اتمام حجت نظریہ یا قانون کی حقیقت

اتمامِ حجت کے "قانون” پر ڈاکٹر مشتاق صاحب کا تجزیہ

ڈاکٹر مشتاق صاحب کی اس تحریر میں اتمامِ حجت کے "قانون” کے بارے میں تفصیلی تجزیہ کیا گیا ہے، جسے مکتبِ فراہی اور خاص طور پر غامدی صاحب کی فکر میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس نظریے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کئی اہم پہلوؤں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔

اتمامِ حجت کے "قانون” پر عمومی اعتراضات

  • اتمامِ حجت کے "قانون” کو قرآن کے فہم کی بنیاد بنایا جاتا ہے، لیکن یہ نظریہ کئی مفروضات پر قائم ہے۔
  • اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے قرآن، احادیث، اسلامی قوانین، اور سیرت و تاریخ کی متعدد تاویلات پیش کی جاتی ہیں، لیکن یہ سب ایک جامع شکل میں اس "قانون” کے سانچے میں فٹ نہیں بیٹھتیں۔
  • مختلف آیات اور واقعات کو "قانونِ اتمامِ حجت” سے منسلک کرنے کی کوشش میں مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

اہم نکات اور سوالات

1. رسولوں کے قتل کا مسئلہ

سورۃ المائدہ (5:70) کی آیت میں رسولوں کے قتل کا ذکر موجود ہے، لیکن مکتبِ فراہی میں اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہاں "رسول” سے مراد اصطلاحی رسول نہیں بلکہ عام نبی ہیں۔

  • سوال: اگر یہاں "رسول” سے مراد نبی ہیں، تو سورۃ النساء (4:157) میں مسیح علیہ السلام کے ذکر میں "رسول” کا لفظ اصطلاحی کیوں مانا گیا؟
  • تضاد یہ ہے کہ دونوں جگہ "رسول” کا لفظ استعمال ہوا ہے، لیکن دونوں کا مطلب مختلف لیا گیا۔

2. نبی کا اتمامِ حجت نہ کرنا؟

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اتمامِ حجت صرف رسول کا کام ہے، نبی کا نہیں۔

  • سورۃ النساء (4:165) میں تمام رسولوں کو مبشر اور منذر قرار دے کر لوگوں پر حجت تمام کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
  • سوال: کئی انبیاء، جیسے حضرت ایوب، حضرت یونس، اور حضرت ہارون علیہم السلام، کو غلبہ نہیں ملا اور نہ ہی ان کے مخالفین کا استیصال ہوا۔ تو کیا ان انبیاء نے اتمامِ حجت نہیں کیا؟

3. بنی اسرائیل کے مکذبین کا استیصال کیوں نہ ہوا؟

بنی اسرائیل نے شرک اور دیگر جرائم کیے، لیکن ان پر وہی استیصال کیوں نہیں ہوا جو دیگر قوموں پر ہوا؟

  • یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی قوم توحید پر قائم ہو تو اسے استیصال سے استثنا حاصل ہوتا ہے۔
  • سوال: قرآن اور بائبل دونوں شاہد ہیں کہ بنی اسرائیل کئی مواقع پر شرک میں مبتلا ہوئے، تو انہیں استثنا کیوں دیا گیا؟
  • مزید، بابل کی جلاوطنی اور رومیوں کے حملوں کے دوران بنی اسرائیل کو سخت سزا ملی، لیکن یہ سزا اللہ کے رسول اور ان کے ساتھیوں کی تلوار سے نہیں بلکہ مشرک بادشاہوں کے ذریعے ملی۔ تو یہ "قانون” کیسے لاگو ہوا؟

4. بنی اسرائیل کو دو دفعہ فساد کی سزا

  • بنی اسرائیل کو دو مرتبہ فساد کی سزا دی گئی، جیسا کہ مولانا اصلاحی کے نزدیک یہ بخت نصر اور رومیوں کے حملے تھے۔
  • سوال: ان دونوں مواقع پر نہ تو کوئی رسول موجود تھا اور نہ ہی رسول کے ساتھیوں کو غلبہ ملا۔ تو کیا یہ "قانونِ اتمامِ حجت” کے تحت تھا؟

5. سیدنا مسیح اور ان کے ساتھیوں کو غلبہ کیوں نہ ملا؟

  • غامدی صاحب کے نزدیک مسیح کے متبعین کو یہودیوں پر غلبہ ملا، لیکن یہ غلبہ رسول کی زندگی میں نہیں ہوا بلکہ صدیوں بعد رومی بادشاہ کے عیسائیت قبول کرنے سے ہوا۔
  • سوال: کیا اس غلبے کو سیاسی غلبہ کہا جا سکتا ہے؟ اور کیا یہ قرآن میں مذکور غلبے کی تعریف پر پورا اترتا ہے؟

6. یہود کی تاقیامت سزا

سورۃ الاعراف میں یہود کے لیے قیامت تک کی سزا کا ذکر ہے، لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ اس کی وجہ اتمامِ حجت ہے۔

  • سوال: اگر مسیح علیہ السلام کے مخاطبین پر اتمامِ حجت ہوا، تو ان کے بعد آنے والی نسلوں پر یہ سزا کیوں جاری ہے؟

7. رسول اللہ کے مکذبین کو سزا میں تاخیر

  • رسول اللہ کے مکذبین کو ہجرت کے بعد 11 سال تک سزا کیوں نہ ملی، جبکہ دیگر رسولوں کی قوموں کو فوراً عذاب ملا؟
  • سوال: قومِ ثمود کے اونٹنی ہلاک کرنے کے فوراً بعد انہیں عذاب دیا گیا، لیکن قریش کو طویل مہلت کیوں ملی؟

8. رسول کی وفات یا قتل کا امکان

  • قرآن میں رسول کی وفات یا قتل کا امکان بیان کیا گیا ہے
    (سورۃ آل عمران 3:144، سورۃ یونس 10:46)۔
  • سوال: اگر رسول کے مخالفین کی سزا سے پہلے رسول کا انتقال ہو جائے، تو "قانونِ اتمامِ حجت” کیسے پورا ہوگا؟

9. رسول اللہ کا مشن صرف جزیرۂ عرب تک؟

  • رسول اللہ کو غلبہ صرف جزیرۂ عرب میں ملا، اور وہ بھی آپ کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں مستحکم ہوا۔
  • سوال: کیا "قانونِ اتمامِ حجت” کے تحت غلبہ صرف جزیرۂ عرب تک محدود تھا؟

10. قیصر و کسریٰ پر اتمامِ حجت؟

  • قیصر و کسریٰ اور دیگر اقوام پر اتمامِ حجت کیسے کیا گیا؟
  • سوال: کیا صحابہ کی جنگوں کو "قانونِ اتمامِ حجت” میں فٹ کرنے کے لیے تاریخ کو دوبارہ لکھنا ضروری ہے؟

نتیجہ: اتمامِ حجت ایک نظریہ یا قانون؟

ڈاکٹر مشتاق صاحب کے مطابق اتمامِ حجت کو ایک "قانون” کے طور پر پیش کرنا درست نہیں۔

  • یہ ایک نظریہ ہے، جسے مکتبِ فراہی اور خاص طور پر غامدی صاحب نے "قانون” کی شکل دی ہے۔
  • اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے قرآن، حدیث، اور تاریخ کو "قانون” کے مطابق موڑنے یا ازسرِ نو تشریح کی ضرورت پڑتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1