قرآن میں اس مضمون کی آیات بہت ہیں، چنانچہ سورہ کہف میں ارشاد ہے :
أُولَـئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ٭ ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا [18-الكهف:105]
”وه ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وه اسی گمان میں رہے کہ وه بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وه لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیا، اس لئے ان کے اعمال غارت ہوگئے پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔ “
اس کے پہلے والی آیت میں فرمایا :
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ٭ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا [18-الكهف:103]
”کہہ دیجئے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ باعتبار اعمال سب سے زیاده خسارے میں کون ہیں؟ وه ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وه اسی گمان میں رہے کہ وه بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔“
آیت میں أُولَـئِكَ یہ لوگ سے ان لوگوں کا مکمل ذکر مقصود ہے، جن کے اعمال برباد ہوئے اور جن کی کوششیں رائیگاں ہوئیں اور یہ کون لوگ تھے الذين كفروا بايات ربهم جنہوں نے اللہ کی ان آیات کا انکار کیا جو توحید کی سمعی اور عقلی دلیلوں کو بیان کرتی ہیں ولقائه اور حشر و نشر و امور آخرت پر بھی ایمان نہیں لائے۔ فحبطت اعمالهم فلا نقيم لهم يوم القيمة وزنا تو ہم ایسے لوگوں کو نہایت حقارت کے ساتھ گیا گزرا بنا دیں گے اور ان کے اعمال کی کوئی حیثیت قیامت کے دن نہ ہو گی۔ اس مضمون کی کچھ آیات میں یہ ذکر ہے کہ اہل جاہلیت میں کچھ لوگ ایسے تھے جو تمام آیات کے بجائے بعض آیات الہی کے منکر تھے اور کچھ محض اعراض و روگردانی کے مرتکب تھے، جب کہ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، کہ موجودہ دور میں بھی ایسے خاصے لوگ موجود ہیں جو اہل جاہلیت سے زیادہ آیات الہیٰ کے منکر و مخالف ہیں۔