سوال:
علامہ وحید الزمان نے اشرف الحواشی میں اس آیت کا ترجمہ یوں کیا:
’’اور تحقیق ہم جِلاتے ہیں، اور مارتے ہیں اور ہم وارث ہیں‘‘
(سورہ الحجر: 23)
سوال یہ ہے کہ "جلانے” کا معنی کیسے ممکن ہے اور اس کا مفہوم کیا ہوگا؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ ، فضیلۃ العالم علی معاذ حفظہ اللہ
جی ہاں، اس ترجمے میں "جلانے” کا مفہوم درست ہے، اور اس کا مطلب ہے زندگی دینا۔ اس کی وضاحت درج ذیل نکات میں کی جا سکتی ہے:
لغوی مفہوم:
◄ عربی لفظ "نُحْيِي” کا مطلب زندگی دینا ہے۔ اردو میں "جلا بخشنا” کا مطلب بھی زندگی یا تازگی دینا ہے۔
◄ اردو زبان میں "جلانے” کو محض آگ لگانے کے معنی میں محدود نہیں کیا جاتا، بلکہ یہ "زندگی دینے” یا "حیات عطا کرنے” کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
اردو زبان کا استعمال:
◄ اردو میں بعض اوقات "جلانا” کو مجازی طور پر زندگی بخشنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ یہاں اس آیت کے ترجمے میں کیا گیا ہے۔
◄ یہ اندازِ بیان علامہ وحید الزمان کے ترجمے کا خاصہ ہے، جہاں وہ لغوی اور ادبی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہیں۔
معنیٰ کی درستگی:
◄ اس ترجمے کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ زندگی عطا کرنے والا ہے۔
◄ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہی زندگی دینے والا، موت دینے والا، اور ہر چیز کا وارث ہے۔
نتیجہ:
آیت کے ترجمے میں "جلانے” کا مطلب اردو زبان کے مخصوص استعمال کے تحت زندگی دینا ہے، جو درست اور مفہوم کے عین مطابق ہے۔ یہ اندازِ بیان اردو زبان کے ادبی رنگ کو ظاہر کرتا ہے اور قرآن کے معنیٰ میں کسی قسم کی کمی یا تبدیلی نہیں کرتا۔