ ابو الفتح شادی کے ایک جواب کی تفصیل مشہور فقیہ صوفی سعید بن علی بن ابی ہریرہ اسفرائی رحمہ اللہ کے ذریعہ معلوم ہوئی، شیخ شاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد حرام میں داخل ہوا، مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری تھی، بیٹھنے اور کھڑے ہونے کی سکت ہی باقی نہیں رہی تھی، اسی حالت میں کعبہ کی طرف منہ کر کے دائیں کروٹ سے لیٹ گیا، میں اس وقت باوضو تھا، اگرچہ میری پوری کوشش یہ تھی کہ کسی طرح نیند نہ آئے لیکن میں اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا اور غنودگی سی چھا گئی، میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، آپ نے خوبصورت عمامہ باندھ رکھا ہے اور بہترین لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں، چاروں ائمہ کرام شافعی، مالک، ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، اور اپنے اپنے مذاہب بیان کر رہے ہیں، آپ ہر امام کا مذہب سنتے ہیں اور اس کی تصدیق فرما دیتے ہیں، اسی دوران ایک بدعتی شخص بار یابی چاہتا ہے لیکن اسے دھتکار دیا جاتا ہے، پھر میں آگے بڑھتا ہوں اور عرض کرتا ہوں یا رسول اللہ ! میرا اور تمام اہل سنت کا عقیدہ تو یہ کتاب احیاء العلوم ہے، اگر آپ کی ا جازت ہو تو میں اس کتاب کا کچھ حصہ پڑھ کر سناؤں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت مرحمت فرماتے ہیں، میں ”احیاء العلوم“ کے باب ”قواعد العقام“ کی ابتدائی سطریں پڑھتا ہوں «بسم الله الرحمن الرحيم» کتاب العقائد میں چار فصلیں ہیں، پہلی فصل اہل سنت کے عقیدہ کی تشریح میں جب میں اس عبارت پر پہنچتا ہوں «انه تعالى بعث النبى الأمي القرشي محمدا صلى الله عليه وسلم إلى كافه العرب والعجم والجن والانس» تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار دیکھتا ہوں، آپ مجمع کی طرف متوجہ ہو کر فرماتے ہیں، غزالی کہاں ہیں؟ غزالی کھڑے ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: یا رسول اللہ ! میں یہاں ہوں، پھر وہ آگے بڑھتے ہیں اور سلام عرض کرتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں اور اپنا دست مبارک غزالی کی طرف بڑھاتے ہیں، غزالی آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بوسہ دیتے ہیں، اپنی آنکھوں سے لگاتے ہیں اور اپنے سر پر رکھتے ہیں، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی مسرت کے عالم میں صرف اس وقت دیکھا جب غزالی کی احیاء العلوم پڑھی جا رہی تھی، اس واقعہ کے بعد میں بیدار ہو گیا، خواب کے اثرات ابھی تک باقی تھے، میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے، میرے خیال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاہب اربعہ کی تصدیق کرنا اور غزالی کے بیان کردہ عقائد پر اظہار مسرت فرمانا اللہ تعالیٰ کا ایک زبردست انعام ہے، خداوند کریم ہمیں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم رکھے اور شریعت نبوی پر موت دے۔

تحقیق الحدیث

اسنادہ ضعیف:

یہ سارا قصہ من گھڑت ہے،
اس میں مجھول راوی ہیں نیز احیاء العلوم میں موضوع روایات موجود ہیں آپ اسے کیسے پسند کر سکتے تھے، تفصیل کے لیے دیکھیں۔ [تعريف الاحياء بفضائل الاحياء لعبد القادر العيد دوسي وهو مطبوع بهامش الاحياء 19/16/1 والمطبوع ايضا بهامش اتحاف السادة المتقين 8/1۔ 10]
مزید دیکھیں: [كتاب القول المبين فى التحرير من كتاب احياء علوم الدين، للشيخ عبد اللطيف بن عبدالرحمن بن حسن آل شيخ و كتاب احياء علوم الدين فى ميزان العلماء و المؤرخين للشيخ على بن حسن بن على بن عبدالحميد۔]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے