اجنبی ڈاکٹر کے مسلمان عورت کا علاج کرنے کا حکم
تحریر: فتویٰ علمائے حرمین

سوال: اگر بالعموم علاج کے لیے اور خاص طور پر دانتوں کے علاج کے لیے لیڈی ڈاکٹر میسر نہ ہو تو کیا عورت کے لیے ایسی صورت میں مرد ڈاکٹر کے پاس علاج کی غرض سے جانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں ، یقیناًً (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ) صحابیات رضی اللہ عنہم (جنگوں میں ) نکلتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں ، لہٰذا یہ اس مسئلہ کی دلیل ہے کہ جب مرد ڈاکٹر میسر نہ ہو بلکہ لیڈی ڈاکٹر میسر ہو تو مرد (مریض) کو اس سے علاج کروانا جائز ہے بشرطیکہ وہ لیڈی ڈاکٹر فتنہ میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہے ۔ اور اسی طرح جب لیڈی ڈاکٹر نہ مل سکے ، بلکہ نیک سیرت مرد ڈاکٹر میسر ہو تو عورت کو اس سے علاج کروانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ فتنہ سے بچی رہے ۔
بہرحال ہم اس سب حالات پر اللہ کی جناب میں دعا کرتے ہیں ، ہمارے ہسپتال مخلوط ہیں ، حرمین کی سرزمین میں اور دیگر ممالک میں مرد عورت سے علاج معالجہ کرواتے ہیں اور عورتیں مرد سے ، پس ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہم کو ان مخلوط ہسپتالوں سے مستغنی و بے پرواہ کر دے ۔ (مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!